پھول دیو پٹیل۔ مظفر پور، بہار
ملک میں بے روزگاروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ خانگی شعبہ سے لے کر سرکاری شعبہ تک بڑی تعداد میں پڑھے لکھے بے روزگار افراد نوکریوں کے لیے بھٹک رہے ہیں۔ اس کے باوجود انہیں نوکریاں نہیں ملتیں، اس کے برعکس وہ مایوسی، ڈپریشن اور احساس کمتری کا شکار ہو رہے ہیں۔ کورونا کے بعد کئی کمپنیوں نے معاشی بحران کے باعث بڑے پیمانے پر ملازمین کو نوکری سے نکال دیا ہے۔ ایسے میں نوکری تلاش کرنا ایک مشکل کام بن گیا ہے۔ ملازمتیں چھن جانے کے بعددیگر ریاستوں سے واپس لوٹنے والے کچھ نوجوانوں نے اپنے اردگرد ہی روزگار کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے ہمت اور حوصلے سے کاروبار کی بنیاد رکھی اور روزگار کے نئے باب کا آغاز ہوا۔ جبکہ کچھ پڑھے لکھے نوجوان کھیتی باڑی اور مزدوری کی طرف لوٹ گئے ہیں۔
کورونا کی ہولناکیوں کے بعد کئی نوجوان اپنے ہی صوبے میں روزگار کی تلاش میں ہیں۔ دیہی علاقوں کے نوجوان روزگار کے نئے طریقے اپنا کر زندگی کو نئی حالت اور سمت دینے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف دیہی علاقوں کے بازاروں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان دکانیںلگاکراپنا کاروبار تو کر رہے ہیں لیکن گاہکوں کی کمی ہے۔ کرونا دور سے پہلے بہت کم نوجوان گاﺅں کے چوک چوراہوں پردکانداری کیا کرتے تھے، لیکن حالیہ برسوں میں نوجوانوں نے پان، گروسری، سبزی، انڈے، کپڑے، اسٹیشنری، پھل، میک اپ، گوشت، مچھلی وغیرہ بیچنے کی دکانیں چلانا شروع کر دی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کچھ نوجوان ایسے بھی ہیں جنہوں نے مقامی جگاڑ تکنیک کی مدد سے گھر چلانے کا ایک نیا آئیڈیا پیش کیا ہے۔
بہار کے چھپرا ضلع کے ڈوری گنج تھانے کے تحت 22 سالہ نوجوان سکھنن مہتو نے ذات پات پر مبنی کاروبار چھوڑ کر خود روزگار کا دوسرا راستہ اختیار کیا۔ نوجوان سکھنن نے موٹرسائیکل کے کیرئیر پر پیٹرول سے چلنے والی منی 3 ایچ پی (ہونڈا) مشین لگائی جس کے ذریعے ستو اور چنے کو پیسنے کا کام کیا جاتا ہے۔ اس میں تقریباً 18 ہزارروپہ خرچ ہوئے اور روزانہ 500-1000 روپے آسانی سے کمائے جا رہے ہیں۔ وہ روزانہ صبح اپنی موٹرسائیکل لے کر نکلتا ہے۔ سکھنن نے مقامی ٹیکنالوجی سے مسالہ پیسنے والی مشین لگا کر روزی روٹی کا انوکھا طریقہ اپنایا ہے۔ اب اس کا کاروبار پوری رفتار سے جاری ہے۔ گلی محلے میں اس کی پہچان بن گئی ہے۔ اس کی موٹرسائیکل کی آواز سے عورتیں ستو اور چنا پسوانے گھر سے نکلتی ہیں۔
سکھنن اپنی کمائی سے اپنی تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کو اچھی تعلیم فراہم کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اپنی آبائی جائیداد کے نام پر صرف 2.5 کٹھہ زمین ہے۔ جو تمام بھائیوں کی آمدنی کا برائے نام ذریعہ ہے۔ کورونا کے دور میں جب سب کچھ ٹھپ ہو چکا تھا اور لوگوں کی آمدنی کے ذرائع تقریباً ختم ہو چکے تھے، ایسے وقت میں بھی سکھنن مہتو کا کام جاری تھا۔ اگرچہ ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سے ان کی آمدنی میں بھی کافی کمی آئی ہے، لیکن پھر بھی ہر روز کچھ نہ کچھ آمدنی ہوتی تھی، تاکہ خاندان چل سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ 2021 سے آمدنی کم ہونا شروع ہو گئی ہے۔ پہلے ہم ڈیڑھ کلو ستو 100 روپے میں فروخت کرتے تھے۔ یہاں پٹرول کی قیمت بڑھنے سے کمائی اور بھی کم ہو گئی ہے۔ بچت بھی کم ہو رہی ہے اور پہلے کے مقابلے اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ پھر بھی گھر والوں کی خاطر ملازمت کرنی پڑتی ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ گھر والوں اور بچوں کی تعلیم، کپڑا، کتاب کاپی، اسکول کی فیس اور ٹیوشن فیس، سلیٹ پنسل کا خرچہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ مجموعی طور پر اخراجات بڑھ رہے ہیں اور آمدنی محدود ہو رہی ہے۔
سکھنن مہتو کے والد مچھلی کا کاروبار کرتے تھے۔ ان کی موت کے بعد سکھنن نے خاندانی کاروبار سے الگ کچھ سوچا اوراپنی موٹر سائیکل پر گاﺅں، محلوں اور گلیوں میں جاکر ستو اور چنا فروخت کرنا شروع کر دیا۔ جہاں اس کی بہت مانگ ہے۔ اس کے باقی بھائی اب بھی خاندانی کاروبار ماہی گیری میں مصروف ہیں۔ حالانکہ وہ اس کے کام میں مدد بھی کرتے ہیں۔ سکھنن اپنی موٹرسائیکل پر نہ صرف مظفر پور بلکہ سیوان اور گوپال گنج وغیرہ اضلاع کے مختلف دیہاتوں میں ستو اور چنا پیسنے کا کام کرتا ہے۔ ان کا یہ کاروبار سال کے بارہ مہینے ہر ضلع میں چلتا ہے۔ سکھنن کے مطابق ہم چاروں بھائی کرائے کا مکان لے کر چنے کی ستوئی بناتے ہیں۔ مچھلی کے کاروبار کے علاوہ دو بھائی گھر میں رہ کر ستو اور بھوجا تیار کرتے ہیں، جب کہ دو بھائی اپنی بائیک پر ستو بھوجا بیچتے ہیں اور گا¶ں گا¶ں جا کر مشینوں کے ذریعے پیستے ہیں۔ اس نے بتایا کہ گھر میں تین موٹر سائیکلیں ہیں۔ جس میں ستو پیسنے کی دو مشینیں لگائی گئی ہیں۔ اس وقت وہ ستو 70 سے 80 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کرتے ہیں۔ گاہکوں کی بھیڑ دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کا یہ کاروبار بہت منافع بخش ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ بہار کے دیہی علاقوں میں ستو کو بہاری ہارلکس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ستو کے خریدار ونود جیسوال کا کہنا ہے کہ بہار کے تقریباً تمام اضلاع کے دیہی علاقوں میں ستّو کی سدا بہار مانگ ہے۔ جہاں شہر سے گا¶ں تک سڑک کے دونوں طرف بڑی تعداد میں ستو کی دکانیں سجی ہوئی ہیں۔ ہر وقت مزدوروں اور کسانوں کا ہجوم رہتا ہے۔ ان علاقوں کے لوگ صبح کے ناشتے میں صرف ستتو ہی کھاتے ہیں۔ ان کے لیے یہ غذائیت سے بھرپور مشروب اور اچھی طرح ہضم ہونے والا کھانا ہے۔ سکھنن مہتو ایک دن میں 1000 سے 1200 روپے کما لیتے ہیں۔ پندرہ روپے فی کلو آگ کی لکڑی اور ایک کوئنٹل چنے بھوننے کی مزدوری کی صورت میں خرچ ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک ماہ میں 30 سے 32 ہزار روپے کمالیتے ہیں۔ سکھنن نے یہ روزگار شروع کرنے کے لیے کسی بینک سے قرض نہیں لیا ہے۔ پڑھے لکھے نہ ہونے کی وجہ سے وہ بینک سے قرض لینے کے عمل کو نہیں سمجھتے۔ اس لیے اس نے گا¶ں کے ساہوکار سے قرض لے کر اپنا روزگار شروع کیا۔ آج ان کے روزگار سے متاثر ہو کر بہت سے بے روزگار نوجوان سیکنڈ ہینڈ بائیک خرید کر اچھی آمدنی بھی کر رہے ہیں اور اسی طرح ستو اور بھونجا کا روزگار بھی شروع کر رہے ہیں۔ سکھنن سستی اور مقامی ٹیکنالوجی کے ذریعے موٹرسائیکل پر روزگار کا ذریعہ تلاش کرکے نہ صرف خود کا روزگارکر رہے ہیں بلکہ وہ کئی بے روزگار نوجوانوں کو بھی راہ دکھا رہے ہیں۔درحقیقت ہمارے ملک کی نوجوان قوت میں صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ایسے میں اس قسم کی سوچ رکھنے والوں کو مالی مدد دینے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف انہیں روزگار مل سکے بلکہ ملک کی معیشت کو بھی اڑان مل سکے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے نوجوانوں کے لیے شروع کی گئی اسٹارٹ اپ اسکیم ایسے نوجوانوں کی سوچ کو پنکھ دے سکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سکھنن جیسے کم پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھی ایسی اسکیموں سے جوڑا جائے تاکہ مقامی سطح پر سستی ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال ہو سکے۔