جی 20 ٹور ازم ورکنگ گروپ….منازل اور اہداف
رشید پروین
جی ٹونٹی ٹور ازم ورکنگ گروپ کا سہ روزہ اجلاس کشمیر کے گرمائی دارالخلافہ سرینگر میں بالخیر اپنے انجام تک پہنچا اور اس گروپ نے اپنے آخری روز رم جھم برستی بارشوں کے مابین مغل باغات کی سیر کی ، اسمارٹ سٹی پولو ویومارکیٹ کے خدو خال اور نقوش سے اس سٹی کے حسن میں اضافے کا اندازہ بھی لگایا ، کشمیر کے مشہور زمانہ ہینڈی کرافٹس کا معائنہ کیا اور شاید کوئی خریداری بھی کی ہو۔ ڈل کی حسین شاموں اور اور خوبصورت صبحوں کے حسن بے حسین کے جلوے بھی دیکھے اور یہ کہنے اور لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ کشمیر کے مشہور زمانہ وازہ وان وغیرہ سے بھی بہت ہی اچھی طرح سے اس دوران لطف اندوز ہوتے رہے ۔ اس سمٹ کے لیے فقیدالمثال سیکورٹی انتظامات تھے ، جن میں شہر کے اندر اور بیرون شہر ہزاروں ناکے بھی لگائے گئے تھے ، اور کسی بھی سچویشن سے نمٹنے کے لیے سخت انتظامات بھی تھے یہاں تک کہ دکاندروںاور کرایہ داروں کی تفصیلات پہلے ہی حاصل کی گئی تھیں ،اور انہیں کچھ ہدایات سے بھی پہلے ہی آگاہ کیا گیا تھا کہ دکانات کب کھلے ہونے چاہیے اور کب بند رہیں گے ،، یہ بھی آپ کو معلوم ہی رہا ہوگا کہ جھیل ڈل میں اس دوران میرین کمانڈوز بھی تعینات کیے گئے تھے ، جو مسلسل سیکورٹی کے فرائض انجام دے رہے تھے ، کسی بھی عام یا خاص انسان کی اس سمٹ تک رسائی ممکن نہیں تھی سوائے ان میزبانوں اور چند اعلیٰ درجے کے آفیسروں کے ۔سب سے اہم اور پہلی بات یہ دیکھنا ہوگا کہ کشمیر میں اس ایونٹ کا انتخاب کیوں اور کن وجوہات کی بنیاد پر کیا گیا تھا ؟ ، پہلی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کشمیر کے بارے میں یہ تاریخ ابھی تک نہیں بدلی ہے کہ یہ دو ممالک کے درمیان ایک disputedیا متنازعہ خطہ ہے اور اس کی گواہی آج بھی بہت ساری وہ قراردادیں ہیں جو سلامتی کونسل کے گوداموں میں موجود ہیں ،جن پر ہوسکتا ہے کہ اب اتنی دھول جمی ہو کہ ان فائلوں کی پہچان اور شناخت ہی ختم ہوچکی ہو ، اس لیے اس جگہ کو جی۲۰ سمٹ کا جائے مقام قرار دینا ،دنیا کو یہ باور کرانا ہی تھا کہ کشمیر میں all is well ہے اور کہیں پر اس وادی گلپوش، دلفریب اور دلکش میں مست و مدہو ش حسن کے سوا کہیں بھی کچھ اور نظر نہیں آتا ، ہر طرف حسن اور اس حسن کی رعنایاں اور بانکپن ہی محو رقص نظر آتا ہے اور کچھ نہیں ۔ ، دوئم اور بہت ضروری نقطہ یہ تھا اور رہا ہوگا کہ ۵ اگست ۲۰۱۹ کے ایڈونچر ، ایبارگیشن آف ۳۷۰ وغیرہ پر بہت سارے ممالک نے جہاں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا، اس سمٹ سے ساری دنیا میں یہ پیغام دیا جائے کہ کشمیری عوام سکھ اور چین کی بنسری بجارہے ہیں اوراس عوام نے نیرو کا ریکارڈ بھی توڈ دیا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو (بادشاہ ) اس وقت بھی بنسری بجانے میں مست و مدہوش تھا ، سوئم یہ کہ ایبار گیشن کے بعد سے اس مختصر سی مدت میں یہاں ڈال ڈال اور پات پات اب سونے کی چڑیاں چہچہار ہی ہیں اور وہ پرانی اضطرابی ، انتشاری ا ور بے کیف راتیں ڈھل چکی ہیں اور اب ایک نئی سحر اور نئی صبح کا سورج طلوع ہو کر اپنی ضو فشانیاں کر رہا ہے ، اور سب سے بڑی وجہ یہ کہ اب کشمیر میں کہیں پر بھی بنیادی حقوق کی پامالی نہیں ہورہی اور عوام ایک جمہوری فضا میں سکون کے ساتھ سانسیں لے رہے ہیں ، اور۔ ایک اور اہم ہدف شاید یہ بھی رہا ہو کہ اب ساری دنیا کو باور کرایا جائے ، بشمول پاکستان کے بھی کہ اب ان کے لیے ، اور ساری دنیا کے لیے اس مسلے میں نہ تو کوئی جان رہی ہے ، اور نہ ہی کہیں پر زمینی سطح پر یہ مسئلہ نظر آتا ہے یا یوں کہ اِن تلوں میں اب کوئی تیل نہیں بلکہ ستر سال کے بعد اب یہ مسئلہ معدوم اور ماضی کی دھند میں اپنی افادیت اور اہمیت کھو چکا ہے ، اور یہاں کے عوام ، اسی طرح پُرسکون اور شانت ہیں جس طرح سے وہ ماضی میں ان دنوں تھے جب انہیں ۷۵۰۰۰۰۰ لاکھ نانک شاہی سکوںکے عوض بیعنامہ امرتسر کے تحت ۱۶ اکتوبر ۱۸۴۶ کو سرکار انگلشیہ نے گلاب سنگھ جی کو بیچا تھا ،، ( دہقان و کشت ،وجوئے و خیابان فروختند۔۔ قومے فروختنند و چہ ارزاں فرختنند ) اس کے ساتھ ہی سمٹ سے باقی دنیا کو یہ بھی ایک پیغام دیا گیا ہے کہ کشمیر میں جی ۲۰ کی میزبانی سے دنیا کے بڑ ے اقتصادی پاور فل ممالک بھارت کے ۵ اگست ۲۰۱۹ کے سارے اقدامات کو درست ہی نہیں مانتے بلکہ ان کو سراہتے بھی ہیں اور یہ سب سے اہم بات ہے ۔ اب جہاں تک اس سمٹ کے سامنے سرکار کی طرف سے بیانات کی صورت تاثر دیا گیا اور اپنی طرف سے جو حقائق تحریری اور تقریری طور پر پیش کئے گئے ، ان کے اہم نقاط کو ضبط تحریر میں لانابھی لازمی ہے ہم تو بس وہی الفاظ کوٹ کریں گے کیوں کہ یہی وہ جملے ہیں جو ہمیں یہ بتائیں گے کہ سرکار کا اس سمٹ سے مطلوب اور کیا اہم پیغام تھا جو ان مندوبین کے ذریعے سے ارباب اقتدار ان ممالک تک پہنچانا چاہتا تھا اور ان باتوں کی عکاسی آنریبل لیفٹنٹ گورنر نے اپنی بریفننگ کے دوران کی ، جو موجودہ سرکار کے مشن کی عکاسی ہی نہیں بلکہ شرکا کے لیے بڑی اہمیت کا حامل تھا۔انہوں نے کہا کہ کشمیر اب بہت تیزی سے ترقی کے منازل طئے کر رہا ہے ، مطلب یہ کہ ۵اگست ۲۰۱۹ کے بعد ، کشمیر میں تعمیرو ترقی کی رفتار انتہائی تیز ہے ،در اصل ۳۷۰ کی وجہ سے ہی اس ترقی کے راستے بند تھے ، یہ اسٹیٹ منٹ بار بار بھارت کی طرف سے فلوٹ کیا گیا ، اور یہ بھی کہ راہ کے پتھر کو ہم نے ہٹا کر تعمیر و ترقی کے دروازے وا کیے ہیں ۔ دوئم یہ کہ اب اس وادی کے اندر کوئی انتشار نہیں ، ہڑتال نہیں ، اسکول بند نہیں اور علیحدگی پسند وںکی سر گر میاں سر زمین کشمیر پر کہیں نظر نہیں آتیں ، سوئم یہ کہ ہماری سیکورٹی ایجنسیوں نے ملی ٹینسی اور اس سے وابسطہ سرگرمیوں کا قلع قمع کیا ہے ، اور محترم لیفٹنٹ گورنر نے منگل کو راج بھون میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران یہ اہم بات بھی دہرائی کہ کشمیر اب حقیقی جمہوریت سے مستفید ہورہا ہے اور یہ بھی کہ کشمیری عوام پہلی بار حقیقی جمہوری طرز انداز سے مستفید اور لطف اندوز ہورہے ہیں ۔ یہ ایک بڑی بات تھی اور کشمیری عوام کے لئے بھی ایک نہایت عمدہ بات ہے کہ وہ اب جمہوری طرز نظام سے ” لطف اندوز “ ہورہے ہیں۔ ہم ان الفاظ کی خوبصورتی پر ضرور داد دیں گے لیکن تبصرہ نہیں کریں گے ۔ اس سے بھی بڑی بات محترم گورنر صاحب نے ایس کے آئی سی سی میں جی ٹونٹی کے اجلاس کے دوران اپنے خطاب میں یہ کہی کہ،، ”جموں و کشمیر یونین ٹریٹری کی سیاحت ملک کے کثیرالثقافتی اور کثیرالمذہبی اقدار کی عکاسی ہے “ ، جمہوری طرز نظام جو بر صغیر ہند وپاک میں رائج ہے ، اپنی نوعیت اور ماہیت میں ہی عجیب و غریب ہے ، یہ اس بر صغیر کی ایجاد ہے کہ وڈیرے ، سرمایہ داران نظام ،قبائلی اور ہزاروں برس پہلے کے برہمن واد، جس میں چار ذاتوں کی بنیاد پر آریہ سماج بٹا ہوا تھا ، کے ایک مکسچر کو جمہوری بوتل کی لیبل میں بیچا جاتا ہے ، اس نظام حیات نے عملی طور پر عوام کے بنیادی حقوق ہی غصب کئے ہوئے ہیں اور سیدھے سادھے الفاظ میں یہ منطق سماج اور معاشرے میں متعارف کرائی ہے کہ ،، ”جو ہم سے اتفاق نہیں کرتا ، ہم میں نہیں ، اور ظاہر ہے جو حکمراں جماعت سے نہیں وہ ملک اورقوم دشمن ہی سمجھا جائے گا۔ بھارت ، پاکستان اور بنگلہ دیش چونکہ ایک ہی کلچر اور سوشیو اکنامک نفسیات کے حامل ہیں ،اس لئے جمہوری پیرہن اگر چہ دلکش اور انتہائی دلفریب ہوتے ہیں لیکن ان کے اندر ان لبادوں میں ہیبتناک ڈراکیولائی وجود عوامی لہو پر ہی زندہ رہتے ہیں ، جس کی بد ترین مثال آج پاکستان بنا ہوا ہے۔ بہر حال ان جمہوری اور انصاف کے دعووں کو پرکھنے اور ان پر بات کرنے کا ہمارا بھی کوئی ارادہ نہیں کیوں کہ ہم بھی آپ کی طرح ہی گوشت و پوست کے انسان ہیں بس غالب کا یہ شعر برمحل یاد آرہا ہے کہ۔۔”
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چُپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
بہر حال یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ ۵ اگست ۲۰۱۹ کے بعد سے اب تک حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ نہ وہ مینسٹریم کی مدھر بولیا ںہیں اور نہ علحیدگی پسندوں کی گھن گرج ہے ، کسے بنیادی حقوق، انسانی اقدار اور ایک جمہوری، مساوات پر مبنی معاشرے کی تلاش اور جستجو ہے؟ اور شاید وہ سونے کی آزاد چڑیاں بھی ڈال ڈال پر صبح و شام اپنے نغمے فضا میں بکھیر رہی ہوں ، جیسا کہ کہا گیا ہے ، پر برا ہو اس بہرے پن کا جو خود ہی کچھ سننے کی حس سے محروم ہے اور بہر حال اندھے سے کیا پوچھنا کہ یہ رُت سہانی کب آئی تھی اور کیسے آئی تھی ، ہمیں تو بس اپنی کجی کی وجہ سے اپنے اخبارات تک اشتہاری پلندوں کے سوا کچھ نہیں لگتے اور قلم کار بھی انگلیوں کے قلم تراش کر لہو کی سیاہی سے لکھنا بھول چکے ہیں ، زباں و تحریر کی آزادی تو مغربی جمہوریتوں کی اثاث ہے ،بھلا اُن کا یہاں کیا کام۔ بہرحال دلی میں بھی اعلیٰ عہدیداروں سیکریٹری لیول پر اس ایونٹ کے بارے میں نہ صرف اطمینان کا اظہار کیا گیا بلکہ یہ تاثر دیا گیا یا پیدا ہو ا کہ سمٹ توقع سے بھی زیادہ کامیاب رہی ۔ سب سے اہم بات اور حق بات اس سمٹ یا ایونٹ کے بارے میں جیتندر سنگھ جی نے کی ہے جو کہ پارلیمنٹ ممبر بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ” کشمیر میں اس سمٹ کا انعقاد اپنے آپ میں ایک بڑا کارنامہ ہے کہ آج پہلی بار ہندوستان نے کشمیر کی سرزمین پر اس ایونٹ کوکامیابی سے انجام تک پہنچایا۔“
ایک زمانے میں ایک کرکٹ میچ کے دوران کرکٹ پچ ہی اکھاڑ دی گئی تھی۔ زمانے واقعی بدل چکے ہیں یہ الفاظ نہ صرف ایک حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں بلکہ مقاصد ،اور منازل پر کوئی تبصرہ کئے بغیر اور اس کے بغیر کہ اس سمٹ سے بھارت نے کیا پایا اور کس حد تک اپنے اہداف کے قریب پہنچا ، یہ ایک بڑی بات ہی کہی جاسکتی ہے ،جس کی بہت ساری توضیحات کی جا سکتی ہیں۔٭٭