ٹیکس اور زکوٰة : افغانستان میں طالبان حکمران اپنے ملک کی معیشت کیسے چلا رہے ہیں؟
اتاہوالپا امریس
جولائی 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان کی معاشی صورتحال مزید مخدوش ہوئی۔عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 368 ملین ڈالر جی ڈی پی کے ساتھ افغانستان دنیا کے سب سے غریب ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ ملک کی تقریباً آدھی آبادی، یعنی چار کروڑ سے زیادہ افراد، کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ یہ اعداد و شمار دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق افغانستان میں غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 11 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔بیرونی امداد میں کمی، زلزلے اور سیلاب جیسی قدرتی آفات اور عالمی سطح پر مہنگائی کی لہر وہ عوامل ہیں جنھوں نے افغانستان میں معاشی بحران کی شدت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ عالمی پابندیوں کے بعد امریکہ کی جانب سے افغانستان کے مرکزی بینک کے تقریباً 10 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کرنے کے فیصلے نے بھی منفی اثرات مرتب کیے۔ایسے حالات میں طالبان کی حکومت معیشت کو چلانے کے لیے چند پرانے اور کچھ نئے ذرائع پر انحصار کر رہی ہے۔
اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان حکومت نے زیادہ ٹیکس اکھٹا کرنا شروع کیا ہے۔کینیڈین محقق گریم سمتھ نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان نے پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے جو ان سے پہلے دہائیوں تک کوئی اور نہیں کر سکا تھا اور اس سے انھیں زیادہ ٹیکس اکھٹا کرنے میں مدد ملی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق دسمبر 2021 سے اکتوبر 2022 تک طالبان حکومت نے ڈیڑھ ارب ڈالر سے زیادہ ٹیکس اکھٹا کیا جو اس سے پہلے دو سال کے اسی عرصے میں اکھٹا ہونے والے ٹیکس سے زیادہ ہے۔ اس حوالے سے سرحد کا کنٹرول اہم ہے جہاں سے 2022 میں مجموعی ٹیکس کا 69 فیصد حصہ وصول کیا گیا۔ اس سے قبل ٹیکس کا یہ حجم تقریباً نصف رہتا تھا۔ گریم سمتھ کا کہنا ہے کہ کسٹم کا شعبہ طالبان حکومت کی آمدنی کا اہم ذریعہ بن چکا ہے۔علی حسینی ایک افغان صحافی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ طالبان کو اب تمام سرکاری دفاتر اور سرحدی راستوں پر مکمل کنٹرول حاصل ہے اور وہ مختلف قسم کے ٹیکس خصوصاً درآمدات پر ٹیکس وصول کر سکتے ہیں۔ موسمی حالات اور ملک میں زراعت اور انڈسٹریل شعبے کی کم ترقی کی وجہ سے افغانستان درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔علی حسینی کا ماننا ہے کہ ملک کے ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے میں طالبان ٹیکس کے معاملے میں زیادہ سخت ہیں۔’پہلے پیسہ لوگوں کی جیب میں جاتا تھا لیکن اب کرپشن میں کمی ہوئی ہے اور ٹیکس کا زیادہ حصہ حکومت کے پاس پہنچتا ہے۔‘
طالبان حکومت نے ملک بھر میں ٹیکس اکھٹا کرنے کا ہفتہ منانے کے رواج کا بھی آغاز کیا ہے۔ روایتی ٹیکس کے علاوہ طالبان مذہبی ٹیکس بھی لیتے ہیں جن کو عشر اور زکوٰۃ (زکات) کہا جاتا ہے۔ سنہ 2021 میں اقتدار سنبھالنے سے پہلے بھی طالبان اپنے زیر اثر علاقوں سے یہ ٹیکس وصول کیا کرتے تھے۔ علی حسینی کا کہنا ہے کہ ہر شخص اپنی دولت کا پانچواں حصہ حکومت کو دیتا ہے اور اگرچہ مکمل اعداد وشمار موجود نہیں ہیں لیکن یہ ایک بڑی رقم بنتی ہے کیوں کہ 99 فیصد افغان شہری مسلمان ہیں اور ان کو حکومت کو زکات دینے کے اسلامی عمل کی پاسداری کرنی پڑتی ہے۔گریم اسمتھ کا کہنا ہے کہ عشر اور زکوٰۃ سے حاصل ہونے والے ٹیکس کا حجم معلوم کرنا مشکل ہے۔
معدنیات:
کوئلہ، تیل، قدرتی گیس، تانبا اور قیمتی پتھروں جیسی معدنی دولت افغانستان میں وافر مقدار میں موجود ہے۔ ان وسائل کی مجموعی قیمت کا تخمینہ امریکی محکمہ دفاع کے ماہرین کی جانب سے تقریباً ایک کھرب ڈالر لگایا گیا ہے۔ تاہم ان کو نکالنے کا عمل مشینری اور ٹرانسپورٹ کی مد میں کافی سرمایہ مانگتا ہے اور ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اس شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری ممکن نہیں ہو سکی۔ گریم اسمتھ کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب تک یہ دولت زیر زمین ہی رہے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ سونا اور کاپر افغانستان سے باہر لے جانا چاہتے ہیں تو ریلوے کا نظام بنانا ہو گا جس کے لیے بڑی سرمایہ کاری درکار ہو گی اور اس وقت اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔‘ اس وقت افغانستان کی سب سے بڑی برآمد کوئلے کی شکل میں ہو رہی ہے جس کا بڑا حصہ پاکستان بھیجا جاتا ہے۔ طالبان حکومت کے پہلے سال میں کوئلے کی فروخت میں 20 فیصد اضافہ ہوا جو حکومتی اعداد و شمار کے مطابق تقریبا روزانہ 10 ہزار ٹن کے قریب ہے۔ ایک حالیہ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق کوئلے کی برآمد میں اضافے کی وجہ سے افغانستان کی سالانہ برآمدات میں مجموعی طور پر 90 فیصد اضافہ ہوا جو 1.7 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہیں۔ اس کا 65 فیصد حصہ پاکستان جاتا ہے جو افغان ٹیکسٹائل اور زرعی مصنوعات کی بھی اہم منزل ہے جبکہ 20 فیصد انڈیا جاتا ہے۔ سنہ 2021 تک افغانستان میں 126 چھوٹی کانیں موجود تھیں اور طالبان کی وزارت معدنیات اور تیل کے مطابق ایک سال میں اس تعداد میں 60 کانوں کا اضافہ ہوا ہے جبکہ متعدد نئے معاہدے بھی کیے جا رہے ہیں۔ علی حسینی کا کہنا ہے کہ متعدد چینی کمپنیاں طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہیں اور خصوصاً کاپر یعنی تانبے کے لیے معاہدے ہو سکتے ہیں۔ رواں ماہ طالبان حکومت نے اعلان کیا کہ وہ چینی کمپنی کے ساتھ تیل نکالنے کا معاہدہ کرنے والے ہیں جو اب تک کا سب سے بڑا بیرونی معاہدہ ہو گا۔
منشیات؟
اقتدار میں آنے سے قبل طالبان کی آمدنی کا بڑا حصہ مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل ہوتا تھا جس میں اغوا اور بھتے کے ساتھ ساتھ منشیات خصوصاً افیون کی کاشت اور فروخت شامل تھی۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان دنیا بھر میں غیر قانونی افیون کا 80 فیصد حصہ بھیجتا تھا، لیکن اپریل 2022 میں طالبان نے ملک میں افیون کی کاشت پر پابندی لگا دی تھی۔ افیون کو ہیروئن اور دیگر نشہ آور منشیات کی تیاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور ملک کے کرپٹ حکمرانوں اور حکام کے ساتھ ساتھ یہ کسانوں اور مقامی بااثر شخصیات، جنھیں ’وار لارڈز‘ کہا جاتا ہے، کے لیے ایک زرخیز ذریعہ آمدنی تھا۔ اقتدار میں آنے سے قبل طالبان بھی افیون کی فروخت سے پیسہ حاصل کرتے تھے تو پھر انھوں نے ایسا کرنا کیوں چھوڑ دیا؟ جولائی میں امریکہ کی حکومت نے ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق طالبان حکومت منشیات پر پابندی کے اعلان پر قائم ہے، اگرچہ اس فیصلے کے بعد انھیں کسانوں اور منشیات کے کاروبار میں ملوث دیگر افراد کی حمایت کھونے کا خدشہ ہے۔ تاہم علی حسینی کا ماننا ہے کہ چھوٹے پیمانے پر طالبان اب بھی منشیات کی اسمگلنگ سے پیسہ حاصل کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ طالبان کی حکومت نے کاشت پر پابندی لگا دی ہے لیکن اب بھی کاشت ہو رہی ہے اور اسمگلنگ بھی ہو رہی ہے۔درحقیقت پابندی کے اعلان کے آٹھ ماہ بعد اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات کی رپورٹ کے مطابق تقریبا ڈھائی لاکھ ہیکٹر پر افیون کی کاشت ہوئی۔ علی حسینی کا کہنا ہے کہ اس کاشت سے اکھٹا ہونے والا پیسہ ماضی کی حکومت کے برعکس حکومتی خزانے میں پہنچا۔