مضامین

آخری میدانِ کار زارحق و باطل۔۔یروشلم

رشید پروین

تمام مسلم ممالک نے اب عملی طور پر مظلوم فلسطینیوں کو بے یارو مدد گا چھوڑ دیا ہے اور ان پر جو ظلم و جبر اور قہر سامانیاں لمحہ بہ لمحہ ڈھائی جارہی ہیں، ان سے کوئی بھی مسلم ملک اور مسلماں بے بہرہ نہیں، لیکن کسی بھی نام نہاد مسلم ملک میں یہ قوت اور ہمت ہی نہیں کہ وہ اس ظلم و ستم کے خلاف آواز بھی اٹھا سکے، اور اگر کسی نے آواز اٹھانے کی ہمت دکھائی تو اس ملک ہی کو دہشت گرد قرار دے کر اس پر پابندیاں عاید کی جاتی ہیں، کیا یہ دور اپنی اصل اور عملی شکل میں دجالی دور نہیں ؟حالات اور مسلم ممالک اب باضابطہ اس مقام پر پہنچے ہیں جہاں وہ اسرا ئیلی آسمانوں میں اپنی پناہ گاہیں تلاش کر رہے ہیں،انہیں لگتا ہے یا ان کا گمان غالب ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ان کی شہنشائیتوں کو دوام بخش سکتے ہیں اور ان کی حفاظت اور نگہبانی کی ضمانت فراہم کر سکتے ہیں۔ایران، حماس، اخوان المسلمون اور دوسری اسلامی تحریکیں انہیں اپنی بادشاہتوں کے لیے شدید خطرات، ہیبتناک دشمن اور امریکی اور اسرائیلی یہودی انہیں اپنے دوست اور اپنے تخت و تاج کے پاسباں نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان لوگوں نے ا سلامی رنگ کے بجائے آہستہ آہستہ تہذیب و تمدن، ثقافت اورمعاشرے کے مختلف رنگوں میں بھی اسی صیہونی رنگ کو پسند کیا ہے اور اسی رنگ میں اپنے آپ کو رنگنے کا شعوری فیصلہ کیا ہے، افسوس کہ یہ لوگ کبھی اپنے نبی برحقﷺ اور قرآن کریم میں واضح طور قوم یہود سے متعلق پیش گوئیوں اور ماضی و حال کے عمل کو نہ پہچانتے ہیں اور نہ اپنی بے پناہ”دجالی“ مصروفیات کی وجہ سے ان پر غور کرنے کی فرصت پارہے ہیں اس کا راز کیا ہے کہ، اب نوشتہ دیوار پر لکھا ہوا سارا مضمون صاف اور واضح ہوتے ہوئے بھی یہ لوگ نہیں پڑھتے،”اور جب ہم چاہتے ہیں تو ان کے قلوب اور دل ودماغ پر مہر لگاتے ہیں“( القرآن) دوسری بات یہ کہ، اس سوال کا جواب تب تک سمجھ میں نہیں آئے گا جب تک یروشلم،، قرآن کی ”بستی“کا راز ہم سمجھ نہیں لیتے۔ ”جس بستی کے لوگوں کو ہم نے ہلاک کیا، ان پر ہم نے حرام کردیا کہ وہ وہاں نہیں جاسکیں گے۔حتیٰ کہ یاجوج ماجوج کھل جائیں اور وہ تمام بلندیوں سے اترتے نظر آئیں گے“ (سورۃ الانبیا ء۹۵،۶) واضح مطلب ہے کہ یاجوج اور ماجوج کی اعانت اور تعاون کے بغیر یہودی یروشلم میں داخل نہیں ہوسکتے۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے ان نافرمانیوں اور خباثتوں کی بنا پر جو اس قوم سے ڈھائی ہزار برس کے دوران پہلے سرزد ہوئی ہیں، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہودیوں کو آخری زمانے میں ایک بار یروشلم یاجوج ماجوج کی امداد اور تعاون سے داخل ہونا ہے اور وہ داخل ہوچکے ہیں،تو یہ سوال آسان ہوجاتا ہے کہ یہ یاجوج ماجوج کون ہیں، اب اس میں کوئی دو رائیں نہیں ہونی چاہئیں کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ برطانیہ نے اسرائیلی بچے کو جنم دے کر اس کی پرورش شروع کی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یاجوج ماجوج یہی لوگ ہیں اور دجال کی آماجگاہ بھی ایک مختصر مدت تک یہی رہی اور یہ یاجوج ماجوج دنیا کے مختلف ممالک سے فلسطین میں جمع ہورہے ہیں (دجل کا مطلب ہی فتنہ و فساد ہوتا ہے) ایک معین مدت کے بعد جب برطانیہ کے سپر پاور ہونے کا تاج چھن گیا اور اس کی جگہ امریکہ نے لی تو اسرائیل کی سر پرستی بھی امریکی پاور، اور”دجل“نے قبول کی اور اب تک اس طرح یہ ذمہ داری نبھا رہا کہ اپنے مفادات اور اپنی شبیہہ سے بھی اوپر اسرائیل۔ امریکی ترجیحات میں ہے، آپ اس ساری کہانی کو ۱۹۴۸،جب سے اسرائیل کا وجود نقشے پر ظاہر ہوا ہے، یو این او قرادادوں سے جان سکتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکہ اسرائیل کو اتنی امداد ہر سال فراہم کرتا ہے جتنی کہ وہ سارے ممالک کو فراہم کرتا ہے اور پھر پچھلے دروازوں سے اسرائیل کیا حاصل کرتا ہے، یہ کبھی معلوم نہیں پڑتا، یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اسرائیلی پروٹوکولز کے مطابق آخری دور میں جب اسرائیل اپنی ساری دنیا پر حکمرانی کا اعلان کرے گا تو امریکہ معاشی طور پر اسرائیلی در کا بھکاری ہوگا، امریکہ سے نیو کلیر فارمولے اسرائیلیوں کے ہاتھ کیسے لگے یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ بہر حال اسرائیل کو آخری دور میں (دجالی) ساری دنیا کی حکمرانی حاصل ہوگی، گریٹر اسرائیل کے خواب کی تعبیر بھی ایک مختصر سی مدت کے لئے انہیں نظر آئے گی جس کی معاونت یہی ہے کہ عربوں کی بصیرت اور بصارت پر مہر لگ چکی ہے اور وہ غیر دانستہ طور اس اسٹیج کو سیٹ کرنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں جہاں ایک جعلی مسیح (دجال) کو آنا ہے اور کچھ دنوں یا مہینوں یا برسوں تک حکمرانی کرنی ہے (احادیث کے الفاظ چالیس دن کے ہیں اور پہلا دن ایک برس کے برابر، دوسرا ایک مہینے اور تیسرا ایک ہفتے باقی ایام معمول کے مطابق) اور یہ دجال جعلی مسیح تب تک ظاہر نہیں ہوگا جب تک اسرائیل سپر پاور کی حیثیت سے امریکہ اور یوروپ پر سبقت نہیں لے جاتا، اس کے لیے لازمی طور پر تمام عرب ممالک کا بھی اس دجالی ریاست کے ساتھ تعاون کوئی محیر ا لعقول بات نہیں۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے یروشلم کو اس لیے بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے کہ کفر اور اسلام کا حتمی میدان کارزار بھی یہیں گرم ہوگا اور جس کار زار میں سو میں سے نناوے قتل ہوں گے، تو یہ نناوے کیا صرف یہودی ہوں گے؟، نہیں۔ بلکہ یہ وہ لوگ بھی ہوں گے جنہوں نے اہل یہود کی بصیرت، ان کی طاقت اور ان کی پناہ پر بھروسہ کیا ہوگا۔ دوئم یہ کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کو شدید امتحانات سے گزار کر تمام بنی نوع انسانوں کا دینی اور دنیاوی سربراہ یعنی امام مقرر کیا گیا تھا۔ اسی دین ابرہیمی کو حتمی، آخری اور دائمی دین قرار دیا جس کی اصل پیروی رسول پاک ﷺ نے کی، جب یہ ثابت ہوا کہ کہ دین براہیمی ہی اصل اور آخری ہے تو باقی سارے دین خود بخود باطل ہوجاتے ہیں، اس لیے اس کا تقا ضاہے کہ یروشلم صرف اور صرف دین ابراہیمی کے لیے ہی خالص رہے گا نہ کہ صیہونیت کے لیے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ تاریخ اسوقت تک ختم نہیں ہوسکتی یا قیامت برپا نہیں ہوسکتی جب تک نہ۔ حق۔ ارض مقدس پر غالب آجائے خدا کا خوف، انسان دوستی، انصاف پسندی،زہد اور تقویٰ کے ساتھ ساتھ انسان اللہ کے سامنے سربسجود ہوکر اللہ کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم نہ کردے۔ کسی اور ازم یا فلاسفی پر اٹھائی گئی سودی اور خدا بیزار حکومت قائم نہیں رہے گی اور اسی لیے تو حضرت عیسیٰ کو بلاشک اترنا ہے اور یروشلم ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے سچ کی تصدیق ہونی ہے اور یہی منشا الٰہی ہے۔ حضرت ابو ہریرؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ”قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عنقریب ابن مریم تمہارے درمیان حاکم عادل بن کے اتریں گے، وہ صلیب کو توڈ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ کا خاتمہ کردیں گے، پھر دولت کی فراوانی ہوگی اور کوئی خیرات لینے والا نہیں ہو گا“حضرت عیسیٰ کو کن لوگوں نے صلیب دی؟ کن لوگوں نے جھٹلایا تھا؟ جب یہود نے حضرت عیسیٰ کو جھٹلایا، انہیں مسیح تسلیم کرنے سے انکار کیا اور پھر اس پر گھمنڈ کیا کہ انہوں نے انھیں قتل کیا ہے تو اس کے باوجود آسمانی صحائف میں تبدیلی کرکے ا ہل یہود کو اپنے علماء نے ا س فریب میں مبتلا کردیا ہے کہ عیسیٰ ابن مریم آئیں گے جو ان کے لیے ایک دائمی اور مستقل حکومت قائم کریں گے۔ حضرت عیسیٰ ضرور آئیں گے لیکن کیا وہ، سودی حکومت کی تشکیل کے لیے ہی آئیں گے جو شراب، زنا، اور تمام خباثتوں کو حلال قرار دے چکی ہو۔ یہ کیسے پیغمبر ہوسکتے ہیں؟یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پیغمبر داؤد علیہ السلام کی ریاست اور حکومت نئے سرے سے، سیکولر اور انسانی قوانین پر استوار ہوکر ماڈل بن جائے، جب کہ داؤدی سلطنت کے خدوخال قرآن اور دوسرے صحائف میں واضح کردیے گئے ہیں، در اصل یہی وہ فریب اور سراب ہے جس کے پیچھے اہل یہود دڑ رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ عیسیٰ ایسی ہی خدا بیزار اور شرک و کفر پر مبنی مملکت گریٹر اسرائیل کی تشکیل کریں گے جو اسرائیلیوں نے اسوقت فلسطین میں قائم کی ہے۔ لازمی طور پر اہل یہود کو یہ یقین رہا ہے کہ یہودی اپنی جلاوطنی سے ارض مقدس لوٹ آئیں گے۔ اسرائیل کی ریاست بحال ہوجائے گی،ہیکل تعمیر کیا جائے گا ور اسرائیل دنیا کی سپر پاور ہوکر ساری دنیا پر حکمران ہوگی اور یہ حکومت ان کے لئے دائمی ہوگی۔ یہ اہل یہود کا گماں ہے، لیکن احادیث مبارکہ اس معاملے میں صاف اور واضح تشریح کررہے ہیں، کہ یاجوج ماجوج کے تعاون سے یہودی یہاں لوٹ آئیں گے اور ابراہیمی دین کے بجائے صیہونیت قائم کریں گے جس کی مثال کئی بار تاریخوں میں موجود ہے کہ جب بھی یہ لوگ یہاں غالب آئے ہیں، انہوں نے تاریخ کے سب سے بڑے قتل عام رقم کیے ہیں، فتنہ و فساد پھیلایا ہے یہاں تک کہ صحن بیت المقدس میں بھی کسی مظلوم کو نہیں بخشا ہے، اس سر زمین کے اصل وارثوں پر ظلم و ستم کے پہا ڑ توڑ ے ہیں اور یہی ماضی میں ہوا ہے، اور یہی آج بھی ہورہا ہے، جب یروشلم کو حق اور باطل کی امتحان گاہ بننا پہلے ہی قرار دیا گیا ہے اور یروشلم کی تقدیر یہی لکھی جاچکی ہے،( معراج کی شب تمام ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء رسولوں اور برگذیدہ نبیوں کی امامت سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ نبی برحق ﷺ کا دین مبین ہی یہاں قائم ہوگا اور یہی دین ابراہیم کا دین اور مذہب بھی تھا) تو کیا یہ امتحان گاہ ان کے لیے نہیں جو اپنے آپ کو مسلم کہلاتے ہیں۔ کیا ان کا امتحان شہادت گاہ یروشلم میں نہیں ہوگا؟ صحراؤں کے باوجود اللہ نے تمام نعمتیں محض اپنے حبیب کے صدقے میں جن کو عطا کی ہیں، کیا ان کے ایمانوں کی آزمائش نہیں ہوگی؟ احادیث مبارکہ میں حتمی اور صاف بتایا گیا ہے کہ خراساں سے وہ لشکر نکلیں گے جنہیں کوئی زیر نہیں کر پائے گا، یہ اہل یہود اور ان کے معاونین کے آخری لمحات ہوں گے۔
٭٭٭

a3w
a3w