سیاستمضامین

زعفرانی حکومت بے نامی جائیدادوں کے قابضین کے خلافسخت قانونی کاروائیوں کی تیاری کررہی ہےمعاشی طور پر دیوالیہ ہوتی ہوئی مرکزی حکومت کے پاس حصولِ دولت کا اس سے بہتر کوئی دوسرا راستہ نہیں

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ موجودہ حکومت قانون کا سہارا لے کر جو چاہے کرسکتی ہے۔
٭ اس مقصد کے حصول کے لئے 2016ء میں بے نامی جائیداد قانون میں ترمیم ہوئی۔
٭ قانون کا سہارا لے کر لاقانونیت ۔ عوام کی ہراسانی۔
٭ ظلم کا نشانہ کون ہوں گے؟ لمحۂ فکر۔
آج کل سوشیل میڈیا میں اور صحافتی حلقوں میں ایسی باتیں ہورہی ہیں کہ موجودہ زعفرانی حکومت2024ء میں اپنی امکانی شکست کو فتح میں تبدیل کرنے کے لئے انتہائی جارحانہ اقدامات کرسکتی ہے۔ ان میں ملک کی کم از کم تین غیر بی جے پی حکومتوں کے چیف منسٹرس کی گرفتاریاں ان کے اثاثہ جات کی ضبطی ‘ بے نامی جائیداوں پر چھاپے اور ان کی ضبطی اور دیگر کئی جارحانہ اقدامات ہوسکتے ہیں۔ حکومت کے پاس پیسوں کی کمی ہے۔ ملک 155لاکھ کروڑ روپیوں کا مقروض ہے اور کل آمدنی کا صرف22 فیصد حصہ سود کی ادائیگی میں صرف ہورا ہے۔ 2014ء میں یہ قرض صرف49 لاکھ کروڑ تھا اور اب زعفرانی حکومت کے تقریباً دس سال بعد یہ قرض ترقی کرتے کرتے 155 لاکھ کروڑ ہوگیا۔ ملک کی اس معاشی بربادی کے لئے ذمہ دار خودمرکزی حکومت ہے جس نے بڑے بڑے کارپوریٹس بینکس سے قرض حاصل کرنے کی سہولت بہم پہنچائی اور بینکوں سے ان اژدھوں کو قرض دینے کی سفارش کی اور کہا کہ ہم ذمہ داری لیتے ہیں کہ اگر یہ قرض ادا نہ ہوسکے تو ہم قرض کو (Write off) کردیں گے۔ کئی بار ایسا ہی ہوا اور قرض مرکزی حکومت نے معاف کردیا اور دوبارہ سہ بارہ ان ڈیفالٹرس کو قرض دیئے گئے ۔ ملک قرض کے بوجھ تلے دبتا چلاگیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ خزانہ خالی ہوچکا ہے اور اس بات کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ کچھ اور بینکس ڈوب جائیں گے اور ڈیپازیٹرس کو صرف5لاکھ روپیہ تین ماہ بعد ادا کئے جائیں گے کیوں کہ ہر بینک ڈیپازٹ کا انشورنس ہوتا ہے اور اس کی رقم زیادہ سے زیادہ حد5لاکھ روپیہ ہے ۔ قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ دو تین سال قبل رائے کی اشاعت کی گئی تھی کہ اب بھی وقت ہے ‘ بینکوں سے پیسہ نکال کر پوسٹ آفس اکاؤنٹ ڈیپازٹ اسکیم میںلگائیں جس میں صدر جمہوریہ ہند ضامن ہیں۔
بے نامی جائیدادیں ۔ حکومت کیلئے سونے کی کان
بے نامی جائیدادوں کے قانون میں سابق میں کافی روشنی ڈالی گئی تھی لیکن یہ ابھی ایک حقیقت ہے کہ لوگوں کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے اور وقتاً فوقتاً دوبارہ کہنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس قانون میں2016ء میں ترمیم ہوئی اور اس کی ترمیم کے بعد پردھان منتری نے ایک تقریر میں اعلان کیا تھا کہ میں نے تہیہ کرلیا ہے کہ بے نامی جائیدادوں میں چھپی لاکھوں کروڑ کی دولت کو خزانے میں داخل کرواؤں گا۔ اس قانون کو ہلکے میں نہیں لینا چاہیے۔
بے نامی قانون کیا ہے
اس قانون کے مطابق اگر کسی شخص کے نام پر جائیداد خریدی جائے اور اس کی قیمت کوئی دوسرا شخص ادا کرے توایسی جائیداد بے نامی جائیداد قراردی جائے گی اور ایسی جائیداد کو ضبط کرلیا جائے گا۔ اگر کوئی باپ اپنے بیٹے ‘ بیٹی ‘ بیوی کے نام پر خریدے اور خود پیسہ ادا کرے تو ایسی جائیداد بے نامی جائیداد ہوگی۔ ایسی صورت میں جبکہ جائیداد بیوی کے نام پر خریدی جائے اور اس کا پیسہ شوہر ادا کرے تو بیوی کے نام پر خریدی ہوئی جائیداد بے نامی جائیداد کہلائے گی۔ اگر اس بات کا علم انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کو ہو تو بیوی کے نام پر نوٹس آئے گی اور دریافت کیا جائے گا کہ اتنی بڑی رقم کے قانونی حصول کے کیا ذرائع ہیں اور یہ کہ کیا آپ نے اس آمدنی سے انکم ٹیکس ادا کیا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ جائیداد ضبط ہوجائے گی۔ لوگ غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی گئی دولت سے اپنے عزیزوں ‘ رشتہ داروں ‘ حتی کہ ملازمین کے نام پر جائیدادیں خریدتے ہیں ۔ حکومت نے احکامات جاری کئے ہیں کہ ہر رجسٹری کی اطلاع انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کو ترسیل کی جائے اور ہر رجسٹری کی اطلاع انکم ٹیکس کو ہوہی جاتی ہے۔
اب حکومت ہند اپنے ذرائع آمدنی بڑھانے کے لئے کمر بستہ ہے اور ہر وہ کام کرنے کو تیار ہے جس کا اندازہ بھی نہیں لگایاجاسکتا ہے۔ جائیدادوں کی قیمت کروڑوں روپیوں میں ہے۔ حکومت کا پلان ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایسی جائیدادیں ضبط کرکے فروخت کردے یا ہراج کردے۔
حکومت ہند کے لئے اس سے بہتر کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہوسکتا۔ ملک کی ساری دولت اپنے گجراتی ساتھیوں کے نام منتقل کرکے حکومت اب اپنے عوام کو لوٹنا چاہتی ہے۔
بعض نادان حضرات غیر ممالک میں رہ کر لاکھوں کروڑوں روپیہ کماتے ہیں اور اپنی بیوی سے ڈر کر جائیدادیں ماں باپ کے نام پر خریدتے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی خطرناک عمل ہے جو بعد میں یعنی والدین کے انتقال کے بعد وبالِ جان بن جاتا ہے اور دوسرے بھائی بہن ‘ ماں باپ کے ترکہ میں حقدار بن جاتے ہیںاور بات عدالت تک چلی جاتی ہے حالانکہ وہ اس حقیقت سے واقف رہتے ہیں کہ جائیدادیں بھائی کے پیسوں سے خریدی گئیں۔ ایک اور صورت ایسی پیدا ہوسکتی ہے کہ جب بیٹا ‘ پچاس سال کی عمر میں واپس آتا ہے اور باپ سے کہتا ہے کہ بابا ! میرے پیسوں سے خریدی ہوئی جائیداد میرے نام پر رجسٹری کروادیں تو والد صاحب کی رگِ انصاف پھڑکنے لگتی ہے اور کہتے ہیں کہ میں شرعی طورپر انصاف کروں گا اور شرعی حقوق کے مطابق اپنی جائیداد تقسیم کروں گا ۔ وہ اس بات کو مکمل فراموش کئے ہوئے ہیں کہ ان کے نام پر خریدی ہوئی جائیداد کے وہ امین ہیں اور یہ جائیداد ان کے بیٹے کی امانت ہے۔ اس مضمون کا لب لباب یہ ہے کہ بیٹوں ‘ بیٹیوں کے نام پر خریدی ہوئی جائیدادیں بھی بے نامی جائیداد قراردی جائیں گی ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ایسی صورت پیدا ہو تو کیا قانونی اقدامات کئے جائیں اور اگر صورت پیدا نہیں ہوئی ہے تو کونسے احتیاطی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ محنت سے کمائی ہوئی جائیداد قزاقوں کے شکنجہ میں نہ آجائے۔
قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ ماضی میں کئی مواقع پر اس ضمن میں مکمل آگاہی بہم پہنچائی گئی تھی اور قانونی موقف سے آگاہی کی اشاعت ہوئی تھی ۔ سب سے بہتر بات یہ ہوگی کہ ایسی صورت کے پیدا ہونے سے پہلے ہی دفاعی اقدامات کئے جائیں تاکہ سب کچھ ضائع نہ ہوجائے۔
مزید وضاحت کے لئے ذیل میں دی گئی ہیلپ لائن پر ربط قائم کریں۔ مکمل رازداری برتی جائے گی۔
ہیلپ لائن : 040-23535273 – 9908850090
اپارٹمنٹس ۔ فلیٹس کے رجسٹریشن میں مشکلات۔ خریدنے سے قبل احتیاطی تدابیر
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ زیرِ تعمیر یا تعمیر شدہ رہائشی کامپلکس میں فلیٹس کی خریدی کے خواہشمند افراد اشتہارات یا ایجنٹس حضرات کی باتوں میں آکر بلڈر/مالک سے رجوع کرتے ہیں اور پچاس ہزار تا ایک لاکھ روپیہ اڈوانس رقم ادا کرکے کاغذات کے زیراکس حاصل کرلیتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ مقررہ رقم ادا کرکے قبضہ حاصل کرلیا جائے گا اور پھر بعد میں رجسٹری ہوگی۔
خریدار حضرات کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ وہ جائیداد کے کاغذات کی زیراکس جو ردّی کاغذ کے برابر ہیں‘ کے لئے بھاری رقومات بلڈر/مالک کو ادا نہ کریں اور اس وقت تک ایک قدم بھی آگے نہ بڑھائیں جب تک کہ مکمل طور پر قانونی رائے حاصل نہ کریں۔
ہویہ رہا ہے کہ دو تا تین سو مربع گز اراضی پر کبھی بغیر اجازت تو کبھی G+1 کی اجازت حاصل کرکے G+6 کی بلندی تک پہنچ جاتے ہیں اور اپنے اپنے حصہ میں آئے ہوئے فلیٹس کی فروخت شروع کردیتے ہیں۔ یہ بات ذہن نشین کرلینے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی غیر مجاز تعمیر میں فلیٹس کی رجسٹری کی ممانعت ہے۔ آپ کو درج ذیل دستاویزات کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
-1 ابتدائی دستاویز۔ پہانی پترک۔ ابتدائی بیع نامہ۔
-2 بعد میں ہوئے بیع نامہ جات کے Links
-3 تعمیری اجازت نامہ۔
-4 منظورہ پلان۔
-5 حکومت کے نام پر ایک فلور کا لیا گیا رہن نامہ۔
ان ضروری دستاویزات کی نقول حاصل کرنے کے لئے کسی ڈپازٹ کی رقم کے ادا کرنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ ردی کاغذ کی کوئی زیادہ قیمت نہیں ہوتی۔ یہی صرف دو چار سو روپیہ ۔
اگر سب کچھ ٹھیک ہو تو آپ معاہدۂ بیع کرسکتے ہیں اور اس معاہدۂ بیع کا اعلان کم از کم ایک اخبار میں شائع کرواسکتے ہیں۔
اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ جس فرد سے معاہدۂ بیع کررہے ہیں‘ اسی سے رجسٹری کروائیں کیوں کہ اگر آپ فروخت کررہے ہیں تو اس کے نام رجسٹری کریں جس سے آپ نے معاہدہ کیا ہے۔
یہ منزل تمام ہونے کے بعد آپ از خود رجسٹرار دفتر جاکر دریافت کریں کہ فراہم کردہ دستاویزات کی بنیاد پر رجسٹری ہو بھی سکتی ہے یا نہیں۔ کیوں کہ گورنمنٹ اراضیات پر تعمیرات کی رجسٹری نہیں ہورہی ہے اور ان تعمیرات کی رجسٹری پر پابندی ہے جو اجازت کے بغیر تعمیر کی گئیں ہیں یا اجازت نامہ کی خلاف ورزی میں تعمیر کی گئی ہیں۔
سب سے بہتر بات یہی ہوگی کہ آپ اس ضمن میں قانونی مشورہ ضرور کریں تو اس بات کو یقینی بنایاجاسکتا ہے کہ جو جائیداد آپ خرید رہے ہیں وہ تمام نزاعات سے پاک صاف ہے اور اس کے خریدنے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں۔ یہی صورت کھلے پلاٹس خریدتے وقت بھی پیدا ہوگی۔ صرف وہی پلاٹس خریدیں جو محصور ہوں ورنہ زمین اگر کم ہوجائے تو اسے تلاش کرنا مشکل ہوگا کیوں کہ وہ اسی جگہ پر ہوگی مگر اس کی شناخت مشکل ہوگی۔