رام پنیانی
بھارت جوڑو یاترا کو اس کے آخری پڑائو وادی کشمیر میں زبردست عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ اس موقع کا استعمال کچھ قلمکاروں اور تبصرہ نگاروں نے نہرو کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لیے کیا۔ کشمیر کے موجودہ حالات کے لیے نہرو کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ کچھ لوگوں نے ایک بار پھر نہرو اور پٹیل کے درمیان مبینہ اختلاف رائے کو اچھالنا شروع کردیا۔ یہ کہا جارہا ہے کہ اگر کشمیر کا مسئلہ سردار پٹیل سنبھالتے تو انہوں نے اسے ’’حل‘‘ کردیا ہوتا۔ یہ سوچ بچکانی تو ہے ہی سچ سے کوسوں دور بھی ہے۔ اور یہ نہرو پر نہایت جھوٹے الزامات عائد کرتی ہے۔دراصل یہ کشمیر کے مصیبتوں سے بھرے ماضی اور پریشانیوں سے گھرے حال کے سلسلے میں بی جے پی آر ایس ایس کے بیانیہ کو تقویت دینے کی کوشش ہے۔
جب ہندوستان نوآبادکاری دور سے آزاد ہونے والا تھا، تب ملکی شاہی ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ یا تو ہندوستان میں شامل ہوسکتے ہیں یا پاکستان کا حصہ بن سکتے ہیں یا پھر آزاد رہ سکتے ہیں۔ بیشتر ریاستوں نے دونوں میں سے ایک ملک کو منتخب کرلیا۔حیدرآباد اور کشمیر نے مسئلہ کھڑا کردیا۔ بعد میں حیدرآباد کو تو پولیس ایکشن کے ذریعہ جسے آپریشن پولو نام دیا گیا تھا ہندوستان میں ضم کرلیا گیا مگر کشمیر کی صورت حال کچھ پیچیدہ تھی۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی، کشمیر کی پاکستان کے ساتھ جغرافیائی قربت اور دوسری، وہاں کی آبادی میں مسلمانوں کی اکثریت۔
مہاراجہ ہری سنگھ کشمیر کو آزاد رکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ہندوستان اور پاکستان دونوں کو ان کے ساتھ ’’اسٹانڈ اسٹل اگریمنٹ‘‘ کرنے کی تجویز دی۔ پاکستان نے اسے قبول کرلیا۔ نتیجہ میں کشمیر کے ڈاک گھرو ںپر پاکستانی پرچم لہرانے لگے کیوں کہ وہاں کے ڈاک نظام کا انتظام پاکستان کے حوالے کردیا گیا۔
ہندوستان نے ہر ی سنگھ کی تجویز کو قبول نہیں کیا۔ اس بیچ مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف تشدد شروع کروادیا۔ انہیں لگتا تھا کہ اگر انہیں ایک مسلم اکثریتی ریاست پر حکمرانی کرنی ہے تو ریاست کا کم سے کم ایسا ایک علاقہ ہونا چاہیے جہاں ہندوئوں کی اکثریت ہو۔ اس تشدد میں تقریباً دو لاکھ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ ’’دی ٹائمس‘‘ لندن میں 10؍ اگست1948ء کو شائع ایک خبر میں کہا گیا تھا کہ ’’مہاراجہ کی قیادت والی ڈوگرا ریاست کے فوجیوں نے ہندوئوں اور سکھوں کی مدد سے 2,37,000 مسلمانوں کا منصوبہ بند ڈھنگ سے صفایا کردیا۔صرف وہی مسلمان بچ سکے جو پاکستان فرار ہوئے۔ یہ قتل عام اکتوبر1947ء میں پٹھانوں کے حملے کے 5 دن قبل اور مہاراجہ کی جانب سے ہندوستان سے الحاق قبول کرنے کے 9دن قبل ہوا تھا۔‘‘ اسی قتل عام نے جموں کو مسلم اکثریتی سے ہندو اکثریتی علاقہ میں تبدیل کردیا اور یہ بھی کشمیر مسئلہ کی ایک وجہ ہے۔
مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے کے بہانے پاکستانی فوج کی حمایت سے قبائلیوں نے کشمیر پر حملہ کردیا۔ ریاست اس حملے کے لیے تیار نہیں تھی او رنہ ہی اس کے پاس حملہ آورو ںسے مقابلہ کرنے کے لیے فوجی طاقت تھی۔ لہٰذا مہاراجہ نے ہندوستان سے اپنی افواج کو بھیجنے کی درخواست کی۔ اس پس منظر میں کشمیر اور ہندوستان کے درمیان الحاق کے معاہدہ پر دستخط ہوئے۔
اس سے پہلے تک ہری سنگھ ہندوستان سے الحاق کے لیے تیار نہیں تھے۔ جناح نے کہا تھا کہ کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے لحاظ سے ویسے ہی ان کی جیب میں ہے۔ شیخ عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانگریس جو پہلے مسلم کانفرنس کہلاتی تھی نے مہاراجہ کی حکمرانی کے خلاف عوامی تحریک شروع کی تھی۔ کشمیر کے علاوہ جونا گڑھ اور حیدرآباد بھی ہندوستان میں انضمام کے لیے تیار نہیں تھے۔ سردار پٹیل اس بات کے لیے راضی تھے کہ اگر حیدرآباد اور جونا گڑھ ہندوستان کا حصہ بن جائیں تو کشمیر پاکستان کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔
راج موہن گاندھی اپنی کتاب ’’پٹیل اے لائف‘‘ میں لکھتے ہیں کہ پٹیل کی سمجھوتہ تجویز یہ تھی کہ اگر جناح جونا گڑھ اور حیدرآباد کو ہندوستان میں شامل ہونے دیتے ہیں تو وہ کشمیر کے پاکستان کا حصہ بننے پر کوئی اعتراض نہیں کریں گے۔ راج موہن گاندھی نے جونا گڑھ کے بہائو الدین کالج میں دیے گئے پٹیل کے خطاب کو نقل کیا۔ اس میں پٹیل نے کہا کہ تھا کہ اگر وہ حیدرآباد پر راضی ہوجاتے ہیں تو ہم کشمیر پر راضی ہوجائیں گے۔‘‘
جہاں تک مسئلہ کشمیر کا سوال تھا، دیگر شاہی ریاستوں سے وہ اس معاملے میں الگ تھا کہ اس میں پاکستان کی مداخلت بھی تھی، اس لیے نہرو جو کہ ہندوستان کے وزیر خارجہ بھی تھے نے اس معاملے میں دلچسپی لی۔ مابقی سبھی شاہی ریاستوں کا مسئلہ پٹیل پر چھوڑدیا گیا کیوںکہ ان کے معاملوں میں کسی دوسرے ملک کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ پٹیل کی دلچسپی جونا گڑھ اور حیدرآباد میں زیادہ تھی، کشمیر میں کم۔ مگر اس معاملے میں ان کے نظریات نہرو سے مختلف نہیں تھے۔
جس دوران دستور میں دفعہ370 شامل کرنے پر بحث چل رہی تھی، اس وقت پٹیل زندہ تھے۔ اس دفعہ کا مسودہ تیا رکرنے میں بھلے ہی ان کا مرکزی کردار نہ رہا ہو مگر انہیں یہ پتا تھا کہ کیا چل رہا ہے۔ اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ پٹیل نے دفعہ 370 کی مخالفت کی تھی۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پٹیل جنگ بندی کرنے کی بجائے ہندوستانی فوجیوں کو پاکستان میں اور آگے بڑھنے دیتے۔ ایسے لوگوں کو پٹیل کی جانب سے 4؍ جون 1948 کو گوپال سوامی آینگر کو تحریر کردہ مکتوب پڑھنا چاہیے۔ اس میں پٹیل نے لکھا تھا ’’فوجی حالات زیادہ اچھے نہیں ہیں او رمجھے اندیشہ ہے کہ ہمارے فوجی وسائل پر جتنا دبائو ڈالا جاسکتا تھا اتناڈالا جاچکا ہے۔‘‘ (سردار پٹیل کے مخطوطات)
ہندوستانی فوج نے کشمیر کو پاکستانی فوج کے حمایت یافتہ قبائلیوں کے ہاتھوں برباد ہونے سے بچالیا۔ جنگ بندی کا اعلان اس لیے کیا گیا تا کہ شہریو ںکی زندگی بچائی جاسکے اور اقوام متحدہ کے ذریعہ مسئلہ کا کوئی پُرامن حل نکالا جاسکے۔ کشمیر کے معاملے کو اقوام متحدہ میں لے جانے کے فیصلے کی آج تنقید کرنا بہت آسان ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کے حالات میں یہ سب سے بہتر راستہ تھا۔
پٹیل نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے جانے کے فیصلے کی تائید کی تھی۔ ’’جہاں تک پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے خصوصی مسائل کا سوال ہے جیسا کہ آپ نے بھی کہا ہے کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل کے سامنے ہے۔ جب ہم نے تنازعات کی یکسوئی کے لیے ایک پلیٹ فارم کو منتخب کرلیا ہے جو اقوام متحدہ کے رکن کے بطور پاکستان اور ہندوستان دونوں کے لیے کھلا ہے تب تنازعہ کی یکسوئی کے لیے اور کچھ بھی کیے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں اس تنازعہ کے حل کے معاملے کو اس پلیٹ فارم پر چھوڑدینا چاہیے۔‘‘ (سردار پٹیل مخطوطات، 1945-50، باب 10، صفحات 105-106، نو جیون پبلشنگ ہائوس، احمد آباد، 1947 میں شائع جواہر لعل نہرو کے نام سردار پٹیل کا خط مورخہ 23؍ فروری 1950)
نہرو او رپٹیل کے درمیان کشمیر کے مسئلہ پر ٹکرائو اور اختلاف رائے کی باتیں مکمل خیالی ہیں، کیو ںکہ دونوں رہنماوں کی اس معاملے میں ایک رائے تھی۔
جہاں تک کشمیر کا سوال ہے، بھارت جوڑو یاترا کا وہاں جس طرح کا خیرمقدم ہوا ہے، اس نے حکومت ہند کو محاسبہ کرنے اور ریاست میں جمہوریت کی بحالی کا ایک اور موقع دیا ہے۔