طنز و مزاحمضامین

ثواب کا کاروبار

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

نیکی بدی‘ گناہ ثواب‘اجر وسزا یہ باتیں ہمارے ایمان اور عقائد کا حصہ ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اچھا کام کریں تو اس کا دنیا میں اور آخرت میں اچھا اجر ملے گا اور یہ کہ نیکی ہمیں خود کرنی ہے کسی اور سے کروانی نہیں ہے لیکن بھلا ہو اس کاروباری دنیا کا کہ ثواب کے کام میں بھی تجارت داخل ہوگئی ہے جسے ہم ثواب کا کاروبار کہہ سکتے ہیں۔ جب کبھی اپنے کسی عزیز کا انتقال ہوتا ہے تو ہم میں سے اکثر برائے اطلاع انتقال کی خبر اخبار میں شائع کراتے ہیں کہ دور دراز کے لوگ اور جان پہچان والے اگر جنازے میں شرکت نہ کر پائیں تو کم از کم اخباری اطلاع پڑھ کر مرنے والے کے افراد خاندان سے اظہار تعزیت ہی کر لیں، اس غرض سے انتقال کی خبر میں مرنے والے کے کسی قریبی عزیز کا فون نمبر دیا جاتا ہے۔ ایسے ہی کسی عزیز کے انتقال پر جب ہم نے اخبار میں انتقال کی خبرمع فون نمبر شائع کروائی تو دوسرے دن حیرت کی انتہا نہ رہی جب ایک دو نہیں کئی اداروں اور احباب کی جانب سے فون آیا کہ ہم آپ کے عزیز کے انتقال پر اظہار تعزیت کرتے ہیں، اگر آپ چاہیں تو ہم مرنے والے کے حق میں قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی کریں گے اور اگر ہم اس معاملے میں ہاں کہتے تو امید تھی کہ اچھی خاصی رقم کا مطالبہ بھی کیا جاتا۔ لیکن ہم نے کہہ دیا کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہم خود اور ہمارے افراد خاندان اس کام کو کرلیں گے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ لوگ اخبار کی خبروں کا کس طرح بے جا استعمال کر رہے ہیں۔اکثر گلی کوچوں پر لگے کھمبوں پر ایک اشتہار یہ بھی نظر آتا ہے کہ آیت کریمہ پڑھوانے کے لیے ہم سے رابطہ کریں۔ پتہ چلا کہ کچھ بزرگ لوگوں کا ایک گروپ ہوتا ہے جو کسی کے بلانے پر آیت کریمہ پڑھنے چلے جاتے ہیں اور ظاہر بات ہے کہ اچھا کھانا کھانے کے بعد ہدیے کے طورپر اچھی خاصی رقم بھی ملتی ہوگی۔ پہلے دینی مدارس کے یتیم بچوں کو گھروں کو قرآن خوانی اور آیت کریمہ پڑھنے کے لیے بھیجا جاتا تھا، لیکن اب یہ کام کم ہوگیا ہے اور مدرسے میں ہی دعا و ختم قرآن کرایا جاتا ہے اور جس کے لیے ہدیہ بھی دیا جاتا ہے۔پیسے لے کر قرآن پڑھنے والوں کی بھی کئی قسمیں ہیں، کچھ لوگ کاروبار میں برکت کے لیے حافظ صاحب کو دکان پر بلوا کر قرآن پڑھواتے ہیں کچھ لوگ فون پر پڑھتے ہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اتنی رقم دو ہم اتنے قرآن کا ثواب پہنچادیں گے، یہ موجودہ دنیا کی ایک کڑوی حقیقت ہے اور ہماری بے دینی کا منہ بولتا ثبوت کہ ہم جب ایصال ثواب پر یقین رکھتے ہیں تو یہ کام خود کیوں نہیں کرتے۔ ہم ثواب کے حصول کے آسان طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اس کی کئی مثالیں حیدرآباد اور شہروں میں بڑھتی گداگری ہے۔ ٹریفک سگنل پر جب بھی گاڑیاں ٹھہرتی ہیں تو مانگنے والے کار اور گاڑی کے قریب آکر مانگنے لگتے ہیں اور ہم ثواب حاصل کرنے کی غرض سے بغیر تحقیق کیے ان لوگوں کو خیرات میں دس بیس کا نوٹ دے دیتے ہیں کیوں کہ اب چلر سکے نہ ہمارے پاس موجود ہوتے ہیں اور نہ فقیر انہیں لینے تیار ہوتے ہیں۔اب تو گوگل پے سے بھی رقم وصول کی جارہی ہے۔ ماہ رمضان میں حیدرآباد میں ساری ریاست سے مانگنے والے شہر پہنچ جاتے ہیں اور ایک مہینے میں ان کے پاس اتنی رقم جمع ہوجاتی ہے جس سے ان کا سال بھر کا گزارا ہوجاتا ہے۔لیکن ان مانگنے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو دو ہاتھ دو پیر کے ہٹے کٹے ہوتے ہیں اور مانگے ہوئے پیسوں سے شراب گانجہ پیتے ہیں۔ گداگری کے گروہ بھی مشہور ہیں جو بچوں کو جان بوجھ کر معذور کردیتے ہیں اور ان سے خیرات کا کام لے کر انہیں شام میں معمولی رقم دیتے ہیں، کچھ لوگ میک اپ اور جھوٹ موٹ کی معذوری کرکے بھیک مانگتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔ مانگنے کا ایک نیا طریقہ کسی غریب کے بارے میں آڈیو ریکارڈنگ ہے اور معذور شخص اسپکیر کے ذریعے مسلسل ایک ہی ریکارڈنگ چلا کر گلی کوچے پھرتا ہے اور اسپیکر سے نکلنے والی درد بھری آواز سن کر لوگ اپنے گھروں سے نکل کر روپیہ دینے لگتے ہیں۔ گداگری کے بارے میں یہ بات بھی بہ طور لطیفہ مشہور ہوئی کہ ایک فقیر جب اپنی بیٹی کی شادی کسی فقیر سے کرتا ہے تو جہیز میں وہ مانگنے کے لیے اپنے داماد کو وہ اہم مقام دیتا ہے جہاں اسے زیادہ سے زیادہ بھیک ملتی ہے۔ آج کل بسوں اور ٹرینوں میں بھی مانگنے والے کئی قسم کے نظر آنے لگے ہیں۔ جو چار زبانوں میں ہمدردی کا پرچہ شائع کرواتے ہیں اوربس میں بیٹھے مسافروں کو پرچہ بانٹ کر پیسہ مانگتے ہیں۔ اوران کی اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی ہے۔ثواب کے کاروبار کے ماڈرن طریقے بھی وجود میں آگئے ہیں بعض این جی او کے نام پر تنظیموں کی جانب سے بیمار ‘آپریشن یا کسی شدید ضرورت کی خاطر لوگوں کے ہمدردی کے ویڈیو بنا کر گوگل پے سے بھاری رقم وصول کی جاری ہے اور کمیشن لیا جارہا ہے۔ اس معاملے میں حقیقی لوگ کم اور فریبی زیادہ ہیں، عالمی سطح پر بھی تنظیمیں پیسہ لیتی ہیں اور درد بھرے مناظر دیکھ کر ہم گھر بیٹھے ثواب کی امید میں رقومات منتقل کرتے رہتے ہیں، اس جانب بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔ کہتے ہیں کہ صدقہ بلاﺅں کو ٹالتا ہے، ایک بیوی سے بیزار شخص مولانا سے پوچھنے لگتا ہے کہ مولانا میں جتنا چاہے صدقہ دوں گا ،میری سب سے بڑی بلا میری بیوی ہے کیا وہ صدقے سے ٹل جائے گی۔ مولانا نے یہ بھی کہا کہ ہم کسی کو بھیک دے کر احسان نہیں کر رہے ہیں بلکہ بھیک لینے والا ہم پر احسان کر رہا ہے کہ وہ خیرات قبول کرکے ہمارے لیے حصول ثواب کا ذریعہ بنے۔ یہ حقیقی ضرورت مند کو دینے پر ہوگا۔ بہرحال ہمارا اور آپ کا ماننا ہے کہ اس جہاں میں اللہ سب کو روزی روٹی دیتا ہے لیکن یہ شعور بیدار ہونا ضروری ہے کہ ہم ثواب کے کاروبار میں ملوث فریبی لوگوں سے چوکنا رہیں اور حقیقی ضرورت مندوں کو خود مدد کرکے حقیقی ثواب کے حق دار بنیں۔