طنز و مزاحمضامین

ایک سفر ایسا بھی…

حمید عادل

جب بھی ہمیں محسوس ہوتاہے کہ ہم بس کے ذریعے وقت پر دفتر پہنچ نہیں پائیں گے، ہمارا دل اولے اولے تو نہیں البتہ ’’اولا، اولا‘‘ ضرور گنگنانے لگتاہے…’’اولا‘‘وہ ایپ جو گھر بیٹھے ہمیں سواری مہیا کرتی ہے …سڑک کی کھدوائی کی بدولت فی الحال کوئی بھی سواری ہمارے گھر تک آنے سے قاصر ہے …. محکمہ بلدیہ کے قابل عملے نے اِن دنوں شہر کی کئی ایک سڑکوں کو ادھیڑ کررکھ دیا ہے …مشکوک حیدرآبادی کا تو کہنا ہے کہ مذکورہ محکمہ خزانے کی تلاش میں ہے …
ہم نے دفتر جانے کے لیے موٹر سائیکل بک کی … میاپ نشاندہی کر رہا تھا کہ ہماری سواری مطلوبہ مقام کے قریب تک پہنچ چکی ہے ، ہم گھر سے نکل کر کچھ دور چلے تو دیکھا کہ ایک موٹر سائیکل ہمارے بالکل سامنے کھڑی ہے،ہم نے نمبر پلیٹ پر نظر دوڑائی تونظر نے کہا یہ وہ نہیں …لیکن اس پر سوار صاحب نے ہماری بھوکی نگاہوں کو تاڑ لیا، سو ہاتھ کے اشارے سے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا، جیسے کہہ رہے ہوں ’’تجھے ہے جس کی تلاش وہ میں ہوں‘‘… علیک سلیک کے بعد ہم نے ان سے اوٹی پی نمبر کہا اور پھرہمارا سفر شروع ہوگیا….
اولا ہویا کوئی اور ایپ، اس کے ڈرائیورس کی اپنی ایک کہانی ہوتی ہے ،ان کے اپنے مسائل ہوتے ہیں … کچھ کم سخن ہوتے ہیںتو کچھ چرب زبان، کچھ خشک مزاج ہوتے ہیں تو کچھ دلچسپ…جن صاحب کے ساتھ ہمارا سفر شروع ہوا، وہ خاصے دلچسپ معلوم ہوئے…انہوں نے ہماری مصروفیت کے بارے میں پوچھا اور جب ہم نے انہیں بتا یا تو وہ خوشی سے ایسے چہک اٹھے جیسے انہیں ہماری ہی تلاش تھی…کہنے لگے :
محترم! میں فلاں محلے کی فلاں مسجد کا امام ہوں ،مسجد جاتے ہوئے کوئی سواری مل جائے تو لے کر چلا جاتا ہوں اور واپسی میں بھی یہی عمل دہراتا ہوں، اس طرح کچھ آمدنی ہوجاتی ہے ۔‘‘
’’ اچھا! تو آپ صرف دن میں دو بار یہ کام کرتے ہیں ؟‘‘ہم نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’ نہیں نہیں ! جب کبھی موقع ملتا ہے ،ایپ سے جڑ جاتا ہوں ، آج کے دور میں امام کی تنخواہ کہاں گھریلو اخراجات پوری کرپاتی ہے ۔‘‘
’’ بات تو صحیح ہے۔‘‘ہم نے کہا
کہنے لگے ’’ 2010ء سے امامت کررہا ہوں ، تنخواہ صرف 14 ہزار ہے ، بیوی اور دو بچے ہیں۔ سسرالی گھر میں رہتا ہوں ،اس لیے کرایہ کا ٹینشن نہیں ، ورنہ ساری تنخواہ کرائے کی نذر ہوجاتی۔ جب بھی مسجد کے صدرصاحب سے تنخواہ میں اضافے کی بات کرتا ہوں ، ایک ہی جواب ملتا ہے ’’ جوتمہیں تنخواہ مل رہی ہے ، وہ بہت ہے ، تمہاری تنخواہ میں دیگر ریاستوں کے دو امام رکھ سکتا ہوں ،حیدرآباد میں تو اماموں کی گویا ’’ بہار‘‘ آئی ہوئی ہے ۔‘‘
’’اس وقت آپ کا کیا ردعمل ہوتا ہے ؟‘‘ ہم نے عمداً سوال داغا تاکہ ان کے تاثرات جان سکیں۔
سرد آہ بھر کر کہنے لگے ’’کیا کرسکتا ہوں ، چپ ہو جاتا ہوں ۔‘‘کمیٹی کے صدر ہمیشہ کہتے رہتے ہیں ’’ خرچ بہت ہے ، خرچ بہت ہے ،مسجد کے اخراجات کی تکمیل کیسے کررہا ہوں ، یہ میں ہی جانتا ہوں ۔‘‘
’’ مسجد سے منسلک ملگیاں بھی ہوں گی ناں۔‘‘
’’ جی بالکل ہیں! اُن سے ماہانہ ایک لاکھ بیس ہزار روپئے کرایہ آتا ہے ۔‘‘
’’ اور جمعہ کا چندہ؟‘‘ ہم نے سوال کیا۔
’’ وہ بھی خوب آتا ہے ، ہمارا علاقہ چونکہ کمرشیل ہے ، اس لیے لوگ دل کھول کر چندہ دیتے ہیں …اسی چندے سے تو ہماری تنخواہیں نکلتی ہیں ۔‘‘
’’ اور بجلی کا بل؟‘‘
’’ بجلی کا بل بھی چندے کی رقم سے ہی اداہو جاتا ہے ۔‘‘
’’ کتنا بل آتا ہے ؟‘‘
کہنے لگے ’’ چار پانچ ہزار روپئے ۔‘‘
’’کچھ زیادہ تو نہیں ہے ۔‘‘
’’ جی ! بالکل۔‘‘
’’ لیکن مسجد کے دوسرے اخراجات بھی تو ہوتے ہیں ناں…‘‘ہم نے کریدا۔
’’ وہ سارے جمعہ کے چندے کی رقم سے پورے ہوجاتے ہیں ۔‘‘ اور پھر قدرے توقف سے کہنے لگے ’’ جب بھی مسجد کوکوئی بڑی ضرورت ہوتی ہے، صدر صاحب اعلان کر دیتے ہیں اور لوگ مسجد کے تعاون کے لیے جوق در جوق آگے بڑھتے ہیں ۔‘‘
’’ کیا کوئی مصلی،مسجد کو ہونے والی آمدنی اور اخراجات کے بارے میں سوال نہیں کرتا؟‘‘
’’ کسی کے سوال کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جناب! کسی کوسوال کرنے کے قابل مسجد کے صدر چھوڑتے کہاں ہیں؟‘‘ ایک زور دار قہقہہ لگا کر امام صاحب نے کہا۔
’’ کیا کرتے ہیں ؟‘‘ہم نے سوال اچھالا۔
’’ مسجد میں اوود لوبان کا دھواں دیتے ہیں،تاکہ کوئی اپنی زبان ہی نہ کھولے ۔‘‘
ہم اس چونکا دینے والے انکشاف کو سن کر بے ساختہ ہنس پڑے’’ بڑی پہنچی ہوئی چیز معلوم ہوتے ہیں ، وہ صاحب۔‘‘
’’ بالکل ،صدر صاحب کی توپولیس اور دیگر محکمہ جات میں بھی خوب پہچان ہے ، پیسے خرچ کرتے ہیں اور ان کے کام منٹوں میں بن جاتے ہیں ۔‘‘
’’ یہ بتائیے انہیں مسجد کا صدر کس نے بنایا؟‘‘ ہم نے بے چین ہوکر سوال داغا۔
’’ کسی نے نہیں بنایا۔‘‘
’’ کیا مطلب؟‘‘ ہم حیران ہوئے۔
’’وہ خود بن گئے ۔‘‘
’’ وہ کیسے ؟‘‘
’’ محلے میں صدر صاحب کی شروع ہی سے اچھی پکڑ تھی،ان کا اپنا نام تھا،جب مذکورہ مسجد کے صدر کا انتقال ہوگیا تو وہ خود آگے بڑھ کر مسجد کے ذمے دار بن بیٹھے… لوگ چونکہ ان سے مانوس تھے، اس لیے کسی نے اعتراض نہیں کیا ۔‘‘امام صاحب نے تفصیل بتائی ۔
’’کیاکوئی مصلی ملگیوں کے کرایہ کے بارے میں بھی سوال نہیں کرتاکہ اتنی کثیر رقم آخر کہاں خرچ ہورہی ہے ؟‘‘
’’ کوئی نہیں پوچھتا،ملگیوں کے کرایے پر ہی کیا منحصر ہے ،لاکھوں روپئے ملگیوں کی پگڑی کے نام پر صدر صاحب وصول کرتے ہیں ، جس کا کوئی حساب نہیں ،وہ کس مد میں اس رقم کو خرچ کرتے ہیں ،کچھ نہیں معلوم… میں تو سمجھتا ہوںوہ اپنی سلطنت کے بے تاج بادشاہ ہیں ۔‘‘
’’ ہمیں تو وہ شہنشاہ نظر آرہے ہیں۔‘‘ ہم نے لقمہ دیا۔
’’ جی بالکل ‘‘کچھ دیر کے توقف کے بعد کہنے لگے ’’سنا ہے کہ مسجد کے اکاونٹ میں اہل خیر حضرات کی جانب سے یہاں وہاں سے کثیر رقم الگ سے آتی رہتی ہے ، جس کا کوئی حساب نہیں …صدر صاحب خود کہتے ہیں ، کوئی مجھ سے حساب نہیں پوچھ سکتا، اگر پوچھنے کی کوشش بھی کیا تو اس کا انجام برا ہوگا۔‘‘
’’ یہ تو دادا گری ہوئی ۔‘‘ ہم نے کہا۔
’’ پچھلے دنوں مسجد کی تزئین کے نام پر انہوں نے کچھ کام کروایا اور ا س کا خرچ چالیس لاکھ روپئے بتا دیا، مجھے تو اس میں بھی گھپلا معلوم ہوتا ہے ۔‘‘
ہمیں سخت افسوس ہورہا تھا کہ مسجد کی خدمت کے نام پر یہ صدر صاحب تواپنا الو سیدھا کررہے ہیں… جنہیں یہ تک نہیںپتا کہ وہ دوسروں کو الو بنا رہے ہیں یا خود الو بن رہے ہیں…یہ نادانی نہیں تو اور کیا ہے کہ آدمی اپنی آخرت فراموش کر بیٹھے۔
’’ صدر صاحب کا آگے کا کیا پروگرام ہے ؟‘‘ہم نے اگلا سوال کیا۔
’’ انہوں نے اپنے لڑکوں کو اپنا جانشین بنا ڈالا ہے ۔‘‘امام صاحب نے انکشاف کیا۔
’’وہ کیسے ؟‘‘
’’ پیسے خرچ کرنے پر کیا کام نہیں ہوتا! ارباب مجاز کی انہوں مٹھی گرم کرکے مسجدکے سارے معاملات کو مکمل طور پر اپنی مٹھی میںکررکھا ہے ۔‘‘
’’بڑے شاطر معلوم ہوتے ہیں۔‘‘
’’ جی ہاں! وقتاً فوقتاً یہی راگ الاپتے رہتے ہیں کہ مسجد کے اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں،مسجد کا ہزاروں روپئے ٹیکس سالانہ دینا پڑرہا ہے …میں بہت پریشان ہوں ، میری پریشانی کو کوئی نہیں سمجھتا…‘‘ میں نے محکمہ ٹیکس کے ایک عہدہ دار سے جو اکثر ان کے ہاں آتا جاتا ہے ، ٹیکس سے متعلق دریافت کیا تو وہ کہنے لگا ’’ آپ کے صدر صاحب دس ہزار روپئے ٹیکس ادا کرنے کے لیے تین سال سے ٹال مٹول کررہے ہیں ۔‘‘
’’بیچارے سفید جھوٹ کے عادی معلوم ہوتے ہیں ۔‘‘ہم نے رائے قائم کی۔
’’ اس سرکاری عہدہ دار کی بات سے تو یہی پتا چلتا ہے …‘‘
جب ہم اپنی منزل پر پہنچ کر کرایہ ادا کرنے لگے توامام صاحب ہم سے ہمارا سل نمبر پوچھ بیٹھے ، ہم نے انہیںلکھوا دیا توکہنے لگے ’’ ضرورت پڑنے پر آپ کو کال کروں گا ۔‘‘ ہم نے ’’ ضرور ضرور ‘‘ کا نعرہ مارا اور آگے بڑھ گئے …کچھ ہی قدم کافاصلہ طے ہوا تھا کہ اچانک ہمارے موبائل کا اسکرین چمک اٹھا اوراس پر ایک نامعلوم نمبر نمودار ہوا، ہم نے پلٹ کر دیکھا تو امام صاحب ہاتھ کے اشارے سے کہہ رہے تھے ’’ یہ میرا نمبر ہے ۔‘‘ ہم نے بھی ہاتھ کے اشارے سے ان کا شکریہ ادا کیا اور یہ سوچتے ہوئے آگے بڑھ گئے کہ …امام صاحب کی باتوں میں کتنی سچائی ہے وہ جانیں … البتہ ہم یہ ضرورسنتے رہتے ہیںکہ کچھ مکروہ قسم کے افراد اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر مسجد کمیٹی کے صدر بن جاتے ہیں …دل کو اداس کردینے والی ایسی خبریں بھی نظروں سے گزرتی ہیں کہ مسجدکمیٹی کے صدر بننے کی چاہ میں ، نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی اور پولیس کو مسجد کے اندر پہنچ کر مداخلت کرنی پڑی…
مسجد کے فنڈ کومسجد کے لیے نفع بڑھانے کی نیت سے تک کسی کو تجارت میں لگانے کے لیے دینا جائز نہیں ہے، کیوں کہ مسجد کا فنڈ (پیسے) امانت ہے اور امانت کو تجارت میں لگانا خیانت ہے…لیکن افسوس ! کچھ لوگ اپناگھر بھرنے کی چاہ میں یہ تک بھول چکے ہیں کہ مسجد تو اللہ کا گھر ہے…
امانت میں خیانت ہو رہی ہے
سلیقے سے تجارت ہو رہی ہے
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w