مضامین

گھریلو تشدد کی فطرت آج بھی تبدیل نہیں ہوئی ہے

دیا آریہ۔ کپکوٹ، اتراکھنڈ

اکیسویں صدی کا سائنسی دور کہلانے کے باوجود کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ملک کے اخبارات میں خواتین کو ہراساں کرنے بالخصوص گھریلو تشدد کی خبریں شائع نہ ہوں۔ اعلیٰ معاشرے سے لے کر دیہی علاقوں تک خواتین کے خلاف تشدد اور ہراساں کیے جانے کے واقعات منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ میدانی علاقوں سے لے کر پہاڑی ریاستوں تک جاری ہے۔ پہاڑی ریاست اتراکھنڈ میں بھی ایسے بہت سے معاملات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دراصل ریاست بھر میں خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر ہم صرف خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات کو دیکھیں تو ریاست میں روزانہ 60 خواتین اس کا شکار ہوتی ہیں۔ اس سال فروری کے پہلے 20 دنوں میں خواتین کو ہراساں کرنے کی کل 2041 شکایات میں سے 1210 شکایات صرف گھریلو تشدد سے متعلق تھیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ جنوری کے مہینے میں موصول ہونے والی کل 2780 شکایات میں سے 1670 گھریلو تشدد کی تھیں ۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو گھر کی دہلیز سے باہر آنے کے بعد تھانے میں درج ہوتے ہیں۔جبکہ بہت سی خواتین گھر کی عزت اور سماج میں بدنامی کے نام پر شکایات درج کرانے کے لیے پولیس اسٹیشن نہیں پہنچ پاتی ہیں۔ ریاست کے باگیشور ضلع میں واقع کپکوٹ بلاک کے آسوں گا¶ں میں بھی گھریلو تشدد کے کئی معاملے سامنے آرہے ہیں۔ تقریباً 3000 کی آبادی والے اس گا¶ں میں روزانہ گھریلو تشدد کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جہاں خواتین گھر میں اپنے شوہر کی مار پیٹ اور بدسلوکی کا شکار ہوتی ہیں۔ لیکن وہ اس کی شکایت کرنے پولیس اسٹیشن تک بھی نہیں پہنچ پاتی ہیں۔ وہ شادی شدہ زندگی اور بچوں کی خاطر اسے برداشت کرنے پر مجبور رہتی ہیں۔ جسے پدرانہ معاشرہ بھی اس کی کمزوری سمجھ کر اس تشدد پراپنی خاموش حمایت کرتا ہے۔ تاہم، تشدد کرنے والے گھر کے مرد یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں، اس کا ان کے بچوں کے دل اور دماغ پر کیا منفی اثر پڑرہا ہوگا؟ اس حوالے سے گا¶ں کی ایک نوعمر اکشیتا (نام تبدیل) کا کہنا ہے کہ کوئی ایسا دن نہیں گزرتا ہے جس دن میرے والد نہ صرف میری والدہ سے جھگڑتے ہیں بلکہ اکثر ان کے ساتھ گالی گلوج اور مار پیٹ بھی کرتے ہیں۔ ان کے جھگڑے کا اثر براہ راست میری پڑھائی پر پڑتا ہے۔ میں جب بھی پڑھنے بیٹھتی ہوں، مجھے اپنی ماں کی مار یاد آتی ہے اور میںچاہ کر بھی اپنی پڑھائی پر توجہ نہیں دے پاتی ہوں۔ دوسری جانب گا¶ں کی ایک خاتون دیوتی دیوی (نام تبدیل) نے گھریلو تشدد سے متعلق اپنی آزمائش بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی شادی 15 سال کی عمر میں ہوئی تھی اور تب سے وہ گھریلو تشدد کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ لڑائی ان کی زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ کئی بار شوہر نے مجھے مارنے کے بعد زندہ جلانے کی کوشش بھی کی لیکن میں بچ گئی۔ ایک دن انہوں نے میرے منہ پر تکیہ رکھ کر مجھے مارنے کی کوشش بھی کی۔ گا¶ں کی ایک اور خاتون خشتی دیوی (نام بدلا ہوا ہے) بتاتی ہیں کہ وہ بھی اسی طرح کے تشدد کا نشانہ بنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے شادی کے بعد ایک دن بھی خوشی سے روٹی کا ٹکڑا نہیں کھایا۔ میں نے گھریلو تشدد سے نجات کے لیے خودکشی کی کوشش بھی کی۔ گا¶ں کی تقریباً ہر عورت گھریلو تشدد کا شکار ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے گا¶ں کی ایک اور خاتون پشپا (بدلیا ہوا نام) کا کہنا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود میں بھی گھریلو تشدد کا شکار رہی ہوں۔ اس حوالے سے سماجی کارکن نیلم گرینڈی کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد خواتین کے تحفظ سے متعلق ایک سنگین مسئلہ ہے۔ جب یہ موضوع ملک کی آبادی کے وقار سے متعلق ہو تو معاملہ اور بھی زیادہ بحث کا شکار ہو جاتا ہے۔ ملک آزادی کے 75 سال میں داخل ہو چکا ہے۔ خواتین کی حفاظت اور خواتین کی طاقت کے بارے میں اکثر بڑی باتیں کی جاتی ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں اور اتراکھنڈ کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں جہاں خواتین اکثر گھریلو تشدد کا شکار ہو رہی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ میڈیا کی نظروں میں بھی یہ اہمیت نہیں رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کی خبریں سرخیاں بننے کی بجائے اخبار کے کسی کونے میں دب کر رہ جاتی ہے۔ درحقیقت انسانی حقوق پر مبنی آئین کے باوجود خواتین کے خلاف معاشرے کا رویہ آج بھی تبدیل نہیں ہواہے۔ گھر کی حدود میں ہونے والے تشدد کو نہ صرف خاندانی معاملہ سمجھ کر دبایا جاتا ہے بلکہ متاثرہ خاتون کو اس کی شکایت کرنے سے بھی روکا جاتا ہے جو کہ کسی بھی مہذب معاشرے کی ترقی کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اس ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت ہے جو شوہر کے تشدد کا ذمہ دار بیوی کو ٹھہراتی ہے۔ اس سماجی مسئلے کے حل کے لیے معاشرے کو خود آگے آنے کی ضرورت ہے۔ شادی کے وقت شوہر کی طرف سے اگنی ( آگ) کے سامنے بیوی کے احترام کا جو وعدہ کیا جاتا ہے اسے صحیح معنوں میں سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔