تذکرہ پیرانِ پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
امتِ محمدیہ ﷺ کی ہدایت ورہنمائی کیلئے رب کائنات نے ہر وقت اولیاء کرام کا انتخاب فرمایا ہے ، وہ اصلاح امت اور عباداتِ الٰہی میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ ولی کے معنی دوست‘ مددگار‘ نگہبان‘ قرب ونزدیک کے آتے ہیں۔
مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)
امتِ محمدیہ ﷺ کی ہدایت ورہنمائی کیلئے رب کائنات نے ہر وقت اولیاء کرام کا انتخاب فرمایا ہے ، وہ اصلاح امت اور عباداتِ الٰہی میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ ولی کے معنی دوست‘ مددگار‘ نگہبان‘ قرب ونزدیک کے آتے ہیں۔ جب اللہ کا ولی معرفتِ الٰہی سے سرشار ہوتا ہے تو اس طرح قرب حاصل کر لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی چیز کااس کے دل میں تصور تک نہیں آتا، اگر وہ دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل دیکھتا ہے، اگر وہ سنتا ہے تو آیات الٰہی کو سنتا ہے اگر وہ بولتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی ثناء وتعریف میں بولتا ہے، اگر وہ کوئی عمل کرتا ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کرتا ہے۔ اس کی ہر سعی وکوشش اطاعت الٰہی میں ہوتی ہے۔
اس کا دیکھنا‘ سننا‘ بولنا‘ حرکت کرنا‘ کوشش کرنا سب اللہ تعالیٰ کیلئے ہوتا ہے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ اسے اپنا مقرب بنالیتا ہے۔ اللہ کے ولی رب کریم کی بارگاہ میں اتنے مقرب ہوتے ہیں کہ ان کے زبان سے نکلے ہوئے الفاظ بارگاہِ خداوندی میں اسی وقت مقبول ہوجاتے ہیں۔ بخاری شریف میں ہے: لو اقسم علی اللہ لابرّہ (بخاری) ’’اگر وہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتے ہیں تو اللہ ان کی قسم ضرور پوری کرتا ہے۔‘‘ اسی طرح اولیاء اللہ کی رب العالمین سے قربت کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو عظیم شان کا مالک ہے اور جس کا کوئی مثل نہیںوہ اپنے مقربین کا مقام بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے بخاری شریف میں حدیث قدسی ہے: قال رسول اللہ ﷺ: ان اللہ تعالیٰ قال: من عادی لي ۔۔۔ الخ (بخاری)
’’رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے جس نے میرے ولی سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتاہوں، فرائض میرے پاس سب سے زیادہ محبوب ہیں جس کو میں نے فرض کیا ہے اس کے ذریعہ میرا بندہ میری قربت حاصل کرتاہے اور میرا بندہ مسلسل میری قربت نوافل کے ذریعہ حاصل کرتا ہے تو تب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اسکی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پائوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے عطا کرتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ میں آنا چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے، وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھے بھی اسے تکلیف دینا گوارہ نہیں‘‘ یہ شان اللہ کے ولیوں کی ہے کہ ان کے حرکات وسکنات میں قدرتِ الٰہی کے جلوے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ حق ہے کہ اولیاء کرام میں مراتب ہیں، سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اولیاء اللہ کے سردار ہیں ان سے بے شمار امتِ محمدیہ کو رہنمائی ملی، ہزاروں کفار ومشرکین ایمان کی دولت سے مالامال ہوئے، لاکھوں گمراہوں کو ہدایت ملی۔
آپ کی مجلس ِ وعظ میں بغداد شریف اور اس کے اطراف واکناف کے لوگ کشاں کشاں کثیرتعداد میں شریک ہونے لگے اور آپ کی شہرت عراق سے نکل کر عرب‘ شام‘ ایران تک پہنچ گئی، سامعین کی کثرت کے سبب مدرسہ کے صحن میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہتی اور لوگ آپ کے ارشادات عالیہ سننے کیلئے سڑکوں پر بیٹھ جاتے، اس کثرت ِ اژدحام کی وجہ سے آس پاس کے مکانات خرید کر مدرسہ کو وسیع کر دیا گیا، مگر سامعین کی تعداد پھر بھی دن بدن زیادہ ہوتی چلی گئی، آپ کا منبر شہر سے باہر عیدگاہ کے وسیع میدان میں رکھوا دیا گیا ، آپ کے وعظ کے کلماتِ عالیہ قلمبند کرنے کیلئے ہر مجلس میں چار سو علماء قلم دوات لے کر بیٹھتے تھے اور بیک وقت ستر ہزار سامعین آپ کا دلنشین وعظ سننے کیلئے موجود رہتے تھے اور آپ کی آواز دور ونزدیک والے سب سامعین کو یکساں سنائی دیتی تھی۔ تقریردلپذیر کی تاثیر کا یہ عالم تھا کہ لوگ جوش عشقِ الٰہی میں آکربے خودی کی کیفیت میں اپنے کپڑے پھاڑ لیتے، بے ہوش ہوجاتے اور بعض واصلِ بحق ہوجاتے۔ بہت سے غیر مسلم آپ کا وعظ سنتے تو ان پر اتنا اثر ہوتا کہ ان پر رقت طاری ہوجاتی اور وہ دولتِ ایمان سے مشرف ہوجاتے۔ (قلائد الجواہر، بہجۃ الاسرار)
حضرات ِ گرامی! حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں اتنے بڑے اژدہام کے باوجود ذرہ برابر بھی شور وغل نہ ہو تا، بلکہ سناٹا طاری رہتا، نہ کوئی تھوکتا، نہ کوئی کھنکارتا، نہ کوئی ناک صاف کرتا نہ کوئی بولتا اور نہ کوئی مجلس سے اٹھ کر جاتا اور بغیر کسی اٰلۂ صوت کے یعنی لاؤڈ اسپیکر وغیرہ کے بغیر ستر ہزار افراد تک آواز بھی برابر پہنچتی اور جس طرح پہلی صف والا سنتا اسی طرح آخری صف والا بھی سنتاتھا۔ (بہجۃ الاسرار)
سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس وعظ میں جنات بھی حاضر ہوا کرتے تھے، ابو النظر بن عمر بغدادی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ میرے والد ماجد فرماتے تھے کہ میں نے عمل کرکے ایک دفعہ جنات کو بلوایا، تو ان کے حاضر ہونے میں معمول سے زیادہ دیر ہوگئی۔ جب کافی دیر کے بعد جنات میرے پاس آئے تو انہوں نے کہا جب ہم شیخ الشیوخ سیدنا عبد القادر جیلانی قدس سرہ العزیز کے وعظ مبارک میں بیٹھے ہوئے ہوں تو اس وقت تم ہم کو نہ بلایا کرو۔ میںنے ان سے پوچھا کیا حضور سیدنا غوث اعظم ( رحمۃ اللہ علیہ) کی محفل میں تم بھی حاضر ہوتے ہو؟ تو جنات نے کہا ہم انسانوں سے زیادہ تعداد میں حاضر ہوتے ہیں۔ (بہجۃ الاسرار، قلائد الجواہر)
سیدنا غوث اعظم جیلانی رحمۃ اللہ علیہ وعظ فرماتے ہوئے لوگوں کے دلوں کی کیفیت کو بھی جانتے تھے۔ حضرت شیخ یحییٰ بن نجاح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ میں دیکھوں حضرت وعظ میں کتنے شعر پڑھتے ہیں، میں نے ترکیب سوچی اور ایک دھاگہ لے کر آپ کی محفل میں حاضر ہوا اور سب لوگوں کے پیچھے بیٹھ گیا، جب بھی آپ کوئی شعر پڑھتے میں گرہ لگا کر دھا گے کو کپڑے کے نیچے رکھ دیتا، اتنے میں آپ نے میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا: میں گرہ کھولتا ہوں اور تو لگاتا ہے۔ حضرت شیخ عبد الرزاق قدس سرہ العزیز کا بیان ہے کہ میں نے بلا دِ عجم میں مختلف علوم حاصل کئے اور جب بغداد آیا تو اپنے والدِ محترم سے عرض کیا: میں چاہتا ہوں کہ آپ کی موجود گی میں لوگوں کو وعظ سنائوں۔
آپ نے مجھ کو اجازت دے دی، تب میں اپنا وعظ سنانے کرسی پر بیٹھا اور علمی نکات بڑی شرح وبسط کے ساتھ بیان کرنے لگا تو سامعین میں سے کسی کا بھی دل نہ نرم ہوا اور نہ کسی کی آنکھ سے آنسو نکلے، پھر لوگ والد ماجد سے عرض کرنے لگے کہ آپ کچھ بیان فرمائیں، میں کرسی سے اٹھ گیا اور والد ماجد کرسی پر بیٹھے اور فرمایا کہ کل یحییٰ کی والدہ نے میرے لیے چند انڈے تلے تھے اور ایک پیالے میں ڈال کر مٹی کے برتن میں رکھ دئیے ، بلی آئی اس نے برتن گرایا اور پیالہ ٹوٹ گیا۔ اتنا کہنا تھا کہ تمام لوگ رونے لگے، پھر میںنے آپ سے پوچھا: حضور یہ کیا بات ہے کہ آپ کی سیدھی سی بات پر لوگ رو پڑے اور میں نے اتنے نکات بیان کئے تو کوئی نہ رویا۔ فرمایا بیٹا تم کو اپنے سفر پر ناز ہے، پھر آسمان کی طرف منہ کر کے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کیا تم نے وہاں کا سفر کیاہے؟ اے بیٹے ! جب میں کرسی پر بیٹھا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تجلی میرے دل پر وارد ہوئی جس نے میرا دل فراخ کر دیا، تب میں نے وہ بات بیان کی جو تم نے سنی اور پھر وہ ہوا جو تم نے دیکھا ۔ (قلائد الجواہر)
حضراتِ محترم : سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے عقل کے ماروں کی جب اصلاح کی اور بغداد کے عشرت کدوں کے سامنے جب معرفت وصداقت کی اذان دی تو عالمِ اسلام کی فضا نعرہ حق سے گونج اٹھی، ہوس کے پجاریوں نے جب نور کے سیلاب کو دیکھا، تو ان کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں ، وہ بغداد جو کہ عرصہ دراز سے سیہ کاری کے گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا، ہدایت کا مینارۂ نور بن گیا اور لوگوں کی تمام تر توجہات کا مرکز ومحوربن گیا اور ہوس کے پجاریوں کے دلوں پر غوثیت کا کوئی وار خالی نہ گیا۔ آپ کے مرید روحانی مشعل لے کر عالم ِ اسلام میں پھیل گئے اور اپنے نور ِ باطن سے لوگوں کے دلوں کو جگمگانے لگے، مسلسل نصف صدی تک آپ نے خلقِ خدا کو روحانی فیوض وبرکات سے مالامال کیا ، آپ نے مسلسل چالیس سال تک وعظ ونصیحت فرمائی ۔
آپ کے اس روحانی وتبلیغی اثرات ہی کا نتیجہ تھا کہ لاکھوں افراد نے اپنی زندگی کا رخ دنیا سے موڑ کر اللہ تعالیٰ کی جانب پھیر لیا، جہاں لاکھوں انسانوں کی زندگی میں روحانی انقلاب برپاہوا، وہاں مصر کی سلطنت باطنیہ ۵۶۷ھ زوال پذیر ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ چکی تھی اور اس کی جگہ سلطان نور الدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے شیر دل مجاہدین اسلام نے عدل وانصاف پر مبنی سلطنت کی بنیاد ڈالی اور ہند وستان میں غوری خاندان نے اسلامی حکومت قائم کی، ادھر اندلس میں موحدین کی سلطنت عالمِ وجود میں آئی جس کی وجہ سے اسلام کو استحکام نصیب ہوا، اگر چہ ۶۱۵ھ تاتاریوں نے اسلامی دنیا پر چڑھائی کر کے اسلامی سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور ہر طرف تباہی مچادی، مگر قتل وغارت کی ان تند وتیز طوفان وآندھیوں میں بھی اسلام کا چراغ روشن رہا اور خوں خوار تاتاریوں کے دل بھی نورِ اسلام سے جگمگا نے لگے۔ یہ سب غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی روحانی توجہات وباطنی تصرفات کا اثر تھا۔ آپ کی ذات ِ گرامی اش شعر کا مصداق تھی:
ہدایات وعرفاں سے معمور سینہ
کمالات وبرکات کا اک خزینہ
گویا کہ حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی روحانی توجہ سے دین میں از سر نو جان پڑگئی اور وہ دوبارہ زندہ ہو گیا اور آپ کو محی الدین کے لقب سے پکارا گیا۔
حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے والد کا اسم گرامی سید موسی کنیت ابوصالح اور لقب جنگی دوست تھا۔ آپ جیلان کے اکابر مشائخ میں سے تھے۔ ایک مرتبہ سید ابو صالح جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ ریاضات و مجاہدات کے دوران شہر سے کہیں با ہر ندی کے کنارے جارہے تھے اور کئی روز سے کچھ نہ کھایا تھا۔ اچانک ندی میں تیرتے ہوئے ایک سرخ سیب پر آپ کی نظر پڑی۔ لپک کر اسے اُٹھا لیا، بھینی بھینی خوشبو سے دماغ معطر ہو گیا۔ شدت بھوک کی بنا پر آپ نے وہ سیب کھا لیا۔
کھانے کے بعد خیال آیا کہ اس کا مالک تو کوئی ضرور ہوگا، جس کی اجازت کے بغیر ہی میں نے سیب کھا لیا۔ آپ کے ضمیر پر یہ بات سخت گراں گزری، لہٰذا سیب کے مالک کی تلاش میں آپ ندی کے کنارے چل پڑے۔ کچھ دور پہنچے تو ندی کے کنارے ایک خوبصورت باغ نظر آیا، جس کے درختوں سے پکے ہوئے سیب ندی میں بہنے والے پانی کی طرف لٹکے ہوئے تھے۔ آپ سمجھ گئے وہ سیب اسی باغ کا تھا۔ باغ کے اندر تشریف لے گئے، تو باغ کے مالک سے ملاقات ہوئی، جن کا اسم مبارک حضرت عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ علیہ تھا۔ ان سے بلا اجازت سیب کھا لینے پر معافی چاہی۔ حضرت عبداللہ صومعی چونکہ خود خاصان خدا میں سے تھے سمجھ گئے کہ یہ انتہائی نیک‘ پارسا اور صالح نوجوان ہے۔
شجرہ نسب دریافت کیا تو حضرت علی مرتضی شیر خدا کرم اللہ وجہ الکریم کا نورانی گھرانہ پایا۔ آپ نے فرمایا کچھ عرصہ باغ کی رکھوالی کی خدمت سر انجام دو۔ اس کے بعد معافی پر غور کیا جائے گا۔ مقررہ وقت تک آپ نے یہ خدمت انتہائی دیانت داری سے انجام دی اور پھر معافی کے خواستگار ہوئے۔ حضرت عبداللہ صومعی رحمہ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا، ایک اور شرط باقی ہے، وہ یہ کہ تم میری معذور بیٹی سے نکاح کر لو جو آنکھوں سے اندھی، کانوں سے بہری، منہ سے گونگی اور پاؤں سے لنگڑی ہے، اگر اسے نکاح میں قبول کر لو تو معافی دے دی جائے گی۔ حضرت ابو صالح رحمۃ اللہ علیہ یہ شرط سن کر شش و پنچ میں پڑ گئے لیکن تقوی کے اعلیٰ درجہ نے آپ کو اس شرط کو ماننے پر بھی آمادہ کر لیا۔
چنانچہ آپ نے یہ مطالبہ بھی قبول فرمایا اور نکاح کے بعد جب آپ نے حجرہ عروسی میں قدم رکھا تو ماحول کو صحیح و سالم اور نورانی صورت سے منور پایا تو گھبرا کر آپ اُلٹے پاؤں باہر آگئے کہ شاید یہ کوئی دوسری لڑکی آگئی ہو۔ اُسی وقت اپنے خسر محترم کے پاس پہنچے اور اپنی پریشانی بیان کی حضرت عبداللہ صومعی نے فرمایا، اے شہزادے! یہی تمہاری بیوی ہے اور میں نے اس کی جو صفات بیان کی تھیں، در حقیقت وہ سب درست ہیں اور وہ تمہاری ہی زوجہ ہے۔ میں نے انہیں اندھی اس لئے کہا کہ آج تک انہوں نے کسی غیر محرم کو نہیں دیکھا، بہری اس لیے کہا کہ خلاف شرع کبھی کوئی بات نہیں سنی۔
لنگڑی اس لیے کہا کہ خلاف شرع کبھی گھر سے قدم باہر نہیں رکھا اور یہ گونگی اس لئے کہا کہ خلاف شرع کبھی کوئی بات نہیں کی۔ یہ تھیں سیدہ ام الخیر فاطمہ، حضرت سید عبداللہ صومعی کی صاجزادی اور حضرت سید نا ابو صالح موسیٰ جنگی دوست کی زوجہ مطہرہ جو انتہائی نیک خصلت پاکدامن پاکیزہ فطرت اور باکرامت خاتون تھیں۔ حضرات محترم جب باپ اتنا متقی ہو کہ ایک سیب بخشوانے کی خاطر کئی سال تک باغ کی خدمت منظور کرلی، مگر یہ نہ چاہا کہ قیامت میں اس کے بدلے باز پرس ہو، اور ماں اتنی متقی و پرہیز گار ہو کہ کبھی غیر محرم کو نہ دیکھا ہو، خلاف شرع کبھی قدم نہ اٹھایا ہو، اور عمر بھر کبھی خلاف شرع نہ بات کہی اور نہ سنی ہو تو پھر ان کے ہاں پیدا ہونے والا بیٹا قطب ربانی غوث صمدانی محبوب سبحانی شہباز لامکانی شیخ سید عبدالقادر جیلانی ہی ہو سکتا تھا۔
حضرت سید ابو صالح موسیٰ کا لقب جنگی دوست اس لیے تھا کہ آپ ریاضت ومجاہدہ اور نفس کشی میں فرد واحد تھے آپ ہر کام خالصا ًاللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کرتے تھے۔ آپ نیکی کے کاموں کا حکم دینے اور بُرائی سے روکنے میں بڑے دلیر تھے اور اس مہتم بالشان فریضہ کی انجام دہی میں اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ آپ کی جرات و دلیری کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔
ایک دفعہ حضرت سید ابو صالح موسیٰ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) جامع مسجد کی طرف جا رہے تھے کہ خلیفہ وقت کے ملازم نہایت احتیاط سے شراب کے مٹکے سروں پر اٹھائے جارہے تھے۔ آپ نے جب دیکھا تو غصے سے ان مٹکوں کو توڑ دیا۔ آپ کے جلال کے آگے ملازموں کو دم مارنے کی جرأت نہ ہوئی۔ ملازمین نے خلیفہ وقت کو سارا واقعہ سنا دیا اور خلیفہ کو آپ کے خلاف بھڑکایا۔ تو خلیفہ وقت نے کہا سید موسی کو فوراً میرے دربار میں حاضر کرو۔ حضرت سید موسی دربار میں تشریف لے آئے خلیفہ اس وقت انتہائی غصے میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ خلیفہ نے للکار کر کہا آپ کون ہوتے ہیں جنہوں نے میرے ملازمین کی محنت کو ضائع کر دیا؟ حضرت سید موسیٰ: میں محتسب ہوں میں نے اپنا فرض منصبی ادا کیا ہے۔ خلیفہ، آپ کس کے حکم سے محتسب مقرر ہوئے ہیں؟حضرت سید موسی: (رعب انگیز لہجہ میں) جس کے حکم سے تم حکومت کر رہے ہو۔
آپ کے اس ارشاد پر خلیفہ پر ہیبت طاری ہوگئی اور وہ سر بزا نو ہو گیا۔ کچھ دیر بعد سر اُٹھا کر عرض کیا: حضور والا! امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے بڑھ کر مٹکوں کو توڑنے میں کیا حکمت ہے؟ حضرت سید موسیٰ: تمہارے حال زار پر شفقت کرتے ہوئے اور تمہیں دنیا و آخرت کی رسوائی وذلت سے بچانے کے لیے میں نے ایسا کیا۔ خلیفہ پر آپ کی گفتگو کا بہت اثر ہوا اور عرض گزار ہوا – حضور والا میں آپ کو حکومت کی جانب سے محتسب کے عہدے پر مامور کرتا ہوں۔
حضرت سید موسیٰ نے فرمایا، جب میں مامور من الحق ہوں تو مجھے مامورمن الخلق ہونے کی کیا ضرورت ہے (یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب مامور کر دیا، تو تیرے محتسب بنانے کی کیا ضرورت ہے؟) اُسی دن سے آپ جنگی دوست کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں سے تھے۔ اگر کوئی شخص آپ کو اذیت پہنچاتا تو وہ شخص ذلّت و رسوائی میں گرفتار ہو جاتا۔
بارگاہ خداوندی میں دعاء ہے کہ وہ ہم سب کوحضرت پیران پیر ؒ کے فیوض وبرکات سے مالا مال کرے اور آپ کے ارشاداتِ عالیہ کو مشعل راہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭