سیاستمضامین

یونیفارم سیول کو نافذ کرنے کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں22 ویں لاء کمیشن اور ارکان کا تقرر ہوچکا ہےموجودہ زعفرانی حکومت قانونی ہتھیار سے لیس ہوکر ملک میں اسلامی شرعی قوانین کو پارہ پارہ کرنا چاہتی ہے

٭ نکاح ۔ طلاق۔ وراثت۔ تعدادِ ازواج اور دیگر اسلامی قوانین جڑ سے ختم کردیئے جائیںگے۔ ٭ سپریم کورٹ کی جارحانہ روش مختلف عوامل میں سے ایک ہے۔ ٭ 18ویں لاء کمیشن نے کہا تھا کہ یکساں سیول کو کا نفاذ ناپسندیدہ اور ناقابلِ عمل ثابت ہوگا۔ ٭ 18ویں لاء کمیشن کی رپورٹ کی ان سنی کیوں ہوئی؟ ٭ 7؍نومبر 2022ء کی تاریخ پر کمیشن کے چیرمین اور ارکان کا تقرر ہوچکا ہے۔ جسٹس ریتو راج اوستھی چیرمن مقرر ہوئے ہیں۔

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

دستورِ ہند کے آرٹیکل 44 میں صرف اس بات کا تذکرہ ہے کہ ریاست عوام الناس کیلئے ایک عام قانون تدوین کرے گی اسے (Directive Principles) کا ایک حصہ کہا جاسکتا ہے تاہم یہ ہدایتی اصول بنیادی حقوق کے متبادل نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ان کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب آرٹیکل 25 مکمل طور پر ہدایت جاری کرتا ہے کہ ہر شہری کو مکمل مذہبی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب اور اس کے اصول و ضوابط کو اختیار کرے اور اس معاملہ میں کوئی مداخلت ریاست کی جانب سے نہیں کی جائے گی۔
اس مسئلہ میں سپریم کورٹ نے ملک کے بہت بڑے طبقہ کے خلاف جارحانہ روش اختیار کی ہے اور وقت بہ وقت مرکزی حکومت کو تاکید کی ہے کہ وہ اس سمت کوئی عملی اقدام کرے۔ سپریم کورٹ نے اپنی ’’لامتناہی فہم و دانش اور جذبۂ انسانیت سے سرشاری‘‘ میں ایک ایسا بھی حکم جاری کیا کہ کوئی بھی شادی شدہ عورت اپنی مرضی سے کسی بھی شخص کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرسکتی ہے اور اس عمل میں کوئی لاقانونیت نہیں کیوں کہ اگر وہ اس طریقہ سے اپنے جذبات کی تسکین حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس میں برائی کیا ہے۔ لہٰذا دفعہ497 تعزیرات ہند کو غیر دستوری اور غیر قانونی قراردیا گیا۔ جس میں ایسی عورت کیلئے سزا تجویز کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک عورت کے جذبۂ حیوانیت کی پاسداری میں1860ء میں تدوین اس تعزیری دفعہ کو کالعدم قراردیا جبکہ ملک کے 22کروڑ مسلمانوں کے دل کی دھڑکن ‘ ان کے عائلی قوانین ‘ ان کے دین کے رہنمایانہ خطوط کے الہامی قوانین کو کالعدم قراردینے کی قانون سازی کرنے کے لئے ایک رٹ درخواست پر حکومتِ ہند کو نوٹس جاری کی۔ سپریم کورٹ نے دفعہ497 تعزیراتِ ہند کو برخواست کرکے عورتوں کو راحت و آسائش فراہم کی ہے کہ وہ اپنے شوہروں کے علاوہ کسی بھی محبوب کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرکے اپنے فطری جذبات کی تسکین کریں اور بے دھڑک یہ قبیح کام سرانجام دیں اور کسی پولیس والے حتی کہ اس عورت کے شوہر کو بھی اجازت نہ ہوگی کہ ایک عورت کے بنیادی حق کوپامال کرے۔
’’ پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے‘‘
ایک ایڈوکیٹ اشونی اپادھیائے نے یکساں سول کو ڈکو نافذ کروانے کی ایک رٹ درخواست پیش کی اس کے فوری بعد سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کی اور جواب دہی طلب کی۔ جوابدہی کیا ہوگی۔ یہ بات نوشتۂ دیوار ہے حکومت نے نہایت سرعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 22 ویں لاء کمیشن کے چیرمین کا تقرر کیا اور ساتھ ہی ارکان کا بھی۔ یہ عمل آج سے صرف13 دن قبل سرانجام پایا اور وہ دن دور نہیں جب یہ نوزائد کمیشن اپنی حتمی رپورٹ پیش کرے گا اور مرکزی حکومت نہایت عاجلانہ طریقے سے قانون کے بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے اپنی عددی برتری کے بل بوتے اس قانون کو بھی اسی طرح منظور کروالے گی جس طرح دستور کے آرٹیکل 370 کی برخواستگی کا قانون پیش کروایا تھا۔ اس قانون کا مسودہ بہت پہلے ہی تیار کروایا جاچکا ہے۔ صرف پارلیمنٹ میں بریف کیس کھول کر پیش کردینا ہی کافی ہوگا اور ہندوستان میں مسلمانوں کا صدیوں سے رائج عائلی انون ایک ندائی ووٹ سے ختم کردیا جائے گا۔
مجوزہ قانون کے مضراثرات اُمّتِ مسلمہ پر پڑیں گے
اس سے پہلے کہ اس مسئلہ پر بحث کی جائے یہاں اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ 18ویں لاء کمیشن نے اپنی طویل رپورٹ میں کہا تھا کہ اس قانون کا نفاذ بہت ہی مشکل ہوگا کیوں کہ یہ قانون ناقابلِ قبول ‘ ناقابلِ عمل اور ناپسندیدہ ثابت ہوگا۔ کمیشن نے ان الفاظ کا استعمال کیا تھا۔ Undesirable and Not Feasible ‘
یہ بھی کہا گیا تھا کہ عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ اس قانون سازی سے اختلاف کرے گا تو اس قانون کو لاگو کرنا اسٹیٹ پالیسی کے خلاف ہوگا ۔ آرٹیکل 25 کے مطابق مذہبی آزادی ایک بنیادی حق ہے اور دستور کی جانب سے عطا کردہ بنیادی حق کی پامالی ایک ناپسندیدہ اقدام ہوگا۔ تو پھر ایسی ضرورت کیوں آن پڑی کہ اس قانون کو عملی جامہ پہنایاجائے شائد یہ کہ ان تین انتخابی وعدوں میں سے ایک تھا ۔ دو کی تو تکمیل ہوچکی تھی اور صرف ایک باقی تھا جو اب ہوگا۔
اُمّتِ مسلمہ پر قانون سازی کے تباہ کن اثرات
گھر کو گھر کے چراغ سے آگ لگ جائے گی
(1) وراثت کے معاملہ میں بالکل یکسانیت رہے گی۔ بیٹا باپ کی زندگی ہی میں اپنا حصہ طلب کرے گا ۔ کوئی بھی جائیداد چاہے خریدی ہوئی ہو یا آبائی‘ بیٹے ‘ بیٹیوں ‘ بیوی کی مرضی کے بغیر فروخت نہ ہوسکے گی۔ شادی شدہ بیٹی وراثت میں بھائی کی بہ نسبت نصف حصہ پر راضی نہ ہوگی بلکہ بھائی کے مساوی حصہ طلب کرے گی۔ بیٹی آبائی جائیداد میں بھائی کے مساوی حصہ طلب کرنے سے پہلے یہ آفاقی حقیقت کو بھول جائے گی کہ اس کے بھائی پر اس کی بیوی اور بچوں کی کفالت کی ذمہ داری ہے جبکہ خود اس کی اور اس کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری اس کے شوہر کے سر ہے ۔ وہ یہ بات بھول جائے گی کہ اس کے اخراجات اور ذمہ داریاں بھائی کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں۔ سب ورثاء کا مساوی حصہ ہوگا۔ بیٹے کو بھی اسی قدر ملے گا جتنا کہ ماں کو اور بہن کو ۔ اسلامی قانون کے مطابق مرد کا حصہ عورت کی بہ نسبت دوگنا ہے لیکن اب صورت کچھ اور ہی ہوگی۔ نئے قانون کے مطابق اپنا حق جتنانے سے قبل عورت یہ بھول جائے گی کہ وہ احکاماتِ الٰہی کی پابند ہے لیکن تھوڑے سے مال کی چاہت میں وہ اللہ پاک کے قانون سے بغاوت کرے گی۔ ایک طرح سے یہ نافذ ہونے والا قانون ان لوگوں پر تازیانہ ثابت ہوگا جو معاملاتِ تقسیم ترکہ میں احکامات پر عمل آوری نہیں کررہے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کے پاس ایسا دستور نہیں ہے۔ لیجئے ! اب انتظار کیجئے۔ کیا یہ مکافاتِ عمل تونہیں۔؟
(2) طلاق و خلع کے معاملات : – تمام ایسے معاملات کے لئے عدالتوں سے رجوع ہونا پڑے گا جیسا کہ ہندو اور عیسائی عدالتوں سے رجوع ہوتے ہیں۔ طلاق حسن‘ طلاقِ احسن اور طلاقِ بائین کی کوئی حقیقت نہیں رہے گی۔ خلع بھی قصۂ پارینہ بن جائے گا۔ شادی کے فوری بعد عورت کا اپنے گھر پر اقتدار بڑھ جائے گا اور وہ اپنے شوہر اور دیگر سسرالی بزرگوں کا احترام نہیں کرے گی۔ کیوں کہ وہ جانتی ہوگی کہ اسے علاحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر طلاق کے لئے عدالت سے رجوع ہوں تو طلاق بہ آسانی نہیں ملے گی اور کورٹ میاں بیوی کو ایک (Cooling Period) میں ڈال دے گی تاکہ ان دونوں کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے۔ تو ایسی صورت میں (خدانخواستہ) شادی کرنے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑے گا۔ معاشرتی زندگی برباد ہوجائے گی۔ شوہر یا بیوی عدالت سے اگر کہیں کہ مخالف فریق کسی مرد۔ عورت سے ناجائز تعلقات بنائے ہوئے ہے تو عدالت کہے گی اس بات میں کیا برائی ہے۔ سپریم کورٹ نے از خود دفعہ497 تعزیراتِ ہند کو غیر دستوری قراردے کر کالعدم قراردیا ہے۔
ورثاء میں تقسیم جائیداد کا بہترین موقع
شائد یہ موقع بعد میں حاصل نہ ہو
اگر خدانخواستہ اس منحوس قانون کو زعفرانی حکومت پاس کروالیتی ہے تو تقسیم ترکہ کا مسئلہ بے حد خطرناک ہوجائے گا۔ لہٰذا اس سے پہلے کہ یہ قانون نافذ ہو تمام حفاظتی اقدامات کرلینے کی ضرورت ہے۔ ورثاء میں اپنی جائیداد اتنے حق کے برابر تقسیم کردینے ہی میں بھلائی ہے کیوں کہ بعد میں بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔ غیر مسلم وکلاء کی ورغلاہٹ پر عورتیں اپنے حقوق کے مطالبات کے مقدمات دائر کریں گی اور یہ عمل برسوں تک جاری رہے گا کیوںکہ ایسا آج بھی ہورہا ہے اور تقسیمِ ترکہ کے مقدمات کی تعداد عدالتوں میں بڑھتی جارہی ہے۔
اگر عاجلانہ خطوط پر تمام صاحبِ جائیداد اپنے ورثاء میں ان کے حق کے مطابق یا اپنی مرضی کے مطابق جائیدادیں تقسیم کردیں تو یہ ایک مستحن اقدام ہوگا۔
کیا یہ قانون دستور کے آرٹیکلس 29-25اور 30 کی خلاف ورزی میں پاس ہوگا؟
اگر مجوزہ قانون سازی ہوتی ہے تو دستورِ ہند کے آرٹیکلس 29-25 اور 30 کی صریح خلاف ورزی ہوگی۔ یہ تین دفعات اس بات کی گیارنٹی دیتے ہیں کہ ملک میں مکمل مذہبی آزادی ہوگی اور حکومت کسی بھی مذہب کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ ان دفعات کے تحت تمام شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دینی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے ان کے احکامات پر عمل کریں۔ اپنے کلچر کو فروغ دیں۔ ان معاملات میں ریاست کی جانب سے کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ اس بات کی گیارنٹی دی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بنیادی حقوق بالکل اسی طرح ہیں جس طرح دستور کے دفعات 19-16-14اور 21ہیں۔
ملک کی سپریم کورٹ عوام کے بنیادی حقوق کی نگہبان ہے اور وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ (Directive Principles) کہیں بھی اس کی اجازت نہیں دیتے کہ مندرجہ بالا دفعات کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ متذکرہ شخص کی جانب سے دائر کردہ رٹ درخواست کو قبولیت کے لئے تسلیم کرلیا گیا اور مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کی گئی۔ یہ عوامل اس بات کی غمّازی کرتے ہیں کہ مرکزی حکومت اپنا حلف نامہ داخل کرے گی کہ ہم اس ضمن میں قانون سازی کے لئے تیار ہیں ‘ لہٰذا رٹ درخواست کی یکسوئی کردی جائے گی اور قانون سازی کے لئے مرکزی حکومت کو ہری جھنڈی دکھائی جائے گی۔ تو یہ بات سوچنے کے لائق ہے کہ اس سارے عمل میں سپریم کورٹ کا رول کس حد تک ہوگا؟
حیدرآباد میں وسیع پیمانے پر 142 لنک روڈ کی تعمیر میں اراضیات کا حصول
شہرِ حیدرآباد میں وسیع پیمانے پر سڑکوں کی توسیع کاکام شروع ہورہا ہے اور 200 کروڑ روپیوں کی لاگت سے 143 لنک روڈز تعمیر کی جانے والی ہیں۔ لنک روز ایک روڈ سے متوازی دوسری روڈ کو ملاتی ہیں اور دونوں سڑکوں کے درمیان میں واقع اراضیات اور مکانات کی ضرورت پڑے گی۔ اس ضمن میں میونسپل کارپوریشن کے عہدیدار باہمی معاہدہ کے تحت درمیان میں واقع اراضیات حاصل کرنا چاہیں گے اور جو معاوضہ ملے گا وہ بالکل ہی قلیل ہوگا جبکہ ان مقامات پر اراضی کی قیمت ایک لاکھ روپیہ مربع گز سے کم نہیں۔
ایسے تمام مالکینِ جائیداد جن کی جائیدادیں ۔ اراضیات ۔ مکانات دو متوازی سڑکوں کے درمیان واقع ہیں وہ اس بات پر اصرار کریں کہ اگر ان کی اراضی مطلوب ہو تو قانونِ حصولِ اراضی کے تحت ہی حاصل کی جائیں اور وہ باہمی معاہدہ سے انکار کردیں۔
اگر اس کے باوجود بھی دباؤ ڈالا جائے تو وہ ہائیکورٹ سے بذریعۂ رٹ درخواست رجوع ہوکر موافق احکامات حاصل کرسکتے ہیں۔ ایسے احکامات ایسے مالکینِ جائیداد کو یقینی طور پر حاصل ہوجائیں گے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰