منور مرزا
یمن کی جنگ کے اختتام کا سفر شروع ہوچکا ہے۔حوثی باغیوں اور یمنی حکومت کے درمیان مسقط کی ثالثی میں چھہ ماہ کے لیے سیز فائر ہوا ہے اور توقّع ہے کہ یہ جنگ بندی اب حتمی ہوگی۔ پہلے قدم کے طور پر عبوری حکومت کا قیام اور قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی۔ یہ پیش رفت دراصل چینی ثالثی میں ہونے والے سعودی عرب، ایران معاہدے کا پہلا اور اہم ترین نتیجہ ہے۔ سعودی اور ایرانی وفود ایک دوسرے کے ممالک کا دورہ کرچکے ہیں، تکنیکی امور طے ہو رہے ہیں اور جلد ہی سفارت خانے کھلنے کی خوش خبری بھی آجائے گی۔یمن کی خانہ جنگی میں لاکھوں شہری ہلاک ہوئے اور ملک، جو ایک بین الاقوامی بحری شاہ راہ کے طور پر اہمیت رکھتا تھا، کھنڈرات میں بدل کر اپنی اہمیت کھو بیٹھا۔
اِس خانہ جنگی میں حوثی باغی اور حکومت ملوث رہے۔ حوثیوں نے، جو ایک جنگ جْو گروہ ہے، طاقت کے بَل پر یمنی صدر عبداللہ صالح کو محل سے نکال پھینکا اور ملک کو خون ریزی کی آگ میں جھونک دیا۔ عرب اسپرنگ کی کم زوری کی یہ ایک اور مثال ہے کہ افراتفری تو پیدا کردی، لیکن استحکام کی قوت ناپید رہی۔بغیر تیاری انقلاب کا یہی حشر ہوتا ہے۔سعودی عرب نے یمنی حکومت کا ساتھ دیا، تو ایران اپنے ہم مسلک حوثیوں کی پشت پناہی کرنے لگا۔شام کے بعد یہ سعودی عرب اور ایران کا سب سے گرم محاذ تھا اور تمام کوششوں کے باوجود فریقین ایک دوسرے کی بات سننے کو تیار نہ تھے۔خانہ جنگی کے سبب بھوک اور افلاس کا یہ عالم ہوا کہ عالمی ادارے یمن کے لیے ادویہ اور خوراک کی اپیلز کرتے کرتے تھک چکے ہیں۔اِسے ایک غیرمسلم طاقت، چین کی مہربانی ہی کہیں گے کہ جس نے یمن کے شہریوں کو اِس خانہ جنگی کے عذاب سے نجات دلائی۔ظاہر ہے،اِس خانہ جنگی کے اختتام سے علاقے کے تمام ممالک، خاص طور پر تنازعے میں ملوث ممالک کے باشندوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے یمن اور وہاں کی خانہ جنگی پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔یمن کی وجہ شہرت برطانوی نو آبادیاتی دَور اور عالمی جنگ میں اہم بحری شاہ راہ، باب المندب ہے، جس پر عدن کی بندرگاہ واقع ہے۔ ایک زمانے میں یہ دنیا کی مصروف ترین بندرگاہ تھی۔یہ بحرِہند کی پانچ اسٹریٹیجک بندرگاہوں میں شمار ہوتی رہی۔ 26 کلو میٹر طویل راہ داری بحرِ ہند کو بحرِ روم سے ملاتی ہے۔اس کے ایک طرف افریقی ملک جبوتی اور اریٹیریا ہیں، تو دوسری طرف عدن۔ دوسری عالمی جنگ میں اِس سے تیل، کوئلہ اور دوسرا تجارتی سامان گزرتا تھا۔باب المندب سے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ اْن پانچ راستوں میں سے ایک ہے، جس پر کسی کا تسلّط ہو، تو وہ بحرِ ہند پر قابو پاسکتاہے۔برطانیہ نے ایسا کر کے دِکھایا اور وہ عالمی طاقت بنا، لیکن اب اِس بندرگاہ کی ویسی اہمیت نہیں رہی کہ جدید ہتھیاروں نے اس کی اہمیت گھٹا دی۔ عالمی وبا کورونا اور یوکرین جنگ کے بعد یمن کی خانہ جنگی پر کوئی غور کرنے پر تیار نہ تھا۔ساڑھے تین کروڑ سے زاید آبادی کا یہ مْلک عرب، افریقی مْلک ہے۔ویسے یہ مغربی ایشیا میں واقع ہے، جس کا ایک چھوٹا سا حصّہ افریقا میں ہے۔یہ جزیرہ نْما عرب کے آخری سرے پر واقع ہے، شاید اِسی لیے اسے مشرقِ وسطیٰ میں شمار کیا جاتا ہے۔
سعودی عرب اور عمان سے اس کی سرحدیں ملتی ہیں، جب کہ بحری طور پر یہ اریٹیریا اور صومالیہ سے قربت رکھتا ہے۔چوتھی صدی میں اسلامی مملکت میں شامل ہونے کے بعد یمن نے اسلامی سلطنت کی وسعت میں اہم کردار ادا کیا۔ یہاں فوجوں کا مستقر تھا اور یہاں سے فوجی کمک افریقا اور جنوبی ایشیا بھیجی جاتی تھی۔گزشہ دو صدیوں میں اس کی تاریخ بہت ہنگامہ خیز رہی، کبھی برطانیہ کی نوآبادی رہا، تو کبھی عثمانی ترک سلطنت کا حصہ۔ گزشتہ صدی کے آخر میں یہ جنوبی اور شمالی یمن میں تقسیم ہوا اور پھر 1990 ء میں دوبارہ متحد ہوکر جمہوریہ یمن بنا۔بنیادی طور پر اس وقت یہ ایک کٹرسوشلسٹ ملک تھا۔
عبداللہ صالح اس کے پہلے صدر بنے، جو مسلم حْکم رانوں کی روایات کی پیروی کرتے ہوئے22 سال کی طویل حکم رانی کے بعد عرب اسپرنگ میں شدید مظاہروں کے بعد مستعفی ہوئے۔ ان آمروں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اپنے دورِ حکومت میں تو ترقی کے خواب بیچتے ہیں،مگر اْن کے جانے کے بعد پتا چلتا ہے کہ سب کچھ سراب تھا۔سیاست دانوں کو گالیاں پڑتی ہیں اور یہ بچ جاتے ہیں۔ صالح کے بعد منصور ہادی نے اقتدار سنبھالا، لیکن علیٰحدگی پسند حوثیوں نے اْن کے خلاف بغاوت کردی۔حوثی باغیوں کو ایران کی فوجی اور مالی امداد حاصل رہی، جب کہ ہادی کو سعودی عرب نے سپورٹ کیا۔شام کے بعد یمن کی خانہ جنگی ایران کی جارحانہ خارجہ پالیسی کا محور رہی۔وہ کْھل کر حوثیوں کی حمایت کرتا رہا جب کہ سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل ہادی کی پشت پر رہے۔
یمنی خانہ جنگی میں 56000 شہری ہلاک ہوئے اور شام کے بعد یہ گزشتہ دس سال کا بدترین انسانی المیہ ہے۔ عالمی اداروں کے مطابق یمن کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے، جس کی85 فی صد آبادی بے یارو مدد گار ہے۔کیا یہ کم المیہ ہے کہ یمن و شام کے عوام، اْن کے حکم ران اور مسلم دنیا اپنے ہی ہم مذہب بھائیوں کی ہلاکت و تباہی پر اْس وقت تک خاموش رہی، جب تک چین یا اقوامِ متحدہ نے آگے بڑھ کر کوئی امن معاہدہ نہ کروایا۔مسلم ممالک میں بیرونی سازشوں کا تو بہت ذکر ہوتا ہے،مگر افسوس اْن ممالک کے عوام اور حکم رانوں کی حماقتوں اور غلطیوں کا ذکر گول کردیا جاتا ہے۔ دنیا میں ترقّی کی دوڑ جاری ہے اور مسلم ممالک خانہ جنگی، باہمی دشمنیوں اور تنازعات ہی میں اْلجھے ہوئے ہیں۔
سعودی، ایران تنازع دراصل علاقائی برتری کی جنگ تھی، جس میں دونوں فریق فوجی، مالی اور انسانی وسائل جھونکتے رہے، لیکن اصل قصور بہرحال یمن کے عوام ہی کا ہے، جو اپنے خود ساختہ انقلاب کو پائے دار استحکام اور ترقی کی راہ پر نہ ڈال سکے اور تماشا بن گئے، جس میں ہر ملک دخل اندازی کرتا رہا۔ مشکل یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ سے جنوبی ایشیا تک مسلم ممالک بڑی طاقتوں کی دخل اندازی، اْن کی موجودگی اور سازشوں کا ذکر تو بہت کرتے ہیں، لیکن اْن کے جانے کے بعد خود اپنے معاملات سنبھال بھی نہیں پاتے۔یہ اْن کی لیڈرشپ کی کم زوری ہے یا عوام کی سوچ میں کوئی خامی یا اْن میں دنیا کے ساتھ چلنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔
ان ممالک کی کوئی منزل نظر نہیں آتی۔کبھی فلسطین میں اْلجھ جاتے ہیں، تو کبھی لبنان، شام، عراق، افغانستان یا یمن میں جنگ چھیڑ دیتے ہیں۔آخر جنوب مشرقی ایشیا میں بھی تو ملائیشیا، انڈونیشیا اور بنگلا دیش میں 46 کروڑ مسلمان رہتے ہیں، جو دنیا کی کْل مسلم آبادی کا چالیس فی صد ہیں، مگر اْنہیں تو کوئی ایسا مسئلہ نہیں۔ اْن کے خلاف کوئی سازش کرتا ہے اور نہ ہی کوئی اْنھیں ترقی سے روکتا ہے۔ وہ اپنے علاقے کے پْرامن اور ترقی یافتہ مْلک ہیں،جہاں جمہوریت بھی ہے۔
وہاں امریکہ، چین اور جاپان جیسی بڑی طاقتیں بھی ہیں،لیکن یہ ممالک اْن کے ساتھ شیروشکر ہیں۔ دخل اندازی، خانہ جنگی اور سازشوں جیسی مصیبتیں مسلم اکثریتی علاقوں ہی کی وراثت کیوں بن گئی ہیں؟ایرانی انقلاب کے بعد ایران کی خواہش تھی کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں قدم جمائے۔ اِس مقصد کے لیے اْس نے فلسطین اور لبنان میں پیش قدمی کی۔پھر عراق میں صدام حکومت کے خاتمے اور امریکی قبضے نے اْسے غیر معمولی مواقع فراہم کیے۔وہ امریکہ اور اسرائیل کا زبردست مخالف تھا، لیکن اس نے عراق میں اپنی مسلّح تنظیموں کے ذریعے امریکی اقدامات کی حمایت کی۔داعش کے زمانے میں اس کی مسلّح تنظیموں نے کْھل کر امریکہ کا ساتھ دیا۔
عرب اسپرنگ کو بھی اس نے ایک موقع جانا۔ شام کی خانہ جنگی نے ایران کو علاقے میں برتری کا اہم موقع دیا۔اس نے وہاں روس کے ساتھ مل کر شامی اپوزیشن کو، جو اکثریت میں تھی، کچلنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔عرب ممالک اور تْرکی شام میں ناکام رہے۔ایران نے یہاں کْھل کر فوجی مداخلت کی اور اس کی کام یابی میں روسی بم باری کا بنیادی کردار رہا۔ امریکہ، خاص طور پر صدر اوباما کی کم زور پالیسیز کا بھی اس میں بڑا ہاتھ ہے، جنھوں نے امریکی اور مغربی عوام کی اس خواہش کو بہانہ بنایا کہ وہ اب جنگ نہیں چاہتے، باوجود یہ کہ وہ شامی اپوزیشن کی مدد کے اقدامات اْٹھا چکے تھے۔
ایران سے نیوکلیئر ڈیل کرنے کی غالب خواہش اور امریکہ کے علاقے سے جانے کا بھی اس میں بڑا ہاتھ ہے۔شام میں چین نے روس کا ساتھ دیا اور اسد حکومت کو ہٹانے کی تمام کوششوں کو ویٹو کیا، جو کوئی مستحسن قدم نہیں تھا۔شام میں شکست کے بعد سعودی عرب اور ایران دونوں ہی مضبوط ہونے کی بجائے کم زور ہوئے۔ اْدھر تیل کی گرتی قیمتوں نے اْن کے سارے بل نکال دیئے۔امریکہ نے ٹرمپ کے آتے ہی ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل ختم کرکے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو خوش کردیا۔ اسی کے نتیجے میں اسرائیل سے عرب ممالک کے تعلقات قائم ہوئے، جو مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی انقلابی تبدیلی ہے۔ اس کے بعد یوروپ اور امریکہ کے فوجیوں کی عرب ممالک میں موجودگی ضروری نہیں رہی۔
اسرائیل چار مرتبہ عربوں کی مشترکہ فوجوں کو بدترین شکست دے چکا ہے، جس میں شام، عراق، مِصر اور اردن جیسے فوجی ملک بھی شامل تھے۔ اِس بار اْس کی خطّے میں پیش قدمی پہلے جنرل سلیمانی کی ہلاکت سے ہوئی، پھر اْس نے ایران کا ایک نیوکلیئر پلانٹ تباہ کیا اور ایران کے ٹاپ نیوکلیئر سائنس دان سرِعام قتل کیے۔ یہ سب اسرائیل کے ہاتھوں ہوا یا اْس نے ایسا کرنے والوں کو مدد فراہم کی۔ ترکی نے بھی عربوں اور اسرائیل سے تعلقات بحال کر لیے۔نیوکلیٓر ڈیل اور اقتصادی پابندیوں کے بعد ایران کا گھیراؤ تنگ ہوا۔ باوجود یہ کہ وہ تیل کا چوتھا بڑا پروڈیوسر ہے،لیکن دنیا سے کٹا ہوا ہے۔ اس کی اقتصادی کم زوری اْسے مجبور کر رہی تھی کہ وہ معاملات کی بہتری کے لیے آگے بڑھے۔یوکرین جنگ نے روس کی پْشت پناہی بھی ختم کردی۔
اس کے یوروپی حمایتی بھی امریکہ کے خلاف اس کا ساتھ دینے کو تیار نہ تھے، تو مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔عرب ممالک اْس کے ساتھ تھے، جب کہ روس اور چین کو بھی اسرائیل سے تعلقات عزیز تھے۔ظاہر ہے، ایسے حالات میں چین کی پیش کش ایران کے لیے اہم تھی جب کہ وہ سال بھر سے عراق کے ذریعے بھی سعودی عرب سے مذاکرات کر رہا تھا،جو ایک دانش مندانہ فیصلہ تھا۔ اندرونی عدم استحکام اور مسلسل عوامی احتجاج نے بھی اسے کم زور کر دیا ہے۔ ایران کی جارحانہ خارجہ پالیسی کم زور پڑتی گئی۔ایران کو یمن کے محاذ سے پیچھے ہٹانا کسی بھی معاہدے کے لیے سعودی عرب کی ایک اہم شرط تھی۔ چینی صدر اور جوبائیڈن کی انڈونیشیا کے جزیرے، بالی میں ہونے والی ملاقات میں نئی دنیا سے متعلق، جسے پوسٹ کووڈ دَور کہا جاتا ہے، بہت کچھ طے ہوا تھا۔
امریکہ تیل کے معاملے میں سعودی عرب سے سبکی اٹھا چْکا ہے۔اس لیے ایران سے معاہدے میں اْس نے کوئی رکاوٹ پیدا نہ کی۔ یوں مشرقِ وسطیٰ میں ایک غیر اعلانیہ مفاہمت ہوگئی، ویسے بھی امریکہ اب مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا کو کم ہی اہمیت دیتا ہے کہ اسرائیل اس کی پوری طرح جگہ لے چکا ہے۔یمن کا تنازع اور خانہ جنگی، جو ایک فضول سی کش مکش تھی، اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی ہے۔
سعودی عرب اور ایران اب اپنے تیل کی حکمتِ عملی بہتر طور پر وضع کرسکیں گے اور امریکہ اور دنیا سے اپنی بات منوا سکیں گے۔ایران، سعودی عرب کے ذریعے پابندیوں میں بڑی حد تک نرمی لاسکے گا۔چین جیسی بڑی طاقت اور اقتصادی قوّت انھیں سپورٹ کرے گی اور وہ آزادانہ طور پر فیصلے کرسکیں گے۔امریکہ کا فرنٹ رول گھٹے گا، سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے بعد ایران کے لیے نیوکلیئر ڈیل کی بحالی بھی ممکن ہوگی، کیوں کہ عربوں کے تحفّظات دور ہو جائیں گے۔اسے دنیا میں دوبارہ اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔سعودی عرب کی یمن تنازع سے جان چْھوٹ جائے گی اور وہ اپنی توانائی اور سرمایہ مناسب منصوبوں میں لگا کر دوبارہ تیل کے بحران سے بچ سکے گا۔
یمن میں استحکام آئے گا اور یہ ترقی کرسکے گا، اپنی جغرافیائی اہمیت سے فائدہ اْٹھا سکتا ہے۔ ایران، سعودی عرب کش مکش سے مشرقِ وسطیٰ اور دوسرے ممالک میں جو فرقہ ورانہ کشیدگی فروغ پا رہی تھی، وہ کم ہوگی، خاص طور پر بحرین اور جنوبی سعودی عرب میں حالات پْرسکون ہو سکیں گے۔کسی حد تک پاکستان اور وسطی ایشیا میں بھی اس طرح کی کشیدگی میں کمی آئے گی۔مسلّح تنظیموں اور فوجی یورشوں کا سلسلہ ختم ہوگا اور دہشت گردی میں کمی آئے گی۔یوں ایران، سعودی عرب معاہدہ نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پوری مسلم دنیا کے لیے امن کا پروانہ بن سکتا ہے۔
٭٭٭