حیدرآباد
ٹرینڈنگ

سکریٹریٹ سے متصل مسجد کا متولی اورامام کون ہیں، کوئی نہیں جانتا!

مسجد روئے زمین کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے جہاں بندگان حق اپنے رب کی بندگی میں اپنی جبینیں سجدہ ریز کرتے ہیں‘ اس لئے اللہ رب العزت نے اسے اپنی جانب سے خصوصی عزت و شرف سے نوازا ہے۔ اسی طرح اسلام میں منصب امامت کی بڑی اہمیت ہے۔

حیدرآباد: مسجد روئے زمین کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے جہاں بندگان حق اپنے رب کی بندگی میں اپنی جبینیں سجدہ ریز کرتے ہیں‘ اس لئے اللہ رب العزت نے اسے اپنی جانب سے خصوصی عزت و شرف سے نوازا ہے۔ اسی طرح اسلام میں منصب امامت کی بڑی اہمیت ہے۔

متعلقہ خبریں
امام و مؤذن کیلئے رہائشی عمارت کا سنگ بنیاد
جدید سکریٹریٹ میں بھی واستو کا چکر، سی ایم دفترکو 9 ویں منزل پر منتقل کرنے کا فیصلہ

یہ مصلّیٰ درحقیقت رسول اللہؐ کا مصلّیٰ ہے اور ایک اعتبار سے باجماعت صلوٰۃ کی امامت کرنے والا فرد‘ اللہ رب العزت اور مقتدیوں کے درمیان قاصد ہوتا ہے‘ اسی لئے احادیث مبارکہ کے مطابق افضل شخص کو امامت کا منصب سونپا جاتا ہے۔

اکثر یہ شکایت ہوتی ہے کہ آئمہ کرام کی ناقدری کی جارہی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سکریٹریٹ سے متصل نوتعمیر شدہ مسجد کے امام کی وجہ سے ہی مصلّیٰ کی حرمت پامال ہورہی ہے‘ چونکہ ایک شخص جو خود کو قدیم سکریٹریٹ کے انہدام کے دوران شہید کردہ دو مساجد میں سے ایک مسجد کے امام ہونے کا دعویٰ کررہا ہے‘ وہ نئی مسجد کے مصلّیٰ پر جبراً قبضہ کربیٹھا ہے۔

اگر محمد رفیق نامی یہ شخص جو حافظ قرآن بھی نہیں ہے‘ کس طرح مسجد کا امام بن بیٹھا ہے جب کہ اس کے پاس احکام تقرر ہی نہیں ہے؟ اس کے دعویٰ کے مطابق یہ شخص دو مساجد کی شہادت کے بعد روپوش رہا ہے‘ دو مساجد کی شہادت کے بعد جب امت میں بے چینی پائی جارہی تھی کہ آیا مساجد کو منہدم کرنے سے قبل مساجد میں رکھے قرآن مجید کے نسخوں اور دیگر دینی کتب وغیرہ کو بحفاظت وہاں سے نکالا بھی گیا یا نہیں‘ تب بھی یہ شخص خاموش رہا مگر جوں ہی مسجد تعمیر ہوگئی یہ وارد ہوگیا اور مسجد کے مصلّی ٰ پر اپنا حق جماکرامامت کا منصب ہتھیالیا۔

نہ ہی امت نے اور نہ ہی حکومت نے اسے یہ مصلّیٰ سونپا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے بہت ہی خوبصورت مسجد تعمیر کی ہے اور اس کا شاندار پیمانہ پر افتتاح بھی کیا ہے مگر اس کے بعد حکومت اس مسجد سے غافل ہوگئی ہے جس کی وجہ سے ایک شخص اپنی مرضی سے امامت کے مصلّیٰ پر قابض ہوگیا ہے جب کہ ذرائع ابلاغ میں یہ بات بھی آئی تھی کہ سکریٹری محکمہ اقلیتی بہبود مسٹر عمر جلیل نے شیخ الجامعہ‘ جامعہ نظامیہ مولانامفتی خلیل احمد کے فرزند مولانا حافظ مشہود احمد ازہری کو اس مسجد کا خطیب مقرر کیا ہے۔

ان کے تقرر کے احکام جاری نہ ہونے کی وجہ سے محمد رفیق نامی شخص اس مسجد میں امامت کے فرائض انجام دینے لگا ہے جس کو نہ ہی قرآن مجید کی تلاوت کرنا آتا ہے اور نہ ہی وہ امامت کے مسائل و احکام سے واقف نظر آتا ہے۔ جہری صلوٰۃ میں اس شخص کی قرأت کے آڈیو کلپس سوشل میڈیا میں پچھلے دنوں گشت ہوئے جس پر علما کرام سے استفسار کرنے پر بتایا کہ ایسے شخص کو امامت نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کی اقتداء میں جتنے لوگوں نے باجماعت صلوٰۃ ادا کی ہے انہیں اپنی صلوٰۃ دوبارہ ادا کرنا ہوگا۔ ایک مسجد جس کی تعمیر ریاستی حکومت نے کی ہے اس کو نہ ہی وقف بورڈ کے حوالہ کیا گیا ہے اور نہ ہی حکومت نے اپنے کنٹرول میں رکھا ہے۔

مسجد کا کوئی متولی نہ ہونے کی وجہ سے سکریٹریٹ میں کام کرنے والے سرکاری مسلمان یہ سمجھنے لگے ہیں کہ وہی اس مسجد کے متوالیان ہیں جس کے نتیجہ میں مختلف گروپس اس مسجد میں اپنی مرضی کے موافق پروگرامس کرنے لگے ہیں۔ اگر حکومت اس جانب فوری توجہ نہ دی تو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ مسجد میں مسلکی اختلافات پیدا ہوں گے اور مختلف گروہ‘ اپنی مقصد براری کے لئے مسجد کو اکھاڑہ بناکر رکھ دیں گے۔

حکومت نے نہ ہی اس مسجد کے لئے خطیب‘ امام و موذنین اور مسجد کے انتظامات کی نگرانی کے لئے کسی کو مقرر کیا ہے۔ اگر حکومت اس سے بے بس ہے تو اس مسجد کو کسی مسلم تنظیم کو سونپ دے تاکہ وہ اس مسجد کے انتظامات احسن طریقے سے انجام دے سکے۔