سیاستمضامین

پیام اور شادی کے درمیان کم از کم تین ماہ کا عرصہ چاہیے تاکہ مکمل معلومات حاصل کی جاسکیںعجلت میں کی گئی شادیاں ٹوٹ رہی ہیں۔ خاندان بکھر رہے ہیں۔ زندگیاں برباد ہورہی ہیں

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ مکمل معلومات کسی پیشہ ور ایجنسی سے کروائی جاسکتی ہیں۔
٭ رشتہ چاہے کتنا ہی اچھا ہو‘ ابتداء میں حامی نہ بھریں۔
٭ شادی کے ابتدائی ایام میں اگر سنگین اختلافات ہوں تو علاحدگی کیلئے قدم اٹھائیں۔
٭ لڑکی کی زندگی بہت قیمتی ہے۔ اس کی حفاظت کیجئے۔
٭ معاہدہ طلاقِ تفویض وقت کی ضرورت ہے۔
اِدھر کچھ سالوں سے یہ بات دیکھی جارہی ہے کہ شہر میں شادیاں کچھ ہی عرصہ بعد سانحوں میں تبدیل ہورہی ہیں۔ پڑھی لکھی ۔ خوبصورت و خوب سیرت لڑکی ‘شادی کے کچھ دنوں بعد شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ متمول خاندان سے تعلق رکھنے والی تعلیم یافتہ اور دیندار لڑکی اپنے سسرال میں اپنی زندگی اس طرح گزارتی ہے جیسے وہ کسی زندان کی قیدی ہو جہاں اسے اپنے ماں باپ سے تک ٹیلی فون پر بات کرنے کی اجازت نہیں۔ اس کا شوہر اپنی ماں کا مطیع و فرماں بردار ہے اور اس کے اشاروں پر ناچتا ہے ۔ وہ اپنی شادی شدہ بہنوں کے جھرمٹ میں رہتا ہے اور اس کی شادی شدہ بہنوں نے اس کواپنا کھلونا بنالیا ہے۔ نوبیاہتا لڑکی اپنے کانوں سے سنتی ہے کہ کس طرح اس کے شوہر کی ماں اور بہنیں اسے بہکاتی ہیں کہ یہی وقت ہے کہ تو اپنی دلہن پر اپنا رعب قائم کر‘ ورنہ بعد میں تجھے پچھتانا پڑے گا۔ لڑکی کو اپنے ماں باپ کو فون کرنے کی اجازت نہیں۔ اس کا فون اس کی ساس کے قبضہ میں رہتا ہے اور جب بھی اس کے ماں باپ کا فون آتا ہے تو اسے بلایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے بات ہمارے سامنے کرو۔ اس پر ناشتہ بنانے اور کھانا بنانے کی ذمہ داری ہے۔ جھاڑو برتن کے لئے ایک خاتون آتی ہے ورنہ کوئی تعجب نہیں کہ یہ کام بھی اس سے لیا جاتا۔ اس کے شوہر کا بھی برتاؤ اس کے ساتھ ٹھیک نہیں۔ ہر روز رات تین چار بجے گھر آتا ہے اور آتے ہی بددماغی کا مظاہرہ کرتا ہے کہ تم سو کیوں گئیں۔ میرا انتظار نہیں کرسکتی تھیں۔ کھانا پیش کیا جاتا ہے تو انکار کرتا ہے اور پھر نیند کی آغوش میں چلاجاتا ہے ۔ فجر ہوجاتی ہے پھر ظہر اور پھر عصر کا وقت ہوتا ہے ۔ اس کا شوہر سویا ہوا رہتا ہے۔ مغرب کے قریب اٹھ کر چاء پیتا ہے ۔ کچھ دیر بدمزاجی کے مظاہرہ کے بعد کچھ کھانا کھاتا ہے اور پھر جو غائب ہوا تو دوسری صبح فجر سے پہلے واپس ہوتا ہے۔ سارا دن یہ لڑکی اپنی ساس کی بدزبانی برداشت کرتی ہے اور صبرکرتی رہتی ہے۔ ایک بار اس نے دن کے وقت جب کہ اس کا شوہر سویا ہوا تھا اس کے جیبوں کی تلاشی لی۔ حیرت اس بات کی رہی کہ جیب میں سے ڈرگس کے پیکٹ نکلے۔ لڑکی اچانک ایک آٹو رکشہ میں بیٹھ کر اپنی ماں کے گھر واپس آگئی۔ ساری روداد سنائی جو شادی کے بیس دن بعد پیش آئی۔ ماں نے یہ بات باپ کے آگے رکھی۔ اب فیصلہ کی گھڑی آگئی۔
ایسی بات شادی کے بیس دن بعد ہوئی یا چھ ماہ بعد۔ اب ماں باپ کا فرض یہ ہے کہ حالات و واقعات کے پیشِ نظر یہ فیصلہ کریں کہ لڑکی کو اس کے شوہر سے علاحدہ کروانا ہے ورنہ ساری زندگی وہ عذاب میں مبتلا رہے گی۔ ایسی صورت میں کم عقل لیکن ظاہری طور پر دیندار حضرات یہ فرمائیں گے کہ علاحدگی اچھی بات نہیں۔ شروع میں ایسے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ لڑکی کو اس کے سسرال واپس کردیا جائے۔ یہ انتہائی غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ حالات و وقت کا تقاضہ ہے کہ اسی وقت علاحدگی کی کارروائی کی جائے اور لڑکے اور اس کے والدین کی کسی بھی منت وسماجت یا کسی بااثر شخصیت کی مداخلت کی پرواہ نہ کی جائے اور فوری قانونی کارروائی کی جائے ۔ اگر لڑکی حاملہ نہ ہو تو اچھی بات ہے ‘ اسے دوبارہ اس کے شوہر کے گھر ہرگز روانہ نہ کیاجائے۔ فوری طور پر اپنے ایڈوکیٹ سے رجوع ہوکر کارروائی کا آغاز کرنا چاہیے۔
اس بدبختانہ رشتہ کے شکار لڑکی کے والدین اس طرح ہوئے کہ جب رشتہ آیا تو کہا گیا کہ لڑکے کے والد رئیل اسٹیٹ کاکاروبار کرتے ہیں۔ لڑکا ان کے ساتھ ہے۔ والد کے نام پر ایک ڈھائی سو مربع گز کا پانچ منزلہ رہائشی کامپلکس ہے جس میں12فلیٹس ہیں جن کا کرایہ دیڑھ لاکھ ہے۔ بیٹا ایک ہی ہے اور وہی وارث ہے۔ بہنوں کی شادی ہوچکی ہے۔ بربادی کے بعد لڑکی کے والد نے لڑکے اور اس کے والد کی تمام تفصیلات حاصل کیں۔ لڑکا بی۔ کام پاس ہے ‘ آوارہ لڑکوں کی صحبت میں گھومتا ہے۔ گوری رنگت اور گھٹیلا جسم ہے ۔ والد صاحب تیس سال پہلے ایک ایرانی ہوٹل میں منشی کاکام کرتے تھے۔ پھر اس کے بعد مکانات کرایہ پر دلانے کاکام کرنے لگے ‘ اس کے بعد کچھ پیسہ جمع کرکے دو ڈھائی سو مربع گز زمین خریدی۔ اس کے بعد زمین کے بروکر بن گئے اور بیٹے کو بھی ساتھ لے لیا۔ اب معاشی طور پر مستحکم ہیں۔ لیکن اخلاقی طور پر دیوالیہ ہیں۔
بدنصیبی سے یہ رشتہ صرف سات دنوں میں طئے پایا۔ شادی میں لڑکے والوں نے اس قدر ہنگامہ مچایا کہ پولیس آگئی ۔ دس بارہ گھوڑوں اور دو اونٹوں کی بارات۔ گانا بجانا اور D.J بارات صبح پانچ بجے واپس ہوئی۔ ان لوگوں کا ظرف شادی والے دن ہی معلوم ہوگیا تھا۔ اگر لڑکی کے والد نے جو کہ ایک دیندار سرکاری ملازم ہیں‘ شروع ہی میں یہ تحقیقات کرلی ہوتیں تو شاید ایسی بدنصیبی نہیں ہوتی۔ اب انہوں نے علاحدگی کی قانونی کارروائی شروع کردی ہے اور کئی دفعات میں لڑکے اور اس کے والدین کو ملزم بنایا ہے۔ علاوہ ازیں ایک بھاری رقم بطور ہرجانہ طلب کی ہے۔
رشتہ کی حامی بھرنے سے پہلے یہ ضروری امور انجام دیئے جائیں
رشتہ چاہے کتنا ہی اچھا آئے ہرگز حامی نہ بھریئے اور نہ کوئی وعدہ کیجئے۔ بس اتنا ضرور کہہ دیجئے کہ ہم کچھ دنوں بعد کچھ سوچ کر جواب دیں گے۔ ہاں یہ بات ضرور پوچھ لیئجے کہ آپ کے مطالبات کیا ہیں۔ اگر وہ کچھ مطالبہ کریں یا یہ کہیں کہ ہم معیاری شادی کرنا چاہتے ہیں اس لئے کسی بڑے میریج فنکشن ہال میں اعلیٰ معیاری شادی کا انتظام کیا جائے تو صاف طور پر معذرہ چاہ لیجئے۔
لڑکے کا بائیو ڈیٹا لے کر یا تو خود مکمل تفصیلات حاصل کیجئے۔ اگر لڑکے والے کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں تو مالکِ مکان سے دریافت کیجئے۔ محلے والوں سے تمام تفصیلات حاصل کیجئے۔ اس بات کی گیارنٹی ہے کہ شادی بیاہ کے معاملہ میں دریافت پر آپ کے سامنے سچ بات ہی آئے گی کیوں کہ کوئی بھی تہمت لگانے کا گنہگار بننا پسند نہیں کرے گا۔
اگر لڑکے کے کردار کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں معلوم کرنا ہو جیسے کسی لڑکی یا لڑکیوں سے اس کے تعلقات ہوں یا وہ کسی PUB میں جاکر نشہ کرتا ہو یا ڈانس کرتا ہو۔ شراب پینے کا عادی ہو تو آپ حیدرآباد کی کسی جاسوسی ایجنسی سے ربط قائم کرسکتے ہیں۔ وہ لوگ آپ سے فیس ضرور حاصل کریں گے اور محض آٹھ دن کے اندر لڑکے کے کردار کے بارے میں الکٹرانک ثبوت پیش کریں گے ۔ اس کے بعد آپ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ رشتہ کی حامی بھری جائے یا نہیں۔ اگر آپ کے پاس الکٹرانک ثبوت ہو تو لڑکے والوں کے آنے کے بعد انہیں ثبوت دکھائیں اور کہیں کہ کیوں آپ ہماری معصوم لڑکی کی زندگی برباد کرنا چاہتے ہیں۔
قارئین کرام اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ شادی کے ابتدائی تین ماہ ہی بہت اہم ہوتے ہیں۔ اس عرصہ میں اگر لڑکے میں کوئی سخت قابل اعتراض خامی نظر آئے تو فوری طور پر لڑکی کو گھر واپس بلالیا جائے اور صاف طور پر کہا جائے کہ ہم رشتہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ قابلِ اعتراض حرکتوں میں شدید مارپیٹ ‘ مغلظ گالیاں ‘ مار پیٹ‘ شراب نوشی ‘ گانجہ فروشی ‘ غیر عورتوں سے ناجائز تعلقات۔ لڑکی کی جائز ضروریات کی عدم تکمیل ‘ ساس یا نندوں کا ظلم ‘ لڑکے کو میکے جانے کی اجازت نہ دینا۔ زائد جہیز یا طلائی زیورات کے مطالبات اور دیگر مطالبات ہوسکتے ہیں۔ اگر ایسی باتیں رونما ہورہی ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ آئندہ حالات کے سدھرنے کے کوئی آثار نہیں کیوں کہ یہ گندی عادتیں آسانی سے نہیں ختم ہوتیں۔ ایسی امید کہ شائد لڑکا راہِ راست پر آجائے کبھی پوری نہیں ہوسکتی۔
اب جو مسئلہ پیدا ہوگا وہ خلع کا ہوگا۔ ضدی اور ہٹ دھرم بدکار مرد کبھی بھی خلع کے لئے تیار نہیں ہوں گے جب تک کہ ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی نہیں ہوگی۔ ایسے شوہروں اور ان کے خاندان والوں کے خلاف دفعہ498-A تعزیرات ہند اور DVC کے مقدمات دائر کرنا چاہیے۔ DVCایک ایسا خطرناک قانون ہے جس میں لاکھوں روپیہ بطورِ ہرجانہ وصول کئے جاسکتے ہیں اس کے علاوہ ماہانہ نفقہ کی رقم ‘ علاحدہ رہائش‘ شادی کے جملہ اخراجات شامل ہوں گے۔ یہ مقدمہ متمول افراد کے لئے ایک زبردست تازیانہ ثابت ہوگا۔ اور وہ خلع کے ذریعہ علاحدگی پر راضی ہوجائیں گے۔
ایسی صورتوں میں طلاقِ تفویض کا معاہدہ
بہترین حل ثابت ہوگا
اوپر جو صورتیں بتائی گئی ہیں ان میں عورت ہی مظلوم ہے۔ اکثر عورتیں ہی ظلم و ستم کا شکار ہوتی ہیں۔ وہ ظلم سہتی ہیں۔ شوہر اور یہاں تک کہ ساس سسر کے مار بھی کھاتی ہیں۔ نند اور نندوئیوں کی خدمت کا فرض بھی اس پر لادا جاتا ہے۔ بے چاری مظلوم لڑکی ظلم سہتی رہتی ہے۔ اسے نہ تو طلاق دی جاتی ہے اور نہ ہی باعزت زندگی گزارنے کا اسے موقع دیا جاتا ہے۔ شرعی قانون کی آڑ لے کر ظلم و ستم کی ساری حدیں پار کردی جاتی ہیں۔ ایسا ہوتا آیا ہے ہورہا ہے اور ہوتا ہی رہے گا اگرکچھ حفاظتی اقدامات نہ کئے جائیں۔ کون جانے کس کے دل میں کیا ہے۔ لڑکے کی عادتیں کیسی ہیں‘ کیا وہ شراب پینے‘ قمار بازی کا عادی تو نہیں۔ کہیں اسے ڈرگس لینے کی لت تو نہیں‘ وہ مار پیٹ کرنے اور گالی گلوچ کا عادی ہے ‘ ساس کی زبان چلتی ہی رہتی ہے۔ سارا قصور لڑکی کے سسرال پر ہی ڈال دیا جاتاہے۔
اس مرض کا علاج ہماری شریعت میں موجود ہے۔ اس قانونی اور شرعی موقف کی وجہ سے عورت کی آزادی اور عزت نفس محفوظ ہے۔ لیکن افسوس کہ علمائے دین اور مفتیانِ شرع متین اس موقف پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور کچھ بھی نہیں کرتے۔
اس معاہدہ کے تحت شادی کے بعد اگر لڑکے میں کچھ ایسی باتیں پائیں جو اصولِ شرع اسلام کے خلاف ہوں تو مرد اور عورت کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے کہ اگر شوہر سے کوئی بھی ایسی حرکت سرزد ہو جو شرعِ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہو تو بیوی کو اختیار حاصل ہوگا کہ دیئے گئے اختیارات کی روشنی میں خود کو طلاق دے لے اور یہ طلاق اسی طرح کارگر ہوگی جس طرح عام طور پر ہوتی ہے۔ معاہدہ تحریری ہونا چاہیے جس میں شوہر اقرار کرے کہ اگر آئندہ مجھ سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہو جو اصولِ شرع اسلام کے خلاف ہو تو میری بیوی کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ خود کو میرے تفویض کردہ اختیارات کے تحت طلاق دے لے۔ اس طرح وہ میری زوجیت سے خارج ہوگی اور بعد مدتِ عدت اسے اختیار حاصل ہوگا کہ دوسرا نکاح کرلے۔ اس معاہدہ پر دو گواہوں کے دستخط ضروری ہیں۔ اگر یہ معاہدہ شادی کے وقت ہی ہو تو بہت ہی اچھا ہوگا تاہم ایسا معاہدہ بعد میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ معاہدہ مرد کے لیے ایک وارننگ ہوگا کہ وہ رااہِ راست پر آجائے اور گناہوں سے اپنا دامن کو آلودہ نہ کرے۔
معاہدہ میں ایسی باتیں ہونی چاہیے۔
-1 مرد اصولِ شرع اسلام کی پابندی کرے گا۔
-2 منشیات سے پرہیز کرے گا۔
-3 پابندِ صوم و صلواۃ ہوگا۔
-4 بیوی کی جائز ضروریات کو پورا کرے گا۔
-5 کبھی کسی غیر عورت سے ناجائز تعلقات نہ بنائے گا۔
-6 مہر کی رقم ادا کرے گا۔
-7 بیوی کو میکہ جانے کی اجازت دے گا۔
-8 عورت کو گالی نہ دے گا اور نہ مار پیٹ کرے گا۔
معاہدہ کے مطابق ان شرائط میں سے کسی ایک شرط کی خلاف ورزی پر عورت کو حق حاصل ہوگا کہ خود کو طلاق دے لے جو کہ شوہر کی جانب سے تفویض کیا گیا ہے۔
ہمارے رائے میں نکاح کے کتابچے میں طلاقِ تفویض کی شمولیت ایک مستحسن اقدام ہوگا۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w