طنز و مزاحمضامین

آمد آمد ہے!!

نصرت فاطمہ

آمد کو جو تڑپاتے تھے، یکسر ہوئے غائب!!
کچھ بھی ہو، مزید اس سے غضب اور نہ ہوگا
مرزاغالب کے اس شعر سے کالم شروع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم پچھلے دنوں غائب رہے اور کچھ کچھ غائب دماغ بھی۔ اب ہم نہیں جانتے کہ اس "گمشدگی” کو آپ قارئین نے محسوس کیا بھی یا نہیں۔ (بس ایک گونہ خوش فہمی سی ہے) پچھلے سال آپ سے رابطہ ہوا تھا اور اب نئے سال کی آمد بھی ہوچکی۔ دعا ہے کہ اس نئے سال میں ہم سب کے رابطے بحال رہیں۔ پہلے رب سے اور پھر بندوں سے۔
رابطے کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ تعلق بن جاتا ہے۔ ہم تو رابطے میں ہی اس لیے رہتے ہیں کہ تعلق قائم رہے، کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ رشتوں اور تعلقات کی بقا کے لیے رابطہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ نظر انداز کرنے سے تو اپنے ہاتھوں سے لگائے ہوئے درخت بھی سوکھ جاتے ہیں۔ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ رابطے اور تعلق کے تعلق سے۔ تو آپ بھی جان لیجیے کہ رابطہ اور تعلق دو الگ چیزیں ہیں۔ مثال کے طور پر (کہیں کہیں) ماں باپ کے ساتھ، بہن بھائیوں کے ساتھ ہمارا کانٹیکٹ توہوتاہے مگر کنکشن نہیں ہوتا۔ تعلق دل کا دل سے ہوتا ہے۔ یہ ساتھ جڑ کر بیٹھنے سے، ایک ساتھ قہقہہ لگانے سے،ایک ہی لے میں رونے سے، ایک پلیٹ میں کھانے سے،وقت ایک ساتھ بتانے سے، ہاتھ ہر ہاتھ مارنے سے، گلے لگانے سے، کندھے سے کندھا جوڑنے سے بنتا ہے۔ اس میں روایتی حال چال نہیں بلکہ سب ٹھیک ہے کی تہ میں اترا جاتا ہے۔ آنکھوں میں دیکھا جاتا ہے، بدن کی بولی کو سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے دور کی سب سے بڑی وبا کانٹیکٹ (رابطہ) بناناہے۔ اب دو چار سو کی بجائے ہمارے فون میں ہزاروں افراد کے نمبر ہوتے ہیں۔ تاہم اس بھاگم دوڑی میں کنکشن (تعلق) قربان ہوگیا ہے۔
تعلق سے یاد آیا، قدرت نے ہر چیز کا تعلق یعنی کنکشن ایک دوسرے سے جوڑ رکھا ہے۔ اب یہ اور بات کہ ہم انسانوں نے فطرت کے خلاف جاکر بجائے انسانوں کے موبائل-فون سے کنکشن جوڑ لیا ہے اور اس موبائل-فون کی تو کیا تعریف کریں۔ ہم میں سے اکثر چغد لوگوں کے ہاتھ میں اسمارٹ فون موجود ہے (معذرت کے ساتھ) اور یہ کئی اعتبار سے ہم سے زیادہ سیانا ہے کہ اس نے بہت کچھ کھایا پیا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر اس نے ہاتھ کی گھڑی کھائی، ٹارچ لائٹ کھا گیا،یہ خط کتابت کھا گیا، یہ کتاب کھا گیا، یہ ریڈیو کھا گیا،ٹیپ ریکارڈ کھا گیا، کیمرے کو کھا گیا، کیلکولیٹر کو نگل گیا، یہ پڑوس کی دوستی، میل محبت، ہماراسکون، تعلقات، یاد داشت، نیند، توجہ اور ارتکاز تک ڈکارگیا۔ کمبخت اتنا سب کچھ کھا کر "اسمارٹ فون”بنا ہے۔ بدلتی دنیا کا ایسا اثر ہونے لگا ہے کہ انسان پاگل اور فون اسمارٹ ہوگیا ہے۔ جب تک فون تار سے جڑا تھا،انسان آزاد تھا، جب فون آزاد ہو گیا، انسان فون سے بندھ گیا، دیکھا جائے تو انگلیاں ہی آج کل رشتے نبھارہی ہیں، زبان سے نبھانے کا وقت کہاں ہے؟
اگر ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو سب ٹچ میں بزی ہیں، پرٹچ میں کوئی نہیں ہے۔
نوبل انعام یافتہ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے اس حوالے سے شاندارمثال دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شروع شروع میں جب عیسائی مشنری کے لوگ افریقہ میں آئے تو ان کے ہاتھ میں بائبل تھی اور ہمارے ہاتھوں میں افریقہ کی لاکھوں ایکڑ زمین تھی۔
پادریوں نے کہا ‘آؤ آنکھیں بند کریں اور خداوند کی عبادت کریں۔‘جب ہماری آنکھیں کھلیں تو پتہ چلا کہ بائبل ہمارے ہاتھ میں ہے اور ہماری زمینیں پادریوں کے قبضے میں جاچکی ہیں۔
جب فیس بک اور واٹس ایپ کے جن کا نزول ہوا تو اس وقت ہمارے پاس وقت اور آزادی تھی جب کہ ان کے پاس انٹرنیٹ اور انفارمیشن تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ سب کچھ مفت ہے۔ ہم نے آنکھیں بند کیں اور جب کھلیں تو معلوم ہوا کہ ہمارا وقت اور آزادی دونوں چھن چکے ہیں۔ کچھ یہی حال ہمارا بھی ہے.. نئی نسل کا تو کیا پرانی نسل بھی واٹس ایپ میں مصروف نظر آتی ہے۔ خیر اب اتنے عرصے بعد ملاقات ہوئی ہے تو مزید کیا شکایت کریں۔ ایک واقعہ سناتے ہیں کنکشن کے تعلق سے۔
ایک آدمی سرِ راہ اپنے ڈاکٹر سے ملا تو حیرت سے پوچھا؛ جناب آپ اپنا کلینک بند کر کے چپکے سے کہیں چلے گئے اور کسی کو بتایا تک بھی نہیں۔
ایسا کیوں؟ ڈاکٹر نے حیرت سے کہا: نہیں تو!! میرا کلینک تو ابھی بھی وہیں پر ہی ہے۔ تمہیں ایسا کس نے بتایا؟اس آدمی نے کہا۔ آپ کے کلینک کے نیچے چاول کی دکان والے نے اور اس کے برابر بیٹھے قصاب نے۔
ڈاکٹر صاحب سیدھا اس چاول اور قصاب کی دکان پرگئے اور پوچھا،
بھائی، تم لوگوں اور میرے بیچ میں ایسی کون سی بات ہوگئی ہے کہ تم میرے مریضوں کو اوپر میرے کلینک میں جانے دینے کی بجائے بتاتے ہو کہ میں یہاں سے کلینک بند کر کے کہیں اور چلا گیا ہوں۔۔ ایسا کیوں کر رہے ہو؟
ان دونوں نے کہا: ڈاکٹر صاحب،
آپ بھی تو جو بھی مریض آتا ہے اسے کہتے ہو کہ چاول نہ کھاؤ، بڑا گوشت نہ کھایا کرو ان سے الرجی ہوتی ہے۔اگر کام کرنا ہے تو مل کر کرتے ہیں، ورنہ دکان داری بند ہو گی تو سب کی ہوگی۔
کہنے کو تو یہ ایک لطیفہ ہے، لیکن حسبِ حال ہے کہ سب کا تعلق ایک دوسرے سے لازم ہے۔