سیاستمضامین

آؤ دھوپ کھائیں …

حمید عادل

موسم برسات شروع ہوچکا ہے لیکن ہر سو ہنوز دھوپ کا کھلا کھلا روپ دیکھنے کو مل رہا ہے …اور آدمی چھاؤں کو ترس رہا ہے … ویسے ہر انسان کو چھاؤں کی ٹھنڈک کے ساتھ ساتھ دھوپ کی شدت بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔جو لوگ تفکرات کی دھوپ میں جھلستے ہیں، انہیں یہ بات ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے:
گنگناتا جا رہا تھا اک فقیر
دھوپ رہتی ہے نہ سایہ دیر تک
زندگی،دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے،اکثر تنہائی کی دھوپ میں خوشگواریادیں چھاؤں کا کام کرتی ہیں… لیکن پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ دھوپ نہ ہوتی تو چھاؤں کی کون قدر کرتا؟ دھوپ کے فوائد سے بہت کم لوگ واقف ہیں، ہرکوئی چھاؤں پسند کرتا ہے …جیسے کوئی عاشق اپنی معشوقہ کی گھنی زلفوں کی چھاؤں میں پوری زندگی گزار دینے کی ناممکن خواہش کا اظہار کرتا ہے تو کسی عاشق کی معشوقہ اگرفربہ اندام ہو تو پھر وہ اسے دیکھ کر بے ساختہ گنگنا نے لگتا ہے:
تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا
زندگی دھوپ تم گھنا سایہ
ہم سمجھتے ہیں کہ دھوپ کھانا، غم کھانے سے زیادہ بہترہے، کیونکہ بظاہر لگتا ہے کہ ہم ، غم کو کھارہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ غم ہمیں کھاتا جاتاہے اور کچھ اس طرح کھا تا ہے کہ پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ ہم کچھ اور کھانے کے موقف میں نہیں ہوتے…یہ تو ہوئی غم کی بات ،جبکہ دھوپ93 ملین میل کا سفرطے کر کے ہماری خاطر زمین پر آتی ہے ،دھوپ انسانی صحت کے لیے غذا بھی ہے اور شفا بھی ہیاور ہم ہیں کہ اس سے بچنا چاہتے ہیں۔ سائنسدان تو دھوپ کے اتنے زیادہ فوائد گنواتے ہیں کہ دل چاہتا ہے ہم دھوپ کے سوا کچھ اور نہ کھائیں۔دھوپ کے فوائد کیا ہیں اس ضمن میں آپ بس اتنا جان لیں کہ دھوپ کھانے سے نہ صرف بلند فشار خون کو اعتدال پر رکھا جاسکتا ہے بلکہ دل کے دورے اور فالج کے خطرے سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ دھوپ کی تھراپی کے بعد شدید دمہ کے شکارمریض آسانی سے سانس لے سکتے ہیں۔مناسب دھوپ، ہائی بلڈ پریشر کے شکار مریضوں کا بلڈ پریشر اعتدال پر رکھتی ہے،جلد کو سیاہ تر ہونے سے روکتی ہے.،دھوپ جگر کو خطرناک زہریلے اثرات سے صاف کرتی ہے،دھوپ موٹاپا کے شکار مریض کا وزن کم کر تی ہے،ہڈیوں کو مضبوط اور عضلاتی کمزوری دور کرتی ہے ،دھوپ جسم کے اندر وٹامن D کی پیداوار کو تیز کرتی ہے،سورج کی روشنی (مائکوبیکٹیریم) تپ دق کے جراثیم کو مار دیتی ہے۔ دھوپ گوری چمڑی کو کالی کردیتی ہے تو کالی زلفوں کو سفید کرکے رکھ دیتی ہے ، اس لیے اکثرلوگ کہتے نظر آتے ہیں ’’ میں نے اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے ہیں !‘‘لیکن اب غذائیت کی کمی کی بدولت بچوں کے بال چھاؤں میں بھی سفید ہونے لگے ہیں۔
سائنسداں کہتے ہیں کہ سانولی رنگت کے حامل خواتین و حضرات اگر وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں تو انہیں روزانہ 15 سے 20 منٹ تک دھوپ میں بیٹھنا چاہئے جبکہ گوری رنگت کے حامل خواتین و حضرات کو 20 سے 25 منٹ تک دھوپ کھانی چاہیے۔ گوری رنگت والوں کو، سانولی رنگت والوں سے زیادہ دھوپ غالباًاس لیے کھانا چاہیے تاکہ ان کی رنگت بھی سانولی ہوجائے اور گورے اور کالے کا جھگڑاہی ختم ہوکر رہ جائے!
چھاؤں سے زیادہ فوائد یقینادھوپ میں ہیں ، لیکن فوائد کا مطلب ہرگزہرگزیہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم Drink cricket, eat cricket, sleep cricketکی طرز پر دھوپ کھائیں، پئیں اور دھوپ ہی میں سوئیں۔ اگر ہم بے روک ٹوک دھوپ میں نکل جائیں تو پھر لوگ ہمیں یقینا ’’ نکلا ہوا‘‘ مشہور کردیں گے۔البتہ ہم جب جب مزدوروں کو دیکھتے ہیں توان کی ہمت اور جرأت پر رشک کرنے لگتے ہیں۔ وہ دن بھر نہ صرف خود دھوپ کھاتے رہتے ہیں بلکہ اپنے شیر خوار بچوں کو تک دودھ پلانے کی بجائے دھوپ کھلاتے ہیں، اس کے باوجود وہ بیمار نہیں پڑتے بلکہ ہم سے زیادہ تندرست و توانا ہوتے ہیں…ایسے میں ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھے رہنے والے ہم جیسوں کو دھوپ اورسائے کا فرق بھلا کیسے محسوس ہوگا۔
دھوپ ہے کیا اور سایہ کیا ہے، اب معلوم ہوا
یہ سب کھیل تماشا کیا ہے ،اب معلوم ہوا
صحرا صحرا پیاسے بھٹکے، ساری عمر جلے
بادل کا ایک ٹکڑا کیا ہے، اب معلوم ہوا
ہم آج دھوپ کھانا تو چھوڑئیے اسے چکھنا تک گوارانہیں کرتے کیونکہ ہم فلیٹ نما جیل میںقید و بند کی ایسی زندگی گزار رہے ہیں کہ جہاں دھوپ کا نام و نشان تک نہیں ہوتا….دوسری جانب دنیا بھر میں دھوپ سے مختلف کام لئے جارہے ہیں لیکن افریقہ کے بیشتر اور ایشیاء کے چند ممالک میں شمسی چولہوں سے کھانا پکانے کا بھی کام لیا جارہا ہے۔ایک اندازے کے مطابق شمسی چولہے کے استعمال سے دنیا کے تین ارب غریب لوگ باآسانی کھانا پکا سکیں گے جس سے نہ صرف ان کے اخراجات میں نمایاں کمی آجائے گی بلکہ اس منفرد طریقے کی مدد سے فضاء میں بڑھتی ہوئی زہریلی گیسوں کے اخراج میں بھی کمی واقع ہوگی۔ کبھی کبھی تو گرما کی چلچلاتی دھوپ کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے پانی میں شکر ، پتی اور دودھ ڈال کراگر بیٹھ جائیں تو کچھ ہی دیر میں وہ چائے میں تبدیل ہوجائے گی۔
یوں تو دھوپ کے بے شمار فوائد ہیں لیکن چمن بیگ کا کہنا ہے کہ دھوپ سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہم عیدالاضحی کے موقع پر کبابوں کو پہلے دھوپ کھلاتے ہیں اور پھر خودکباب کھاجاتے ہیں۔ وہ کسی مفکر کی طرح کہتے ہیں ذرا سوچیے اگر دھوپ نہ ہوتی تو پھر کباب کیسے خشک ہوتے اور ہمارے پیٹ کیسے تر ہوتے؟ بیچارے چمن آج بھی پسینہ خشک کرنا ہو تو چلچلاتی دھوپ میں جا کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ چلچلاتی دھوپ سے بچاؤکے لیے چھتری کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے ،لہٰذاچمن بیگ چھتریوں کی دکان سے چھتری خرید کر دکاندار سے پوچھ بیٹھے:
بھائی صاحب! بتائیے اس چھتری کو کیسے طویل عرصے تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے؟
دکاندار نے فوری جواب دیا: اسے دھوپ اور بارش سے بچائیے ،یہ زندگی بھر آپ کا ساتھ دے گی۔
آج ہم چھاؤں میں رہ کر بھی پل پل کبھی حالات کی دھوپ میں تو کبھی فریب کی دھوپ میں جھلستے رہتے ہیں۔اگر ہم وفا کی چھاؤں کی تلاش میں نکلیں تو ہمیں جفا کی دھوپ ہی ملا کرتی ہے، چنانچہ کسی شاعرنے کیا خوب کہا ہے :
جل جاؤ خاموشی سے کڑی دھوپ میں لیکن
اپنوں سے کبھی سایۂ دیوار نہ مانگو
کبھی دیکھ دھوپ میں کھڑے تنہا شجر کو
ایسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے
ہمارے ہاں دھوپ سے متعلق یہ مشہور ہے کہ دھوپ میں نکلنے سے رنگ کالا پڑ جاتا ہے ، چنانچہ ہندوستانی معشوقہ سے اس کا معشوق کہتا ہے ’’ دھوپ میں نکلا نہ کرو، روپ کی رانی، گورا رنگ کالا نہ پڑ جائے ‘‘ جب کہ مغربی ممالک میں دھوپ کو روپ نکھارنے کاسروپ سمجھا جاتا ہے۔ہم جسے دھوپ کھانا کہتے ہیں ،اسے مغربی ممالک میں sun bathکہا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میںسن باتھ کے نام پر خواتین ساحل کے کنارے ایسے لیٹ جاتی ہیںکہ سمندر کا پانی تک، پانی پانی ہوجاتا ہے۔ ایسا کھلم کھلا سورج کی شعاعوں کا غسل بے حیائی کے سوا بھلا اور کیا ہے ؟آپ ہی بتائیں کہ حمام کے بغیر نہانے کا تصور کیسا؟ اب یہ الگ بات ہے کہ کرپشن کے حمام میںسن باتھ کرنے والوں کی طرح سبھی ننگے ہوتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب حمام میں صرف’’ حمام‘‘ صابن ہی نظر آتا تھا ، آج یہ عالم ہے کہ کونسے صابن سے نہایا جائے؟ یہ سوچ سوچ کر بیچارے احتیاط علی محتاط ہفتوں نہیں نہاتے۔ آج کل کچھ حضرات اس قدر کاہل ہوچکے ہیں کہ ان سے کھڑے ہوکر نہایا بھی نہیں جاتا ،چنانچہ باتھ روم میں داخل ہوتے ہی لیٹ جاتے ہیں، جی ہاں! ہمارا اشارہ باتھنگ ٹب کی سمت ہے۔ افسوس ! انہیں اس بات کا قطعی احساس نہیں ہوتا کہ کوئی کب لیٹے لیٹے نہاتا ہے۔ویسے آدمی تو مختلف عنوانات کے تحت پیدائش سے لے کر مرنے تک بلکہ مرنے کے بعد بھی نہاتا ہے۔ مرنے کے بعدچونکہ کوئی بھی نہانے کے موقف میں نہیں ہوتا، اس لیے اْسے نہلانا پڑتا ہے ، جسے آخری غسل کہتے ہیں۔اس غسل کے بعد دوست احباب اور رشتے دار اُسے ہاتھوں ہاتھ ایسے اٹھا لیتے ہیں جیسے کوئی کارہائے نمایاں انجام دینے پر کرکٹ کے میدان میں اس کے ساتھی اسے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں۔جو لوگ جاتے جاتے ، آجاتے ہیں ، یعنی سخت علیل ہونے کے باوجود دنیا نہیں چھوڑتے، انہیں بھی نہانا پڑتا ہے اور جو نہانے کے موقف میں نہیں ہوتے ،انہیں نہلایا جاتا ہے ،جسے ’’ غسل صحت‘‘ کہتے ہیں۔
نہانے کے بعد ’’میں نہا چکا ہوں‘‘ کہنا ہی کافی ہے لیکن گھوڑے خاں اکثر کہتے ہیں ’’ میں نے آج پانی نہایا ہے‘‘ جیسے دیگر حضرات دودھ یا دیگر سے نہاتے ہیں۔ البتہ ہم نے بزرگوں کو کہتے سنا ہے ’’دودھوں نہاؤ ، پوتوں پھلو ‘‘مگر آج تک کسی کو ہم نے دودھ سے نہاتے نہیں دیکھا!
خیر…بات دھوپ کی ہورہی تھی ،دنیا کا ہر جاندار دھوپ کھاتا ہے اور جو دھوپ نہ کھانے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ بھی دھوپ کھاتے ہیں۔ آدمی جسمانی طورپر نہایت کمزور واقع ہوا ہے، وہ نہ تو روپ کی مار جھیل سکتا ہے اور نہ ہی دھوپ کی۔دھوپ کی مار کو sunstrokeکہتے ہیں اور جن کے بے حس لڑکے والدین کو بے بسی کی دھوپ میں لاکرکھڑے کردیتے ہیں ، اسے بھی ’’سن اسٹروک‘‘ کہہ سکتے ہیں لیکن ان دونوں سن اسٹروکس میںمعمولی سافرق یہ ہے کہ دھوپ کی مار کوsunstrokeکہتے ہیں تو بیٹے کی نازیبا حرکت کو sonstroke کہہ سکتے ہیں۔جیب میں پیاز کی ڈلی رکھ کر تو sunstrokeسے پھر بھی محفوظ رہا جاسکتا ہے لیکن ایسی کوئی پیاز کی ڈلی نہیں جسے جیب میں رکھ کر والدین sonstrokeسے محفوظ رہ سکیں،لیکن ایسے نا خلف لڑکوں کو یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ وہ گناہوں کی دھوپ میں ہمیشہ جھلستے رہیں گے اور بار بار ایسے ’’سن اسٹروکس ‘‘کے شکارہوتے رہیں گے کہ جن کا کوئی علاج نہیں…
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w