سیاستمضامین

ساورکر پر فلم کا پورا ٹیزر جھوٹ کا پلندہ، فرقہ وارانہ ایجنڈا واضح

رام پنیانی

ملک میں دائیں بازو کے نظریے کے عروج کے ساتھ، ایسی فلمیں بنائی جانے لگی ہیں جو لوگوں کو تقسیم کرتی ہیں، فرقہ وارانہ قوم پرستی کے ہیروز کی قصیدہ خوانی کرتی ہیں اور بعض برادریوں کو ولن کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ ان میں پدماوت، سمراٹ پرتھوی راج، گاندھی بمقابلہ گوڈسے، کشمیر فائلز اور کیرالہ اسٹوری شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سی خالص پروپیگنڈہ فلمیں ہیں جو فنکارانہ آزادی کے نام پر عوام کے سامنے پیش کی جا رہی ہیں اور کئی انتہائی فحش ہیں۔ پروڈیوسرز ایسی فلمیں بنانے کے لیے بے چین ہیں کیونکہ ان میں سے کچھ خود دائیں بازو کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں اور کچھ جانتے ہیں کہ موجودہ حکمران اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ان کی فلموں کی تشہیر کریں گے اور وہ خوب پیسہ کمائیں گے۔
ایسی فلموں کی سیریز میں تازہ ترین فلم ’’سواتنتر ویر ساورکر‘‘ ہے، جس کا ٹیزر 28 مئی کو ریلیز کیا گیا تھا۔ اس دن ساورکر کا 140 واں یوم پیدائش تھا اور اسی دن کو پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کے لیے چنا گیا تھا۔ یہ ٹیزر صرف 73 سیکنڈ کا ہے۔ لیکن اتنے کم وقت میں بھی، یہ بہت سارے جھوٹ اور من گھڑت باتیں کہتا ہے جس کا مقصد ہندو قوم پرستی کے ہیرو ساورکر کی تعریف کرنا ہے۔ ساورکر آر ایس ایس میں نہیں تھے لیکن ان کی کتاب ’’ہندوتوا یا ہندو کون ہے‘‘ سنگھ کی نظریاتی بنیاد ہے۔
چونکہ آر ایس ایس نے جدوجہد آزادی میں حصہ نہیں لیا تھا، اس لیے وہ اپنے سیاسی ایجنڈے کے مطابق جدوجہد آزادی کے فرضی ہیرو تیار کرتی رہتی ہے۔ اس سلسلے میں ساورکر انہیں بہت عزیز ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی زندگی کے پہلے نصف حصے میں وہ انگریز مخالف انقلابی تھے۔ ان کی زندگی کے اس حصے کا حوالہ دیتے ہوئے ہندو قوم پرست ان کی تعریفوں کے پل باندھتے رہتے ہیں۔
ساورکر کی آئل پینٹنگ کی نقاب کشائی 1998 میں اٹل بہاری واجپائی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کے دور میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوئی تھی۔ اس معاملے پر جو بحث چھڑی اس میں ان کی زندگی کے دوسرے حصے پر بھی بحث ہوئی، جب وہ ہندو قوم پرستی کے مفکر کے طور پر ابھرے، دو قومی نظریہ پیش کیا اور برطانوی حکومت کی حمایت کی۔
اپنے دور حکومت میں واجپائی ساورکر کو بھارت رتن سے نوازنا چاہتے تھے لیکن اس تجویز کو اس وقت کے صدر کے آر نارائنن نے مسترد کردیا تھا اس کے بعد بھی انڈمان جیل میں ساورکر کے نام کی تختی لگائی گئی۔ گزشتہ نو سالوں سے نریندر مودی ملک پر حکومت کر رہے ہیں اور اس دوران ہر سال ساورکر کا یوم پیدائش بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے اور اس سال ان کے یوم پیدائش پر پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کیا گیا۔
فلم کے ٹیزر میں کہا گیا ہے کہ اصل میں صرف چند لوگ برطانوی حکومت کے خلاف لڑے اور آزادی کی جدوجہد میں شامل زیادہ تر لوگ محض اقتدار پر قبضہ کرنے والے تھے۔ یہ ان تمام ہندوستانی انقلابیوں کی توہین ہے جو ساورکر کی طرح معافی مانگ کر سیلولر جیل سے باہر نہیں آئے بلکہ وہیں اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ یہ ان لاکھوں لوگوں کی بھی توہین ہے جنہوں نے 1920 کی تحریک عدم تعاون، 1930 کی سول نافرمانی کی تحریک، ڈانڈی مارچ اور 1942 کی ہندوستان چھوڑو تحریک میں حصہ لیا۔ یہ بھگت سنگھ، چندر شیکھر آزاد اور ان جیسے بہت سے دوسرے انقلابیوں کی بھی توہین ہے جنہوں نے اپنی جانیں قربان کر کے برطانوی سلطنت کے خلاف جنگ لڑی۔ یہ نیتا جی اور ان کی آزاد ہند فوج کی بھی توہین ہے۔
ٹیزر ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ اگر گاندھی جی نے عدم تشدد پر اصرار نہ کیا ہوتا تو ہندوستان کو 35 سال پہلے یعنی 1912 میں ہی آزادی مل جاتی! ایسا لگتا ہے کہ فلم کا اسکرپٹ لکھنے والا شاید عالم تخیل کا مستقل رہائشی ہے۔ 1912 میں ساورکر انڈمان جیل میں تھے، کانگریس کے سینئر لیڈر بالگنگادھر تلک منڈالے جیل میں تھے اور گاندھی جنوبی افریقہ میں تھے۔ یہ واضح ہے کہ عدم تشدد نے ملک کو آزاد بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بھگت سنگھ جیسے انقلابیوں نے بھی آگے چل کر کہا کہ صرف عدم تشدد کی عوامی تحریک ہی ملک کو آزادی کی راہ پر لے جا سکتی ہے۔
ٹیزر میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ساورکر خودی رام بوس، بھگت سنگھ اور نیتا جی سبھاش چندر بوس کے لیے تحریک تھے۔ جھوٹ کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے! خودی رام بوس کو 1908 میں 18 سال کی عمر میں شہید کر دیا گیا تھا۔ 1857 کی جدوجہد آزادی پر ساورکر کی کتاب اس کے کئی سال بعد آئی۔ ساورکر خود 1906 سے 1911 تک لندن میں تھے۔ جہاں تک بھگت سنگھ کا تعلق ہے، اس نے 1857 میں ساورکر کی کتاب اور ان کی ایک اور کتاب ’’ہندو پادشاہی‘‘ کا ذکر بہت سی دوسری کتابوں کے ساتھ ضرور کیا ہے، لیکن تحریک کے ذریعہ کے طور پر نہیں نہیں بلکہ اقتباس کے ذریعہ کے طور پر۔ بھگت سنگھ کی تحریک کا ذریعہ غدر پارٹی کے رہنما کرتار سنگھ سرابھا تھے، جن کی تصویر وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے، اور لینن، جن کا ادب وہ شروع سے آخر تک پڑھتے تھے۔
بھگت سنگھ اور ساورکر کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔ ساورکر نے انگریزوں سے معافی مانگی اور یہ بھی کہا کہ وہ جس طرح چاہیں برطانوی حکومت کی خدمت کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم میں برطانوی فوج کو مضبوط بنانے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا اور انہیں حکومت سے 60 روپے ماہانہ پنشن بھی ملتی تھی۔ جب بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تو ساورکر نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔مختلف ذرائع سے یہ افواہ پھیلائی جارہی ہے کہ سبھاش چندر بوس نے ساورکر کے مشورے پر آزاد ہند فوج کی تشکیل کی تھی۔ اس میں حقیقت کا ذرہ برابر بھی حصہ نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جس وقت آزاد ہند فوج انگریزوں سے لڑ رہی تھی، ساورکر برطانوی فوج کی مدد کر رہے تھے۔ بوس کلی قوم پرستی کے حامی تھے جبکہ ساورکر مذہب پر مبنی قوم پرستی اور دو قومی نظریہ کے حامی تھے۔ بوس ساورکر اور جناح دونوں پر تنقید کرتے تھے۔ انہوں نے دونوں سے درخواست کی تھی کہ وہ ایک ساتھ جدوجہد آزادی میں شامل ہو جائیں لیکن یہ دونوں قومی تحریک کو کچلنے میں انگریزوں کی مدد کرتے رہے۔
اپنے اخبار ’’فارورڈ بلاک‘‘ میں ایک مضمون میں بوس نے لکھا، ’’ہندو مہاسبھا فرقہ وارانہ تقسیم پر زور دے کر اور تمام مسلمانوں کو ایک جیسا بتاکر ہندوستانی قوم پرستی کو ناقابل تصور نقصان پہنچا رہی ہے… ہم شری ساورکر کی خاطر ہندوستان کی بھلائی میں قوم پرست مسلمانوں کے تعاون کو نظر نہیں کرسکتے۔‘‘
اپنی کتاب ’’دی انڈین اسٹرگل‘‘ کے دوسرے حصے میں بوس نے لکھا ہے کہ ’’جب جناح یہ سوچ رہے تھے کہ انگریزوں کی مدد سے پاکستان کی تعمیر کے اپنے منصوبے کو کیسے عملی جامہ پہنایا جائے، ساورکر بین الاقوامی حالات سے پوری طرح غافل تھے اور صرف یہ سوچ رہے تھے کہ ہندو فوجی تربیت حاصل کر کے ہندوستان میں برطانوی فوج میں کیسے داخل ہو سکتے ہیں۔‘‘
فلم کے ٹیزر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے نیتا جی کی بیٹی انیتا بوس نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا، ’’مہاتما گاندھی کی طرح نیتا جی بھی لوگوں کو مذہبی اختلافات کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے خلاف تھے۔ ساورکر کے پیروکاروں کو نیتا جی کے ہندوستان کے ویژن کی حمایت کرنی چاہیے، ان کا استعمال ایسے خیالات کو پھیلانے کے لیے نہیں کرنا چاہیے جو یقینا ان کے نہیں تھے۔‘‘
تاہم ان دنوں بھارتی فلمی دنیا دائیں بازو کی ہندو طاقتوں کی خدمت میں مصروف ہے اور خالص جھوٹ پر مبنی ساورکر پر بننے والی فلم اس کی ایک اور مثال ہے۔

a3w
a3w