سیاستمضامین

مولانا مفتی حافظ محمد محبوب شریف نظامی ؒجن کو دیکھ کر اسلاف کی یاد تازہ ہو جاتی تھی

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
سابق اسویٹ پروفیسر سیاسیات

قحط الرجال کے اس دور میں کسی عالم با عمل کا دنیا سے گزر جانا امت کے لئے ایک سانحہ سے کم نہیں ہے۔حضرت مولانا مفتی حافظ محمدمحبوب شریف نظامیؒ کی رحلت پر عربی زبان کا یہ مقولہ صادق آتا ہے کہ ” موت العالِم موت العالَم ” یعنی عالِم کی موت عالَم کی موت ہے۔ اہل علم کا دنیا سے اٹھ جانا صرف خاندان کے لئے صدمہ کا باعث نہیں ہوتا بلکہ پوری امت کا یہ عظیم نقصان ہوتا ہے۔ مولانامحبوب شریف نظامی اپنے تبحر علمی کے علاوہ اپنے اعلیٰ اخلاق و کردار کی وجہ سے نہ صرف طبقہ علماء میں قدر و منزلت کی نظر سے دیکھے جا تے تھے بلکہ وہ اپنی سادگی اور ملنساری کی وجہ سے عام لوگوں میں بھی اپنی خاصی مقبولیت رکھتے تھے۔ مولانا کی امتیازی خصوصیت جس کا تذکرہ آپ کے انتقال کے بعد مختلف دینی ، سماجی ، تعلیمی اور مسلکی حلقوں میں کیا جا رہا ہے وہ آپ کا مسلک ِ اعتدال ہے۔ دین کی بھرپور معلومات رکھنے اور ایک خاص نظریہ کے حامل ہونے کے باوجود تمام مسالک کا احترام اور سب ہی کی عزت و توقیر کرنا مولانا کا خاص مزاج تھا۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ کوئی فردکسی جماعت یا مسلک سے وابستہ ہوجائے تو وہ اپنی جماعت اور مسلک کو ہی حق مانتا ہے اور دوسرے مسالک یا جماعتوں کے افراد کو اپنے سے کم تراور الگ سمجھتا ہے۔ ایسے افراد جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوگی ان کی اس تنگ دلی کے نتیجہ میں ملت میں انتشار اور افتراق کی راہیں مسدود نہیں ہوپاررہی ہیں۔ مولانا مرحوم نے دکن کی مایہ نازدینی جامعہ ، جامعہ نظامیہ سے اپنی دینی تعلیم مکمل کی۔ وہ جب بھی اپنے مادر علمی کا تذکرہ کر تے تو اپنے اساتذہ کے اسمائے گرامی بڑی محبت اور عقیدت کے ساتھ لیتے۔ اسی کے ساتھ وہ جماعت اسلامی کے بزرگوں اور بالخصوص مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کے لئے اپنا دل نکال کر رکھ دیتے تھے۔ مولانا کی جامعہ نظامیہ سے فراغت اور جماعت اسلامی سے وابستگی یہ عام لوگوں کے لئے ایک حیران کن بات ہے۔ لیکن مولانا محبوب شریف نظامی کی شخصیت کا یہ کمال رہا کہ انہوںنے راہ اعتدال اختیار کرتے ہوئے دونوں سے اپنی مضبوط وابستگی تا حیات باقی رکھی۔آپ کی نماز جنازہ میں جامعہ نظامیہ کے علماء ، اساتذہ و طلباء کی کثیر تعداد کے ساتھ جماعت اسلامی کے تمام ذ مہ داران، ارکان و کارکنان کی موجودگی جن میں اضلاع سے آئے ہوئے احباب بھی شامل ہیں اس بات کا ثبوت ہے کہ مولانا جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہونے کے باوجود وسیع المشربی کے قائل تھے۔ مولانا مرحوم نے اپنی ساری زندگی تعلیم و تدریس، دینی خدمات اور تصنیف و تالیف میں گزار دی۔ اسلامیہ عربی کالج کرنول سے 2002 میں وظیفہ حسن خدمت سے سبکدوش ہونے کے بعد آپ نے حیدرآباد میں رحمت ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی قائم کرکے عصری اور دینی تعلیمی ادارے قائم کئے۔ ان اداروں کے ذریعہ امت کے نونہالوںکو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی کوشش میں لگے رہے ۔ اس میں مولانا کے لائق فرزندان کا بھی اہم حصہ رہا۔ قرطاس و قلم سے آپ کا گہرا رشتہ تھا۔ مختلف دینی موضوعات پر آپ کے مضامین روزنامہ منصف کے علاوہ دیگر اخبارات میں بھی شائع ہوتے رہے۔ مولانا کا انداز تقریر بھی بڑا اچھوتا تھا۔ بہت سادہ انداز میں بڑی اور اہم باتیں کہہ جا تے تھے۔ حافظِ قرآن اور کامل التفسیر ہونے کی وجہ سے آپ کے دروس قرآن کی کیفیت کچھ الگ ہی ہوتی۔ مولانا نے آسان دوروس قرآن کے عنوان سے کتاب بھی شائع کی ہے جو کافی مقبول ہوئی اور درس قرآن دینے والوں کے لئے مولانا کا یہ بہترین تحفہ ہے۔
مولانا محبوب شریف نظامیؒ نے سرزمین دکن سے تعلق رکھنے والی مایہ ناز ہسیتوں کی سوانح حیات کو ” بیسویں صدی میں دکن کی علمی ، دینی، اصلاحی و ادبی شخصیتیں "کے عنوان سے دو جلدوں میں مرتب کیا ہے۔ پہلی جلد میں 38دکن کی نابغہ روزگار شخصیتوں کا تذکرہ کیا گیا۔ کتاب کو تین ابواب میں تقسیم کیا گیا۔ پہلا باب علماء و صلحاء امت کا ہے۔ دوسرا باب مصلحین و قائدین ملت پر مشتمل ہے ۔ تیسرے باب میں اساتذہ قرائت ، ارباب صحافت اور شعراء و ادباد کا تذکرہ کیا گیا۔ اپنی اس تالیف میں مولانا نے مسلک و مکتب کا کوئی خیال نہیں رکھا بلکہ ہر اس شخصیت کا تذکرہ کیا جو ملت کے لئے خیر کے کام کی ہے۔ چند اہم شخصیات جن کی خدمات کا مولانا نے اعتراف کیا ہے ان میں بانی جامعہ نظامیہ حضرت مولانا محمد انواراللہ فاروقی ؒ ، مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ، ( پروفیسر جامعہ عثمانیہ) مولانا حسام الدین فاضل ؒ،مولانا ابوالوفاء افغانی ؒ، مولونا مفتی رحیم الدین ؒ ، ڈاکٹر حمید اللہؒ، محدث دکن حضرت عبداللہ شاہ نقشبندیؒ اور مولانا عبدالقدیر صدیقی ؒ وغیرہ شامل ہیں۔ مصلحین و قائدین ملت میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، قائد ملت بہادر یارجنگؒ، مولاناعبد الواحد اویسی ؒ، سید خلیل اللہ حسینیؒ، مولانا عبد الرزاق لطیفیؒ وغیرہ شامل ہیں۔ باب سوم میں قاری کلیم اللہ حسینیؒ، سید لطیف الدین قادری مرحوم ، ایڈیٹر رہنمائے دکن اورجناب عابدعلی خان مرحوم ایڈیٹر سیاست کے علاوہ نامور شعراء امجد حیدرآبادی وغیرہ کے متعلق لکھا گیا۔ کتاب کی دوسری جلد میں بھی تین ابواب کے تحت اہم شخصیات کا خاکہ مولانا نے پیش کیا۔ اس میں کُل 53شخصیات شامل ہیں ۔ پہلے باب کی قابل ذکر شخصیتیوں میں ڈاکٹر عبد الحق، بانی عثمانیہ کالج کرنول ، مولانا کے دونوں برادران مولانا محمد شریف نظامیؒ ( سابق استاذ جامعہ دارلہدی) اور مولانا محمد خواجہ شریف ؒ( شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ ) مولانا سید جلال الدین انصر عمری ،ؒ سابق امیر جماعت اسلامی ہند، مولانا مفتی خلیل احمد، شیخ الجامعہ نظامیہ، پروفیسر محمد عبد المجید صدیقی ، سابق صدر شعبہ عربی، جامعہ عثمانیہ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ، وغیرہ شانل ہیں۔ دوسرا باب جو مصلحین و قائدین ملت پر مشتمل ہے اس میں قابل ذکر نام مولانا محمد حمید الدین عاقل حسامی ؒ، مولانا سراج الحسنؒ، سابق امیر جماعت، سلطان صلاح الدین اویسی ؒ، صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین ، مولانا عبدالعزیزؒ، سابق نائب امیر جماعت، جناب محمد عبدالرحیم قریشی ؒ، سابق صدر مجلس تعمیر ملت ، مولانا غوث خاموشی ؒ، جناب امان اللہ خان مرحوم ، سابق صدر مجلس بچاو تحریک وغیرہ شامل ہیں۔ تیسرے باب میں جناب سید وقار الدین مرحوم ، ایڈیٹر رہنمائے دکن اور جناب زاہد علی خان ایڈیٹر روزنامی سیاست کے علاوہ دیگر شخصیات کا تذکرہ کیا گیا۔ اخبار کے مضمون میں 38+53=91شخصیات کے نام لکھنا ممکن نہیں ہے اس لئے مضمون نگار اس ضمن میں معذرت خواہ ہے۔ جن شخصیتوں کے نام چھوٹ گئے ہیں وہ بھی اہم شخصیتں ہیں اس لئے قارئیں دونوں کتابوں کا مطالعہ کریں تو مولانا مرحوم کی اپنے بزرگوں سے محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مولانا نے دکن کی شخصیات پر قلم اٹھا کر فرض کفایہ ادا کیا ہے۔ اس سلسلے کو اب ان کے بعد آنے والے جاری رکھیں اور اس کو کسی مخصوص جماعت یا مسلک یا ادارے تک محدود نہ رکھیں بلکہ مولانا نے جس وسیع النظری کا ثبوت دیتے ہوئے دکن کی تمام قابل قدر شخصیات کی خدمات کا اعتراف کیا ہے اسی طرح ہم بھی آنے والی نسلوں کو اپنے اسلاف کے کارناموں سے واقف کرائیں۔ مولانامحبوب شریف نظامی ؒکی شخصیت کثیر الجہات تھی۔ مولانا مرحوم کی دینی، ملی،سماجی اور تعلیمی خدمات کا احاطہ ایک مختصر مضمون میں نہیں کیا جا سکتا ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام انہیں عطا کرے، ملت کو اور تحریک کو ان کا نعم البدل ملے۔

a3w
a3w