طنز و مزاحمضامین

کس طرح سے آئی ہے جماہی توبہ

حمید عادل

جماہی بن بلائے مہمان کی طرح ہوتی ہے ، یہ ہم پرکچھ اس طرح طاری ہوتی ہے کہ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم جماہی لے رہے ہیں … اس کی آمدکی کبھی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہوتی ہے،بس وارد ہوجاتی ہے …ہم نے جماہی کے نام پر اچھے اچھوں کو منہ کھولتے بلکہ منہ پھاڑتے دیکھا ہے،ان میں سے کچھ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو منہ پر ہاتھ تک نہیں رکھتے اور طرفہ تماشا یہ کہ بہت دیر تک منہ کھول کر بلکہ دل کھول کر جماہی لیتے جاتے ہیں …جیسے جما ہی نہ ہوئی کمائی ہوئی…
جماہی بڑی عجیب و غریب چیز ہے ، اسے ’’جمائی ‘‘لکھا جائے یا ’’جمہائی‘‘ آدمی کو ہر حال میں اسے لینے کے لیے منہ کھولنا ہی پڑتا ہے … ’’فرہنگِ تلفظ‘‘ کے مطابق ’’جماہی‘‘ درست اِملا ہے جب کہ اس کے معنی ’’انگڑائی‘‘ اور ’’جسم میں ذرا تناو آکر منھ کھل جانا‘‘ کے ہیں۔ ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ کے مطابق ’’جماہی‘‘ کے ساتھ ’’جمہائی‘‘ بھی درست ہے۔’’نور اللغات‘‘ کے مطابق ’’جماہی‘‘ اور ’’جمہائی‘‘ دونوں مستعمل ہیں، لیکن محاورات جیسے ’’جماہی آنا‘‘ اور ’’جماہی لینا‘‘ میں ’’جمہائی‘‘ کی جگہ ’’جماہی‘‘ درج ملتا ہے۔’’علمی اُردو لغت (جامع)‘‘ میں دونوں طرح کا اِملا (جماہی/ جمائی) درج ہے، مگر طرفہ تماشا یہ ہے کہ آگے جاکر مذکورہ لغت میں درج محاورات میں اِملا ’’جمائی‘‘ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا… ’’فیروز اللغات (جدید)‘‘ کے مطابق ’’جماہی‘‘ اور ’’جمائی‘‘ دونوں طرح کا اِملا دُرست ہے۔سب سے مستند حوالہ رشید حسن خان کی کتاب ’’انشا اور تلفظ‘‘ ہے، جہاں مذکورہ لفظ کا اِملا صرف ’’جماہی‘‘ درج ہے۔ یہاں حضرتِ ذوق کا شعر درج کرکے گویا ’’جماہی‘‘ پر مہرِ تصدیق ثبت کردی کہ:
نام میرا سن کے مجنوں کو جماہی آگئی
بید ِمجنوں دیکھ کر انگڑائیاں لینے لگا
جماہی لینا ایک لا شعوری عمل ہے ،جو عموماً تھکن ، کاہلی اور نیندکی علامت ہوا کرتا ہے ، آدمی اس وقت بھی جماہی لیتاہے جب وہ بورہونے لگتا ہے یا کوئی اسے بور کرنے لگتا ہے … مشکوک حیدرآبادی چھوٹی سی بات کو اس قدر طول دے کر بیان کرتے ہیں کہ سننے والا جماہی لینے کے لیے جب منہ کھولتا ہے تو پھر اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے …
آدمی جماہی نہ صرف لیتا ہے بلکہ دیتا بھی ہے ، یہ اس تیزی سے ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتی ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں…کسی کو جماہی لیتا دیکھ کر خود بھی بنا سوچے سمجھے منہ کھول دینا عام سی بات ہے … آخر آدمی کسی کو جماہی لیتا دیکھ کر خود بھی جماہی کیوں لیتا ہے ؟اس موضوع پر سائنسدانوں نے تحقیق شروع کردی… یہ سائنسدانوں کی ایسی ٹیم ہوتی ہے جو بات بات پر تحقیق کرتی ہے … یہ سائنسدان ’’ چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو‘‘ پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ’’روٹی کے نیچے کیا ہے ؟روٹی کے اندر کیا ہے ؟‘‘ پر تحقیق کو ہی غیر معمولی کارنامہ تصور کرتے ہیں …
سالوں سے یہ نظریہ قابل قبول سمجھا جاتا رہا ہے کہ بہت بڑا منہ پھاڑ کر ہوا سے آکسیجن جسم کے اندر لینا ، عمل تنفس کے لیے مددگار ہوتا ہے…لیکن وہ سائنسدان جنہیں کسی کروٹ چین نصیب نہیں ہوتا اور جو اس حجام کی طرح ہوتے ہیں جس نے گاہک نہ ملنے پراپنی پالتو بلی کی حجامت بنا ڈالی تھی، یہ ثابت کیا ہے کہ جماہی کا حقیقی مقصد دماغ کو آکسیجن فراہم کرنا نہیں ہوتابلکہ ہم اپنے دماغ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے جماہی لیتے ہیں۔ امریکہ کی اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک کے ارتقائی بائیولوجسٹ اینڈریو گیلپ کی تحقیق کے مطابق انسان تو انسان ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے تمام جاندار جماہی لیتے ہیں اور ایک جگہ اگر کوئی انسان جماہی لے تو وہاں موجود جانور بھی ایسا کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ سانپ اور مچھلی کے علاوہ کتے اور بلیوں کو بھی جماہی آتی ہے۔ یہاں تک کہ بچہ ماں کے رحم میں جماہی لیتا ہے۔
جب لوگ تھکے ہوئے ہوتے ہیں تو ہمارے جبڑوں کے مسلز حرکت میں آتے ہیں اور ہم لمبی سانس لیتے ہوئے ٹھنڈی اور صاف ہوا جسم میں داخل کردیتے ہیں۔سائنسدانوں کے اس بارے میں مختلف خیالات ہیں جیسے یہ عمل خون کے درجہ حرارت کو معمول پر لاکر دماغ کو ٹھنڈا کرتا ہے یا کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے یا آکسیجن کی سطح بڑھاتا ہے۔محققین کے مطابق جماہی ایک سرگرمی سے نکل کر دوسری میں منتقل ہونے میں بھی مدد فراہم کرتی ہے، یعنی طویل نیند کے بعد بیدار ہوئے ہوں یا طویل وقت تک کام کرکے آرام کرنے لگے ہوں، کسی تبدیلی کی توقع پر بھی ہم جماہی لیتے ہیں۔ تازہ ہوا سے’’دماغ کو ٹھنڈا‘‘ کرنا کسی ممکنہ کام کے لیے تیار ہونے کا بہترین ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔تحقیق کے دوران لوگوں کو جماہی لیتے ہوئے افراد کی ویڈیوز یا تصاویر دکھا کر خطرناک یا بے ضرر جانوروں منتخب کرنے کو کہا گیا۔نتائج سے معلوم ہوا کہ دیگر افراد کو جماہی لیتے دیکھ کر لوگوں کی شناخت کی صلاحیت فوری طور پر بہتر ہوگئی… یعنی دماغ کے ساتھ نظر بھی تیز ہوگئی …کسی کو جماہی لیتا دیکھنے کے بعد انہیں مختلف طرح کے ماحول میں چھپے شیر یا ہرن کی تصاویر دکھا کر شکار بننے والے جانور کو تلاش کرنے کی ہدایت کی گئی ۔ لوگوں کو جماہی لیتے دیکھنے کے بعد رضا کاروں نے بہت تیزی سے شیر کو ڈھونڈا جب کہ ہرن کو دیکھنے میں انہیں وقت لگا …
جماہی لینا یوں تو نہایت فضول سا عمل معلوم ہوتا ہے ، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم عموماًنیند کی کمی سے نمٹنے کے لیے جماہی لیتے ہیں لیکن یہ ہمیں جگا کر نہیں رکھتی ہے بلکہ دماغ کو صحیح درجہ حرارت پر کام برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے…کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی تھکن دور کرنے کے لیے ایک عدد انگڑائی لیتے ہیں اور اس میں چپکے سے جماہی بھی جم جاتی ہے اور اس طرح ہماری انگڑائی کا ذائقہ دو گوشتہ ہریس کی طرح دوبالا ہوجاتا ہے …البتہ جما ہی اور انگڑائی میں بنیادی فرق پایا جاتا ہے ،جماہی میں آدمی محض منہ کھولتاہے جب کہ انگڑائی لینے میں سارا بدن انگڑائی کا ساتھ دینے لگتا ہے ، انگڑائی لیتے ہوئے آدمی کی بے بسی کا اندازہ بس اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ دونوں ہاتھ اوپر کی سمت اٹھا لیتا ہے ، گویا کسی نے اسے’’ ہینڈز اپ‘‘ کہہ دیا ہو …شعرا حضرات نے انگڑائی کو بھی نہیں بخشا ہے، انسان کے اس فطری عمل سے ایسا پھڑکدار شعر لکھ مارا کہ عاشق حضرات اچھل اچھل کر ایک مدت تک اسے دہراتے رہے :
انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دیئے مسکرا کے ہاتھ
نظام رامپوری
آج اس شعر کی اہمیت اس لیے بھی کم ہوگئی ہے کہ اب عاشقوں میں شعری ذوق بدستور کم ہوتا جارہا ہے، یہ بھی ایک بڑی وجہ ہوسکتی ہے کہ ان کے ہاں معشوق کی انگڑائی کی اب کوئی اہمیت باقی نہیں رہی ہے یا پھر ان کا عشق اب انگڑائیوں کا قائل نہیں رہا ہے۔
دوستو!کسی کو جماہی لیتا دیکھ کر جماہی لینا تو کجا اس کا ذکر بھی آپ کو جمائی لینے پر مجبورکردیتا ہے…اب آپ سے کیا چھپانا ہم اپنی تھکن اور نیند کی کمی کو جماہیوں کے ذریعے ہی دور کرتے ہیں …سونے سے پہلے دو چار جماہی اور صبح اٹھتے ہی دو چار جماہی لیے بغیر ہمارا گزارا ممکن ہی نہیں ہے …مشہور ادیب کرشن چندر’’ میرا من پسند صفحہ ‘‘ میں رقم طراز ہیں :
’’کچھ لوگ صبح اُٹھتے ہی جماہی لیتے ہیں، کچھ لوگ بستر سے اُٹھتے ہی ورزش کرتے ہیں، کچھ لوگ گرم چائے پیتے ہیں۔ میں اخبار پڑھتا ہوں اور جس روز فرصت زیادہ ہو اس روز تو میں اخبار کو شروع سے آخر تک معہ اشتہارات اور عدالت کے سمنوں تک پورا پڑھ ڈالتا ہوں۔ ‘‘ لیکن فی زمانہ لوگ سوشیل میڈیا دیکھتے ہیں اور اخبار ان کے ہاتھ میں آتا تو جماہیاں لینا شروع کردیتے ہیں …
مزاح نگار گل نوخیز اختر ’’ بڑھاپے کی نشانیاں‘‘ میں رقم طراز ہیں ’’بڑھاپے کا آغاز ہوتاہے تو اقوا لِ زریں اچھے لگنے لگتے ہیں‘کھلے گریبان والے لڑکے لوفر لگنے لگتے ہیں‘کھانے کے بعد ڈکار اور سونے کے بعد خراٹے آؤٹ آف کنٹرول ہوجاتے ہیں…‘‘ ساتھ ہی انہوں نے لکھا ہے ’’بیک وقت جماہی اور انگڑائی آنے لگتی ہے‘‘ …یہ بات ہمیں کچھ ہضم نہیں ہوئی ، جماہی کی کوئی عمر، ذات یا صنف نہیں ہوتی، یہ ہر کس و ناکس کو بے ساختہ آتی ہے اور حواس باختہ کرجاتی ہے ۔
پاکستان کے سابق کپتان سرفرازاحمد کو پچھلے ورلڈ کپ میں ہند ۔ پاک میچ کے دوران جماہی لینا خاصہ مہنگا پڑ ا تھا،پاکستان ، وہ میچ بری طرح سے ہار گیا تھا اور اس ہار سے زیادہ پاکستانی کرکٹ شیدائیوں کو یہ بات ستا رہی تھی کہ کپتان نے میدان پر جماہی کیسے لی…؟کچھ کا خیال تھا کہ سرفراز احمد نے ضرور رات میں پیزا برگر کھایا ہوگا تو کسی کا خیال تھا کہ انہوں نے ضرور خوب آئسکریم کھالی ہوگی …بہرکیف!سرفراز احمد کو سوشیل میڈیا پر اس قدر تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ جماہی لینا بھول گئے ہوں گے …آج جماہیلیتے بھی ہوں گے تو ادھر ادھرضرور دیکھتے ہوں گے کہیں کوئی مجھے دیکھ تو نہیں رہا ہے …
ہم نے ’’ جماہی ‘‘ کے موضوع پرزیر نظر مضمون قلمبند کرتے ہوئے بے شمار ’’جماہیاں‘‘ لی ہیں، اتنی کہ ہمارا منہ ، منہ نہ رہ کر’’ گھر جمائی‘ ہوگیا … عین ممکن ہے آپ بھی اسے جماہیاں لے لے کر پڑھ رہے ہوں… آپ کی جماہیوں سے ہم ہرگزنہیں سمجھیں گے کہ ہمارے مضمون نے آپ کو بور کردیا بلکہ ہم نئی تحقیق کی روشنی میں یہی سمجھیںگے کہ یہ دماغ کوٹھنڈا رکھنے میں مدد گار ثابت ہوا ہے…
معروف شاعرنذیر بنارسی کاایک شعر ہے :
کس طرح سے آئی ہے جماہی توبہ
توبہ توبہ توبہ ارے تباہی توبہ
مذکورہ بالا شعر میں پانچ بار شاعر نے ’’ توبہ‘‘ کی ہے…احتیاط علی محتاط کا خیال ہے کہ عین ممکن ہے عاشق کے روبرو معشوق بیٹھا ہواوراسے اسی وقت جماہیوں کا دورہ پڑا ہواور اس خیال سے معشوق نے توبہ پرتوبہ کی ہو کہ کہیں معشوق یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ عاشق مجھ سے بیزارہے …ہم سمجھتے ہیں کہ جماہی لینا کوئی اچھی بات نہیں ہے چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ نماز میں جہاں تک ہوسکے اسے روکا جائے …کیوں کہ دوران نماز جماہی کا آنا منجانب شیطان کہاگیا ہے ۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰