آسٹریلیا کو ہزاروں ورکرز کی ضرورت
پہلی بار آسٹریلیا میں مردم شماری کے دروان یہ سامنے آیا کہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی ایسی ہے جو بیرون ملک پیدا ہوئی یا ان کے والدین کسی اور ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔
کینبرا: آسٹریلیا دس سالوں میں پہلی بار تارکین وطن کے لیے مستقل سکونت پر عائد پابندیوں میں نرمی لا رہا ہے جس سے وہاں کام کرنے والوں کی کمی کو پورا کیا جائے گا۔
اس پابندی کے ہٹنے سے رواں مالی سال میں آسٹریلیا میں موجود ایک لاکھ پچانوے افراد کی تعداد میں پینتیس ہزار افراد کا اضافہ ہو گا۔
کورونا وائرس اور آسٹریلیا میں سخت سرحدی پالیسیوں کی وجہ سے بہت سے شعبوں میں اسٹاف کی کمی بڑھ چکی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ خالی آسامیوں کو بھرنے کے لیے چین، انڈیا اور برطانیہ سے ملازمین کی ضرورت ہے۔
خیال رہے کہ آسٹریلیا میں تارکین وطن میں ان ممالک کے سب سے زیادہ لوگ موجود ہیں۔ آسٹریلیا میں اس وقت چار لاکھ اسّی ہزار آسامیاں خالی ہیں مگر ساتھ ہی بے روزگار افراد کی شرح گذشتہ نصف صدی میں کم ترین سطح پر ہے۔
ایسے میں خالی آسامیوں کو پْر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مہمان نوازی، صحت کی دیکھ بھال، زراعت اور ہنر مند تجارت کی صنعتیں خاص طور پر زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔
رواں ہفتے کنبریا میں نیشنل جاب سمٹ میں بتایا گیا ہے کام کرنے والوں کی کمی نے ایر پورٹس پر افراتفری مچا رکھی ہے، درختوں پر لگے پھل خراب ہو رہے ہیں اور ہسپتالوں پر کام کا بہت دباؤ ہے۔
داخلہ امور کی وزیر کلیئر او نائل نے کہا کہ ہماری توجہ ہمیشہ سے نوکریوں پر رہی ہے‘ لیکن کورونا کی وبا کے اثرات بہت زیادہ تھے، اگر ہم ہر دوسرے امکان کو بھی ختم کر دیں تب بھی کم ازکم قلیل مدت میں کئی ہزار ورکرز کی کمی رہے گی۔
حکومت نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں ویزوں کے رکے ہوئے عمل کو مکمل کرنے کے لیے 36 ملین آسٹریلین ڈالر اضافی اسٹاف کے لیے مختص کرے گی۔
کورونا کی وبا کے دوران تارکین وطن کی کمی کے باوجود سنہ 2016 سے اب تک دس لاکھ سے زیادہ لوگ آسٹریلیا منقتل ہوئے ہیں۔
پہلی بار آسٹریلیا میں مردم شماری کے دروان یہ سامنے آیا کہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی ایسی ہے جو بیرون ملک پیدا ہوئی یا ان کے والدین کسی اور ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔