سیاستمضامین

ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں

ایسی بھیانک صورتحال کو دیکھ کر سپریم کورٹ کے دو فاضل ججوں نے ایک ایسا تاریخی فیصلہ سنایا ہے کہ جس کے چلتے نفرتی تقاریر اور نفرت پیدا کرنے والے پروپگنڈوں سے ملک بچ جائے گا۔ سپریم کورٹ نے نفرت انگیز تقاریر پر شکایت کے بغیر بھی مقدمات درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے خاطی قائدین کو ایک کھلی وارننگ دی ہے کہ وہ اپنی گندی سوچ سے پرے ہوجائیں ورنہ قانون کا شکنجہ ان پر کس دیا جائے گا۔

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی

جارج برنارڈ شاہ نے کہا تھا کہ ’’ ہم پرندوں کی طرح ہوا میں اڑنا اور مچھلی کی طرح پانی میں تیرنا تو سیکھ گئے ہیں بس اب یہ سیکھنا باقی ہے کہ زمین پر انسانوں کی طرح کیسے رہ سکتے ہیں‘‘۔ ایسا لگتا ہے کہ برنارڈ شاہ شاید ہمارے ملک کے نکمے سیاستدانوں سے مخاطب ہیں کیونکہ وہ اس بات سے عاری ہے کہ زمین پر کس ڈھنگ سے رہنا اور جینا چاہئے ۔ چناؤ جیتنے کے لئے ملک کو جذباتی طورپر تقسیم کرنے کی تقریروں کے ذریعہ لگ بھگ سبھی لیکن خاص طورپر بھارتیہ جنتا پارٹی کے قائدین ہندو۔مسلم‘ قبرستان ۔ شمشان‘ ہندوستان۔ پاکستان یا پھر دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو جیسے مذموم نعروں کے ذریعہ اقتدار پر بنے رہنے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ ایسی بھیانک صورتحال کو دیکھ کر سپریم کورٹ کے دو فاضل ججوں نے ایک ایسا تاریخی فیصلہ سنایا ہے کہ جس کے چلتے نفرتی تقاریر اور نفرت پیدا کرنے والے پروپگنڈوں سے ملک بچ جائے گا۔ سپریم کورٹ نے نفرت انگیز تقاریر پر شکایت کے بغیر بھی مقدمات درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے خاطی قائدین کو ایک کھلی وارننگ دی ہے کہ وہ اپنی گندی سوچ سے پرے ہوجائیں ورنہ قانون کا شکنجہ ان پر کس دیا جائے گا۔
عدالت نے ایک ایسا حکم دیا ہے کہ جس کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔ عدالت عظمیٰ نے یہ کہہ کر کہ اگر خاطی قائدین کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی تو اسے عدالت کی توہین مانا جائے گا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے قائدین نفرت آمیز تقریروں اور بیانات کو جیسے اپنی وراثت سمجھتے ہیں اور جی میں جو آیا بکے جاتے ہیں تاکہ عوام کو ووٹوں کے خاطر تقسیم کردیا جاسکے۔ اترپردیش کے چیف منسٹر نے تو ایک بار ایک چناوی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اترپردیش میں اصل مقابلہ 80 فیصد بنام 20 فیصد ہے یعنی ان کا یہ کہنا تھا کہ 80فیصد ہندو ان کے ووٹرس ہیں اور صرف 20 فیصد مسلمان دوسری پارٹیوں کے ووٹرس ہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ نے سارے ملک کو یہ بتادیا ہے کہ دستور پر عمل کروانے والا ادارہ یعنی سپریم کورٹ ابھی زندہ ہے اور وہ ملک کو بانٹنے والی کسی بھی سازش کو ناکام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ عدالت العالیہ کا یہ Observation ہندوستان کی تاریخ کا ایک نیا باب بنے گا۔ اب تک یہ ہوتا رہا تھا کہ کوئی بھی قائد عوام کے اتحاد کو توڑنے والی تقریر کرکے اس لئے بچ جاتا تھا کیونکہ اس کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں کی جاتی تھی لیکن اب جبکہ عدالت نے حتمی طورپر یہ کہہ دیا ہے کہ شکایت کے بغیر بھی فی الفور کیس بک کیا جانا چاہئے اگر پولیس یا ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن یہ کام نہیں کرتا ہے تو اس عمل کو Contempt of Court مانا جائے گا جو بہت بڑا جرم سمجھا جاتا ہے۔ عدالت نے یہ بھی تجویز پیش کی ہے کہ اس فیصلہ پر عمل کرنے کے لئے ملک کے ہر ضلع میں ایک نوڈل آفیسر کا تقرر کیا جائے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ اس کیس کی سنوائی کے دوران عدالت نے مہاراشٹرا کی حکومت کو Impotent قرار دیا تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ نفرت انگیز تقریریں ملک کے سیکولر کردار کی دھجیاں اڑا دیتی ہیں۔ عدالت نے واضح طورپر یہ ہدایت دی کہ ایسے تمام لوگوں کے خلاف بلا تفریق مذہب و ملت کاروائی کی جانی چاہئے۔ عدالت کے اس رخ سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ سپریم کورٹ کو ملک کے جذباتی اتحاد سے کتنا شغف ہے۔ اگر ہم آزادی کے بعد ہونے والے مختلف تشدد آمیز واقعات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ وارداتیں نفرتی تقریروں اور پروپگنڈوں کی وجہ سے پیش آئیں ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار کھلے طورپر یہ کہتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکاریں چاہے وہ مرکز کی ہوں یا پھر ریاستوں کی سب ہی Communal Agenda پر ٹکی ہوئی ہیں ۔ ترقیاتی معاملے میں ان کی کارکردگی قابل ذکر نہیں ہے۔ ویسے دوسری پارٹیوں کے قائدین بھی بیہودہ بکواس کرتے ہوئے ہندو۔ مسلم اتحاد کو پامال کرتے ہیں۔ ملک کے ممتاز ماہر قانون کپل سبل نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کی ستائش کرتے ہوئے یہ کہا کہ مذہب کو سیاست سے الگ کرنا بہت ہی کٹھن کام ہے لیکن اسے ایک چیلنج کے طورپر قبول کیا جاتا ہے تو نتائج مثبت ہوسکتے ہیں۔
کپل سبل نے اڈوانی جی کی رتھ یاترا کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ نفرت کی بنیاد پر ہی نکالی گئی تھی یہ بات بالکل سچ ہے کہ اسی یاترا کے سبب بی جے پی کو ایک نئی سیاسی زندگی ملی تھی۔ اڈوانی نے یہ بات کھل کر کہی تھی کہ ہمیں رام مندر کی رتھ یاترا سے خاصا سیاسی فائدہ ہوا۔ نفرت کی اس تحریک کے سبب ہی بھارتیہ جنتا پارٹی پارلیمنٹ کی دو نشستوں سے بڑھ کر 180 تک پہنچ گئی تھی۔ پھر اس کے بعد نفرت کا سفر جاری رکھا گیا اور اب یہ پارٹی مکمل اکثریت کے ساتھ مرکز کی سرکار چلا رہی ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکارنہیں کیا جاسکتا کہ بی جے پی کے علاوہ مجلس ‘ شیوسینا ‘ این سی پی ‘ سماج وادی ‘ کانگریس اور دیگر علاقائی جماعتوں نے بھی مختلف موقعوں پر نفرت انگیز تقریروں کا سہارا لیا۔ جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ سنگھ پریوار کے کچھ ایسے ادارے ہیں جو نام نہاد دھرم سنسدوں کا اہتمام کرتے ہوئے کچھ ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جس سے خون خرابہ ہونے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ایسے پروگراموں کو منعقد کرنے کی اجازت ہی نہ دی جائے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ آبادی کے اعتبار سے ہم دنیا کے سب سے بڑے ملک بن کر ابھرے ہیں تو ہمیں امن و ضبط کی برقراری میں کوئی کسر برقرار نہیں رکھنا چاہئے ۔ سارے عالم میں ہندوستان کو اس کی رواداری ، بھائی چارہ اور بین المذہبی اتحاد اور اتفاق کے سبب بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ نوکر شاہی ، مقننہ اور عدلیہ کو ایک جٹ ہوکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ساری دنیا میں ہم ایک ایسے ملک کے طورپر اپنے آپ کو پیش کریں کہ جہاں قانون بنتا بھی ہے اور اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ بہرحال سپریم کورٹ نے اس سلگتے ہوئے مسئلہ کو اہمیت دے کر جو فیصلہ کیا ہے اس کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔ عدالت العالیہ نے بڑے سلیقہ کے ساتھ غالب کی زبان میں تھوڑی سی تحریف کے ساتھ یہ کہہ دیا ہے کہ
ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
۰۰۰٭٭٭۰۰۰