پاکستانی علماء، ہماری رہنمائی کریں : مفتی نورولی محسود
ممنوعہ تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے سربراہ نے کہا ہے کہ ان کا گروپ حکومت پاکستان کے ساتھ لڑائی بندی معاہدہ کے تعلق سے ”ابھی بھی کھلا ذہن رکھتا ہے“۔
پشاور: ممنوعہ تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے سربراہ نے کہا ہے کہ ان کا گروپ حکومت پاکستان کے ساتھ لڑائی بندی معاہدہ کے تعلق سے ”ابھی بھی کھلا ذہن رکھتا ہے“۔
گذشتہ برس نومبر میں ٹی ٹی پی نے حکومت پاکستان کے ساتھ جون 2022ء میں طئے پائی غیرمعینہ مدتی لڑائی بندی ختم کردی تھی اور اپنے عسکریت پسندوں سے کہاتھا کہ وہ سیکیوریٹی فورسس پر حملے شروع کردیں۔
القاعدہ سے قریبی روابط رکھنے والی ٹی ٹی پی نے وزیراعظم شہبازشریف کی پاکستان مسلم لیگ نواز اور وزیرخارجہ بلاول بھٹوزرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی کے اعلیٰ قائدین کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔
خطرناک تنظیم نے تاہم اب زوردے کرکہا ہے کہ حکومت کے ساتھ لڑائی بندی کا معاہدہ اس نے ختم نہیں کیا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مفتی نورولی محسود نے ہفتہ کے دن ایک ویڈیو میں کہا کہ ہم نے اسلامی امارت افغانستان کی ثالثی سے پاکستان سے بات چیت کی تھی۔ ہم جنگ بندی معاہدہ کے تعلق سے ابھی بھی کھلا ذہن رکھتے ہیں۔ اخبار ڈان نے یہ اطلاع دی۔
مفتی نور ولی محسود کے موقف میں یہ تبدیلی ان خبروں کے بیچ آئی ہے کہ انہوں نے پاکستان علماء سے رہنمائی طلب کی ہے۔ویڈیوپیام میں مفتی نورولی محسود نے کہا کہ ان کی تنظیم پاکستانی علماء سے رہنمائی چاہتی ہے اگر وہ یہ سمجھتے ہوں کہ ہمارے جہاد کی سمت غلط ہے۔
اخباردی ایکسپریس ٹریبیون نے یہ اطلاع دی۔ ٹی ٹی پی سربراہ نے پاکستانی علماء سے کہا کہ اگر آپ کو اس عالمی کفریہ ایجنڈہ کے خلاف ہمارے جہاد میں کوئی مسئلہ دکھائی دیتا ہے‘اگر آپ یہ مانتے ہوں کہ ہماری سمت بدل گئی ہے یا ہم راستہ سے بھٹک گئے ہیں تو آپ سے درخواست ہے کہ ہماری رہنمائی کریں۔
ہم نے ہمیشہ آپ کی مدلل باتیں خوش دلی سے سنی ہیں۔ جمعہ کے دن قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کے مستقروانا میں 5ہزار قبائیلیوں نے ریالی نکالی تھی۔ انہوں نے اپنے علاقوں میں بڑھتی بے چینی‘ دہشت گردی اور اغوا کے واقعات کے خلاف احتجاج کیاتھا۔
صوبہ خیبرپختون خواہ اور صوبہ بلوچستان میں دہشت گرد حملے بڑھتے جارہے ہیں۔ سجھاجاتا ہے کہ ٹی ٹی پی عسکریت پسند کررہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کو پاکستانی طالبان بھی کہاجاتاہے۔ اس کا اصل مقصد پاکستان بھر میں سخت گیراسلام نافذکرنا ہے۔افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد پاکستان کو امید تھی کہ افغان سرزمین کا استعمال اس کے خلاف نہیں ہوگا۔