زکریا سلطان۔ ریاض
یہ سمجھئے کہ آگ ماں ہے ، شعلہ اور چنگاری اس کے بچے ہیں۔آگ سے چنگاری پیدا ہوتی ہے اور پھر چنگاری سے آگ لگتی ہے، یہ قدرت کا نظام ہے مگر دیکھا یہ جائے گا کہ آگ کس نے اور کیوں لگائی ہے، کباب بھوننے کے لیے لگائی گئی ہے یا کسی کا دل اور آشیاں جلاکر اسے کباب بنانے کے لیے، اسی کے مطابق اس سے یعنی آگ لگانے والے سے نمٹا بھی جائے گا۔کہتے ہیں کہ آگ پانی اور آندھی (ہوا) سے مقابلہ کرنا بہت مشکل ہے یہ بہت طاقتور ہوتے ہیں۔آگ دو قسم کی ہوتی ہے ایک جس سے دھواں نکلتا ہے اور دوسری بغیر دھوئیں والی جس سے دل جلتا ہے۔اس لیے لکڑی جلائیے، کوئلہ جلائیے، ایندھن جلائیے، سگریٹ گولکنڈہ چارمینار فور اسکویئر پانچ سو پچپن جلائیے، بیڑی جلائیے مگر کسی کا دل مت جلائیے۔ دل جلے (مظلوم) کی فریاد فرش سے عرش تک برق رفتاری سے بن داس جاتی ہے۔
بعض لوگ چرکے دینے میں ماہر ہوتے ہیں یعنی دوسروں کا دل جلانے سے ان کے دل کو ٹھنڈک ملتی ہے اوران کا دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک صاحب اپنے ایک حاسد دوست کے سامنے خوشی خوشی نئی موٹر سائیکل لے کر آئے ، وہ دوست انہیں ہمیشہ بسوں میں اور سائیکل پر پھرنے کا طعنہ دیا کرتا تھا، آج موٹرسائیکل پر دیکھ کر اس نے کہا ارے یار کب تک تم لوگ دوپہیوں (ٹُو دیلر) پر گھومتے رہوگے کبھی موٹر کار بھی چلایا کرو!!! یہ سن کر دوست پر سکتہ طاری ہوگیا اور وہ ہکا بکا رہ گیا۔
ایک صاحب اپنے اعلیٰ تعلیمیافتہ بیٹے کو ایک مالدار عزیز سے ملانے کے لیے ان کے عالیشان گھر لے گئے، تعارف ہوا، رشتہ دار نے پوچھا کیا کام کرتے ہو؟ نوجوان نے کہا یو اے ای میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں منیجر ہوں ، رشتہ دار نے بغیر کسی حوصلہ افزائی اور خوشی کے اظہار کے کہا ہاں وہاں تو سب ہی منیجر ہوتے ہیں!!! یہ سن کر فطری طور پر نوجوان کو چرکا اور اس کے والد کو تڑکا لگا اور رشتہ دار کو شایداپنی متکبرانہ روش کے سبب خوشی محسوس ہوئی!!! ایک صاحب نے اپنی زندگی بھرکی محنت اور خون پسینہ کی کمائی سے ذاتی گھر تعمیر کروایااور اسی خوشی میں گھر بھراﺅنی کی تقریب کی، مہمانوں کی مزے دار کھانوں سے ضیافت کی، تقریب میں ان کی بیگم سے ایک مہمان خاتون نے کہا ہاں چھوٹا سا اچھا خوبصورت گھربنوایا ہے آپ نے!!! لفظ ” چھوٹا سا ” خاتونِ خانہ کے دل پر چنگاری بن کر گرا اور پھر ان کا دل اس جملے سے جل کر راکھ ہوگیا۔ اس لیے کہتے ہیں پہلے تولو پھر بولو۔تلوار کا زخم سوکھ جاتا ہے مگر زبان کا زخم آسانی سے مندمل نہیں ہوتا ۔ بی کیرفُل۔
بعض لوگ غیر ارادی طور پربے خیالی میں بھی دوسروں کو چرکے دیے دیتے ہیں حالانکہ ایسا کرنے کا ان کا قطعی ارادہ نہیں ہوتا، مگر لاشعوری پر مد مقابل ہلکا سا جھلس جاتا ہے، ایک نوجوان کو خلیجی ملک میںکفیل اور کفالت کا کوئی مسئلہ تھا، اس کے والد نے ایک کرم فرما کا نام اور نمبر ہندوستان سے بیٹے کو بھیجا اور کہا کہ ان سے بات کرو اور مدد لوان کے اچھے اثر و رسوخ ہیں۔نوجوان نے فون کرکے ساری تفصیل بتائی، انہوں نے کہا ٹھیک ہے تم اپنا پاسپورٹ اور دستاویزات شام میں میرے گھر پر لاکر دو ، نکمانوجوان بولا ” میں لاکے دوں؟ ” شاید وہ چاہتا تھا کہ مدد کرنے والے صاحب خود آکر اس کے گھر سے لے جائیں!!! انہوں نے کہا ہاں، اور دل ہی دل میں سوچنے لگے یہ بے چارہ نادان ہے یا ایکسٹرا سیانا۔ ایک ،خاتون کے ہاں ولادت ہوئی تو سارے خاندان کی خواتین بچے کو دیکھنے اور مبارکباد دینے کے لیے اپنے اپنے تحفوں کے ساتھ اس کے گھر پہنچیں، ماں بیٹے کو پیار کیااور دعاﺅں سے نوازا۔ ایک رشتہ دار خاتون کے منہ سے نکلا ”اللہ کتنا کیوٹ ہے جی، چھوٹا منکی دِکھ را“
اس طرح اس نے پھلجھڑی چھوڑدی ، کچھ لوگ منہ تکتے رہ گئے اور کچھ حیرت کے ساتھ مسکرانے لگے۔ پھلجھڑی بظاہر خوشنما اور اچھی معلوم ہوتی ہے ، اس سے روشنی بھی پھیلتی ہے مگر ہوتی تو چنگاریوں کا گچھا اور آگ ہی ہے۔ کچھ لوگ پھلجھڑی ہوتے ہیں جو جلتی پرتیل ڈالنے کا کام کرتے ہیں یہ کام ہمارے ملک میں اور بین الاقوامی سیاست میں خوب زوروں پر چلتاہے، اس خصوصی کام کے لیے ماہرین کو مامور کیاگیا ہے جو بخوبی اپنی ”ذمہ داریاں“ انجام دیتے رہتے ہیں، اللہ بچائے ایسے لوگوں سے جو چنگاری لگانے میں ماہر ہوتے ہیں۔ بقول پیرزادہ قاسم:
شہر طلب کرے اگر تم سے علاج تیرگی ٭ صاحب اختیار ہو آگ لگادیا کرو
یوں تو چنگاریاں عام طور پر بہت بڑی نہیں ہوتیں، لیکن آگ بڑی لگاتی ہیں۔ چلتے چلتے قارئین کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ بعض چنگاریاں بے انتہا بڑی ہوتی ہیں، آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اُن میں سے ہر چنگاری کا سائز ایک محل کے برابرہوگا جیسے وہ زرد رنگ کے اونٹ ہوں ، اور یہ چنگاریاں جہنم کی آگ سے پیدا ہوں گی(القرآن، سورہ المرسلات) جو اللہ کے نافرمان سیاہ کاروں، گناہ گاروں اور مجرموں کے لیے ہوں گی بالخصوص وہ جو بے قصور اور معصوم قسم کے لوگوں پر ظلم و ستم ڈھایا کرتے ہیں ۔وہ مجرم بھی یقینا ان چنگاریوں کی آغوش میں ہوں گے جو دنیا میں بے بسوں، مجبوروں کے گھروںکو اوران کی املاک کو آگ لگایا کرتے تھے۔ اللہ ہم سب کو ظلم کرنے سے محفوظ رکھے تاکہ ہم جہنم کی آگ اس کے شعلوں اور چنگاریوں سے مامون رہیں۔