سیاستمضامین

اپوزیشن زیرِ اقتدار ریاستوں میں بے نامی جائیدادوں کے مالکین کے خلاف انکم ٹیکس اور انفورسمنٹ ڈائرکٹریٹ کے مسلسل دھاوے ۔ سیاسی انتقاملیکن ایسے مالکینِ جائیداد پر بھی دھاوے کئے جارہے ہیں جن کا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں ہے

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد

٭ بے نامی جائیداد کے قانون سے واقفیت اور حفاظتی اقدام وقت کا تقاضہ۔
٭ اپنے پیسوں سے بیوی بچوں کے نام پر خریدی ہوئی جائیداد بے نامی جائیداد کہلائے گی اور ضبط ہوجائے گی۔
٭ جس کے نام پر جائیداد ہو اسے ثابت کرنا ہوگا کہ یہ جائیداد اس کی جائز کمائی سے خریدی گئی ہے۔
٭ بے نامی جائیداد کو قانونی دائرے میں لایا جاسکتا ہے۔ یہی تحفظ کا اقدام ہے۔
دلی کی زعفرانی حکومت ریاستِ کرناٹک میں کراری شکست کے بعد سیخ پا ہوگئی ہے اور ایسے نت نئے طریقے اپنارہی ہے جس سے اپوزیشن کے بڑھتے ہوئے حوصلے پست ہوجائیں اور وہ اس قابل ہی نہ رہیں کہ ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں اپنا زور آزماسکیں۔ اپوزیشن پر مسلسل اور متواتر دھاوؤں کے خلاف سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک رٹ درخواست دائر کی گئی جس پر مرکزی حکومت سے جوابی حلف نامہ طلب کیا گیاہے۔ مہاراشٹرا میں نواب ملک اور شیوسینا کے ایک قائد کو گرفتار کیا گیا۔ یہی حال مغربی بنگال اور راجستھان میں ہے جہاں غیر بی جے پی حکومتیں ہیں۔ حکومت صرف طاقت اور دولت کے بل پر اپنی مرضی منوانا چاہتی ہے اور اگر کوئی خیر چاہے تو پھر سے بی جے پی کے رنگ میں نظر آئے اور اس کے خلاف تمام کارروائیاں ختم کردی جائیں گی ۔ ملک آمرانہ طرز پر چلایا جارہا ہے لیکن دبی ہوئی چنگاریاں ضرور ہیں اور زیرِزمین ارتعاش بھی جسے (Under Current) کہتے ہیں۔ یہ ارتعاش سارے ملک میں ایک برقی لہر دوڑاسکتا ہے اگر اتفاقِ رائے ہو اور اپوزیشن ایک بمقابلہ ایک کے نظریہ پر متفق ہو۔
لیکن چھوٹی موٹی جائیدادیں رکھنے والے مسلم افراد بھی بے نامی قانون کی زد میں آرہے ہیں اور نوٹس کے ذریعہ ان سے دریافت کیا جارہا ہے کہ ان جائیدادوں کی خرید میں مصروف رقم کے حسابات اور حصول کے ذرائع بتائے جائیں۔ ایسی شکایتیں وصول ہوئی ہیں ۔ انکم ٹیکس عہدیداروں کے خواب میں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا تو پھر ان عہدیداروں کو ایسی صحیح معلومات کون فراہم کرتا ہے؟
جائیدادوں کی رجسٹری کی پہلی اطلاع اندرون 24گھنٹہ آن لائن انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کو دیدی جاتی ہے ‘ علاوہ ازیں انکم ٹیکس وصول کرنے کے دیگر کئی ذرائع ہیں جن میں انفارمرس نیٹ ورک اور خود مالکِ جائیداد سے حسد رکھنے والے عزیز و اقارب اور دوست احباب ہوسکتے ہیں۔
بے نامی جائیداد کیا ہوتی ہے؟
ایسی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد جو اپنے پیسوں/کمائی سے دوسرے افراد کے نام پر خریدی جائے۔ ایسے لوگ جن کے نام پر بے نامی جائیداد خریدی جائے انہیں بے نامی دار کہتے ہیں۔ بے نامی جائیداد امتناعی قانون میں اس کی صاف صراحت ہے۔ بے نامی داروں میں بیٹے ۔ بیٹی ۔ بیوی۔ ماں۔ باپ۔ بھائی۔ بہن۔ دوست احباب ۔ ملازم سب آتے ہیں چاہے وہ ملک میں رہتے ہوں یا باہر ممالک میں رہائش پذیر ہوں۔ اگر کوئی بڑی جائیداد/جائیدادیں ایک بیٹے کے نام پر خریدی جائیں اور اس کی خرید کی رقم باپ ادا کرے تو یہ سمجھا جائے گا کہ اس جائیداد کو بیٹے نے خریدا ہے اور جو رقم اس خرید میں صرف ہوئی ہے اس کا حساب مانگا جائے گا۔ اگر بیٹے نے اپنے جائز ذرائع آمدنی بتادیئے اور اس آمدنی پرانکم ٹیکس ادا کردیا ہے تو ایسی جائیداد بے نامی جائیداد نہیں سمجھی جائے گی اور اگر دوسری جانب بیٹا اپنے ذرائع آمدنی کو ثابت نہ کرسکے تو ایسی جائیداد بے نامی جائیداد قراردے کر ضبط کرلی جائے گی اور دونوں پر مقدمہ چلایا جائے گا جس میں سزائے قید ہوسکتی ہے۔ (دیکھئے ۔ Prohibition of Benami Transaction Act. 2016)
ہمارے پاس یعنی شہر حیدرآباد میں ایک دستور چلاآرہا ہے کہ اپنی اولاد کے ذرائع آمدنی کے لئے ان کے نام پر بڑی بڑی جائیدادیں خریدی جاتی ہیں لیکن اس سے پہلے نہ تو قانون پر غور کیا جاتا ہے اور نہ سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لوگ حکومت کے ارادوں سے عموماً ناواقف رہتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک ماڈل ٹیننسی ایکٹ منظور کیا گیا جس کے تحت ہر کرایہ نامہ کو ایک اتھاریٹی کے پاس رجسٹر کروانے کا لزوم ہے۔ قبل ازیں لینڈ ٹائٹلنگ ایکٹ بھی پاس ہوا تھا جس کا تذکرہ ایک سے زائد بار کیا گیا ۔ یہاں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ حکومت کی نظر غیر منقولہ جائیدادوں پر گڑی ہوئی ہے جس میں بے پناہ دولت ہے اور حکومت اس دولت کو یا اس دولت پر بھاری ٹیکس کو حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ایک اور قانون جو وزیرِ فینانس کے بیاگ میں رکھا ہے وہ ہے قانون وراثت ٹیکس جو کسی وقت بھی پارلیمنٹ میں ندائی ووٹ سے پاس کروالیا جاتا ہے یا پھر سرکاری کوڑرا جیسے صدارتی حکم نامہ (Ordinance) کے ذریعہ منظور کیا جاسکتا ہے۔ صدارتی حکم نامہ اس قدر طاقتور اور موثر ہوتا ہے کہ جس سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم قراردیا جاسکتا ہے جیسا کہ آپ نے گزشتہ دنوں میں دیکھا۔
اب ہندوستان یا شہر حیدرآباد شہر میں خصوصاً شہریان یعنی مالکینِ جائیداد ایک وقت میں ان قوانین کی زد میں ہیں جن کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے۔

  1. Benami Act.
  2. Land Titling Act.
  3. Model Tenanacy Act.
    (ان تینوں قوانین کو گوگل اور یو ٹیوب پر دیکھا جاسکتا ہے)
    لیکن سب سے زیادہ خطرناک قانون بے نامی جائیداد قانون نظر آتا ہے جس کی راست نظر آپ کی غیر منقولہ جائیداد پر ہے ۔ آپ نے سنا ہوگا گزشتہ دنوں حیدرآباد میں ایک بیش قیمت کار یعنی کروڑوں روپیہ مالیتی کار بے نامی پراپرٹی کے نام پر ضبط کرلی گئی کیوں کہ جس شخص کے نام پر یہ کار خریدی گئی تھی اس کی ساری زندگی کی کمائی بھی اس کار کو خرید نہیں سکتی تھی۔
    اب وقت کا تقاضہ ہے کہ بے نامی جائیداد قانون ۔ وراثت ٹیکس قانون کے خلاف حفاظتی اقدامات کئے جائیں۔ گو کہ اس سے قبل کئی بار اس نازک اور حساس مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی لیکن اس کا کوئی اثر ہوتا ہوا معلوم نہیں ہورہا ہے۔ شائد آنکھوں پر غفلت کے پردے پڑے ہوئے ہیں جو اٹھنے کا نام نہیں لیتے۔
    اگر ایک قانونی اور شرعی طریقہ کار استعمال کیا جائے تو اس مسئلہ کا حل نکل آئے گا۔
    ایسی صورت اور ایسے حالات میں جبکہ زعفرانی حکومت جو کہ ایک شکست سے برانگیختہ ہوگئی ہے مسلمانوں کے خلاف انتقامی کارروائی میں کسی بھی حد تک گزرسکتی ہے ۔ حکومت ایک قدم آگے بڑھ کر ندائی ووٹ سے یونیفارم سیول کوڈ نافذ کرسکتی ہے اور ایسی صورت میں سپریم کورٹ بھی کچھ نہ کرسکے گی کیوں کہ جو کچھ بھی ہوگا وہ سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت ہی ہوگا۔
    اس ضمن میں حفاظتی اقدامات ضروری ہیں جن کی صراحت کی جاتی ہے۔
    -1 اپنی جائیداد کی اولین فرصت میں عاجلانہ اور منصفانہ تقسیم کردیجئے اور کسی بھی وارث کو محروم نہ کیجئے۔
    -2 بے نامی جائیداد کی تقسیم سب سے اولین مرحلے پر ضروری ہے۔ اگرایک بار تقسیم ہوگئی تو ایسی جائیداد کا بے نامی کردار ختم ہوجائے گا۔
    -3 تقسیم جائیداد کے لئے رجسٹریشن کی ضرورت نہیں۔
    -4 اگر آبائی جائیداد ہو تو آپسی تقسیم ہوسکتی ہے اوراس غرص کی تکمیل کیلئے ایک دستاویز تیار کروایا جاسکتا ہے۔
    -5 انتقال جائیداد کا سب سے آسان طریقہ اسلامی اصول ہبہ ہے جس کی اہمیت و افادیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو تمام آنے والی مصیبتوں کا واحد حل ہے
    امید ہے کہ حاکمِ وقت کے تیور کو سمجھ کر احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں گی۔
    ہیلپ لائن نمبرات 040-235235273 – 9908850090
    سوال:- ایک عمارت کی تعمیر کا آغاز سال1997ء میں ہوا تھا۔ مالک مکان نے اس کی تعمیر کے کام کو ایک بلڈر کو دیا تھا۔
    تعمیر کے بعد مالک مکان کو 10فلیٹس اور بلڈر کو 12فلیٹس ملے۔ مالک مکان نے اپنے حصے کے فلیٹس اپنی اہلیہ کے نام درج کروادیئے۔ مالک مکان کی 8 بیٹیاں تھیں انہوں نے اپنے دامادوں کو مشورہ دیا کہ وہ بلڈر سے عمارت میں فلیٹس خریدیں تاکہ عمارت کی زیادہ تر ملکیت اپنے خاندان ہی کے پاس رہے۔ مالک مکان نے اپنی ہر بیٹی کو ایک فلیٹ تحفے میں دیا جو کل ملا کر 8فلیٹس بنتے ہیں اور باقی فلیٹس دامادوں اور دیگر باہر کے افراد نے خریدے تھے ۔
    اب درج ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں:
    -1 عمارت پر ملکیت/اتھاریٹی/نگرانی کی ذمہ داری کس کی ہوگی۔؟
    -2 کیا عمارت کی چھت کا علاقہ متوفی کے وارثوں کو دیا جائے گا۔؟
    دوسری بات یہ کہ مکان مالک کے انتقال کے 5-6سال بعد عمارت میں ایک مصلیٰ بنایا گیا۔ یہ مکان مالک کی اہلیہ کی موجودگی میں اور عمارت میں فلیٹ مالکین کی اکثریت کی رضا مندی سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس وقت ایک کار پارکنگ اس نیک کام کے لئے ایک نماز کا کمرہ تعمیر کرنے کے لئے مختص کیا گیا تھا ‘ لیکن اب اس مصلے نے مسجد کی شکل اختیار کرنے پر کچھ مالکان کی جانب سے اعتراض کیا جارہا ہے ۔ عمارت میں رہنے والے بچے اور بڑے سب اس مسجد سے مستفید ہورہے ہیں کیوں کہ قریبی مسجد چڑھائی پر ہے ‘ وہ بھی پہلی منزل پر ہے‘ جس سے رہائشیوں (خاص طور پر عمر رسیدہ افراد اور بچوں) کے لئے چڑھنا مشکل ہوجاتاہے۔ پڑوسی دکانوں کے مالکان ‘ کارکنان اور رہائشی بھی روزانہ کی نماز میں شامل ہوتے ہیں کیوں وہ بھی اس مسجد کو اپنے قریب پاتے ہیں۔ ان سب کے لئے آسانی اور سہولت ہے ۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ عمارت مین روڈ پر ہونے کی وجہ سے تمام لوگوں کیلئے بہت بڑی سہولت کا باعث ہے۔ بتائی گئی صورت حال کے بعد
    کیا اس مسجد کو جاری رکھا جائے یا مالکان کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ اور تنازعات کی وجہ سے منہدم کردیا جائے۔؟
    اگر یہ نماز کا کمرہ(موجودہ مسجد) اکثر مالکان کی رضامندی سے بنایا گیا تھا ‘ تو کیا اب مسجد کے انتظام کے ذمہ دار شخص کو مسجد کے لئے اس پارکنگ کی زمین کوخریدنے کی ضرورت ہوگی؟
    (نوٹ مسجد اس وقت مختلف مالکان کے زیر انتظام ہے)
    جواب:- اس جگہ کو مسجد نہیں بلکہ نماز گاہ اگر کہیں تو مناسب بات ہوگی۔ مسجد کو تو صرف وہی منہدم کرے گا جو کافر یا منافق ہوگا۔ اس نماز گاہ کا کوئی حقیقی مالک ہے تو صرف اللہ تبارک تعالیٰ کی ذات ہے جس نے اس کامپلکس کے رہنے والوں کو اس مقام پر نماز گاہ بنانے کی توفیق بخشی۔ یہ وہ معاملہ ہے جس میں کسی فرد کی انا جھلک رہی ہے ورنہ اعتراض یا اس اعتراض کے چلتے نماز گاہ کو منہدم کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ آپ نماز کو جاری رکھیئے ۔ اگر کوئی روکنے کی کوشش کرے تو اس کے خلاف پولیس کارروائی کی جاسکتی ہے۔ یہ معاملہ نہ عدالت کا ہے اور نہ ہی پولیس کا ۔ صرف کار پارکنگ کی جگہ نماز گاہ بنائی گئی۔ اعتراض بالکل نامعقول نظر آتا ہے۔

a3w
a3w