چراغ حسن حسرت
زندگی میں بڑے بڑے ہنگامے دیکھے ہیں۔ اخبار اور رسالے نکالے ہیں اور ادبی بحثوں میں حصہ لیا ہے۔ تقریریں کیں، کتابیں لکھیں، موسیقی کی کانفرنسوں میں شریک ہوئے۔ بڑے بڑے گویوں کو سنا۔ اب جی چاہتا ہے کہ خدا توفیق دے تو جیتے جی ایک مشاعرہ کرا ڈالیں۔ لیکن صاحب بندہ ان مشاعروں کا قائل نہیں کہ ادھر ادھر سے شاعر جمع کیے اور دو ڈھائی گھنٹے ہاو¿ ہو کر لی یعنی کاتا اور لے دوڑے۔ اس قسم کے چھوٹے چھوٹے مشاعرے روز ہوتے رہتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو دن ڈھلے شہر میں نکل جائیے۔ کہیں نہ کہیں مشاعرہ ضرور ہو رہا ہوگا۔ مشاعرہ ہو تو اس دھوم کا ہو کہ مدتوں سند رہے اور عند الضرورت کام آئے۔ یعنی لوگ اس کا ذکر اس طرح کریں کہ جس طرح کوئٹے اور بہار کے زلزلوں کا ذکر کرتے ہیں، کسی واقعہ کی تاریخ بتانا ہو تو اس کا حساب اس مشاعرے کی تاریخ سے لگایا جائے۔ مثلاً آپ صاحب زادے کی عمر پوچھیں تو جواب ملے کہ بڑے مشاعرے سے ٹھیک دومہینے بعد پیدا ہوا تھا۔ اس قسم کا مشاعرہ ہو تو ایک بات بھی ہے اور مشاعرہ کرنا کیا ضروری ہے۔
آج کل کے مشاعروں میں ایک قباحت ہے کہ ان میں شاعروں کو اپنے جی کے حوصلے نکالنے کا موقع نہیں ملتا۔ ایک تو طرح سرے سے مفقود اور دوسرے یہ شاعر کی مرضی پر موقوف ہے کہ چاہے غزل پڑھے چاہے نظم اور یہ بھی ضروری نہیں کہ غزل یا نظم نئی ہو۔ بعض شاعروں کا تو یہ حال ہے کہ ایک ہی نظم ساری کائنات ہے۔ ہر مشاعرے میں بڑی بے تکلفی سے وہی سنا دیتے ہیں اور انصاف کی بات تو یہ ہے کہ نظم مشاعرے کے ڈھب کی چیز ہی نہیں۔ کیونکہ نظم کی اچھائی برائی کا اندازہ اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک پوری سن نہ لی جائے۔ ہر شعر پرداد کا ہنگامہ برپا نہ ہو تو شاعر کو تسکین ہوتی ہے نہ سننے والوں کو لطف آتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ لوگ مشاعروں میں نظم کے مصرعوں اور شعروں پر داد دیتے ہیں لیکن یا تو صرف اس لیے کہ اکثر نظموں میں غزل کے انداز کے مصرعے اور شعر نکل آتے ہیں، جن کی وجہ سے محفل گرم ہو جاتی ہے۔ ورنہ میں یہ ماننے سے تو رہا کہ پوری نظم کو سن کے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں۔
غزل کو آپ جو چاہے کر لیجئے لیکن آپ کو اتنا ضرور ماننا پڑے گا کہ مشاعروں کی رونق اور ہماہمی غزل کے دم قدم سے ہے۔ صرف نظموں کی وجہ سے مشاعرے چمک سکتے تو مشاعرہ اردو سے مخصوص ہوکے نہ رہ جاتا۔ انگریز فرانسیسی جرمن اور روسی بھی مشاعرے کرتے۔ جاپان اور چین میں بھی شعر خوانی کی محفلیں منعقد ہوتیں۔ اس لیے میری سنیے تو مشاعرے کو نظم سے پاک رکھیے۔ ہاں ایک دو نظمیں ہوجائیں تو کوئی مضائقہ بھی نہیں۔ لیکن یہ نظمیں بھی مضمون کے لحاظ سے غزل کے قریب قریب ہوں ورنہ لوگ سنتے سنتے اکتا جائیں گے۔ مشاعرے میں اس قسم کی نظمیں کامیاب ہوتی ہیں جن میں ایک ہی خیال کو ہر پھر کے نئے طریقوں سے ادا کیا جائے۔
آپ نے بعض نظمیں دیکھی ہوں گی جن پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جو بات غزل کے ایک شعر میں کہی جا سکتی ہے وہی بات شاعر نے پوری نظم میں کہہ ڈالی ہے۔ نظم میں کئی بند ہیں لیکن ساری نظم کی جان ٹیپ ہے جو غزل مطلع معلوم ہوتی ہے۔ اس قسم کی نظموں میں ایک خوبی یہ ہے کہ چاہے پوری نظم پڑھیے یا پہلا اور آخری بند پڑھ ڈالیے۔ چاہے صرف ٹیپ پر ہی اکتفا کیجئے، مضمون میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر آپ نے اس قسم کی کوئی بھی نظم لکھی ہے تو مشاعرے میں ضرور پڑھیے، میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو ضرور داد ملے گی۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ مشاعرہ طرحی ہو یا غیر طرحی۔ میرے خیال میں تو مشاعرے کا طرحی ہونا ضروری ہے۔ ہاں اگر چند غیر طرحی غزلیں بھی ہو جائیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ اس طرح مشاعرہ میں تنوع پیدا ہو جائے گا لیکن طرحی کے بغیر کوئی چارہ نہیں، کیوں کہ شاعری کا کمال طرحی مشاعروں میں ہی اجاگر ہوتا ہے۔ میر و سودا، انشا و مصحفی، آتش و ناسخ وغیرہ کی شاعری کو آخر انہیں طرحی مشاعروں نے چمکایا ہے اور میں نے ایسے ایسے مشاعرے بھی دیکھے ہیں جن میں شاعر اپنے ساتھ لٹھ بند شاگردوں کے لشکر لے آئے تھے۔ جب اس بحث کا فیصلہ نہ ہوسکا کہ فلاں قافیہ کس شاعرنے سب سے اچھا باندھا ہے تو ان لوگوں نے لٹھ سنبھالے اور دم بھر میں مشاعرہ میدان جنگ بن گیا۔ لیکن گھبرائیے نہیں، اب نہ ایسے استاد ہیں نہ شاگرد۔ اس لیے اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں کہ مشاعرے میں لٹھ چل جائے گا۔
اب اس طرف سے مطمئن ہوکے لگے ہاتھوں مصرع منتخب کر لیجئے۔ لیکن طرح کے انتخاب میں اس بات کا ذکر رہے کہ ردیف لمبی ہو تا کہ مصرع اٹھانے میں آسانی ہو پھر لمبی ردیف میں یہ خوبی بھی تو ہے کہ قافیہ بولتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ آپ نے دوسرے مصرع کا پہلا لفظ ہی پڑھا کہ سننے والوں کو قافیہ سوجھ گیا۔ اور اس کے ساتھ ہی سبحان اللہ کا غل اس طرح مچا کہ عرش و فرش وجد میں آگئے۔ مصرع طرح تلاش کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ دیوان اٹھایا اور کوئی شگفتہ سی زمین دیکھ کر مصرع طرح تجویز کردیا۔ لیکن یہ طریقہ بہت پرانا ہے۔ ہوسکے تو کوئی نئی زمین طرح کرنے کی کوشش کیجئے یا اگر کسی شاعر کے دیوان ہی سے مصرع طرح تلاش کرنا ہے کسی غیر معروف شاعر کے کلام پر توجہ فرمائیے۔
بہر حال مصرع طرح تجویز ہوتا رہے گا۔ میں بھی غور کرتا ہوں آپ بھی غور کیجئے۔
پہلے یہ فیصلہ کیجئے کہ مشاعرے میں نشست کا انداز کیا ہو۔ میرے نزدیک تو بہتر یہ ہے کہ چاندنی کا فرش ہو، لیکن اگر آپ کو یہ پسند نہیں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ڈائس ہو۔ شعرائے کرام تشریف فرما ہوں، سامعین گردا گرد کرسیوں پر۔ یہ گنگا جمنی طریقہ ہے جس میں قدیم و جدید دونوں اندازموجود ہیں۔ آپ کو شاید ناپسند ہو لیکن مجھے تو پسند ہے۔ مدت ہوئی ایک صاحب نے نیم ادبی مجلس کی بنیاد ڈالی تھی، جس کے جلسے اس شان سے ہوتے تھے کہ حاضرین کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور صدر جلسہ فرش پر تشریف فرما ہیں۔ یہ طریقہ بھی اس سے کچھ ملتا جلتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ نشست کا یہی انداز اختیار کیا جائے۔ آپ کی سمجھ میں کوئی طریقہ آئے تو فرما دیجئے، لیکن ذرا یہ خیال رہے کہ جب تک مشاعرے میں حقہ کے دور کے ساتھ ساتھ شمع گردش نہ کرے، نہ شعر پڑھنے کا لطف آتا ہے نہ سننے کا۔ اس فکر میں نہ پڑیے کہ مشاعرہ کہاں ہو۔ شہر میں کئی ہال ہیں، ان میں سے کوئی نہ کوئی ایک دن کے لیے کرائے پر مل جائے گا۔
اب رہا اعلان کا معاملہ تو اس طرف سے بھی مطمئن رہیے۔ اخباروں میں اعلان چھپوا دیا جائے اور اس پر ایک کوڑی بھی خرچ نہ ہوگی، لیکن صرف اخباروں میں اعلان کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ کچھ اشتہار بھی چھپوانے ہوں گے اور ان پر تھوڑے سے روپے بھی خرچ کرنے پڑیں گے۔ لیکن یہ اطمینان رکھیے کہ مشاعرے پر جو خرچ ہوگا، اس سے چوگنی رقم ٹکٹوں کے ذریعے ہاتھ آجائے گی۔ آپ نہ جانے مشاعرے کو کیا سمجھتے ہیں۔ اجی صاحب اچھا خاص نفع بخش کاروبار ہے۔ اور میں تو ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں، جنہوں نے عمر بھر مشاعرے کرانے اور بٹیر لڑانے کے سوا کوئی کام نہیں کیا اور بڑے اطمینان سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم اور آپ کاروباری آدمی نہیں۔ اور اس طرح روپیہ کمانا نہیں چاہتے اور یہ کون کہتا ہے کہ جو روپیہ یوں ہاتھ آئے اسے ہضم کر جائیے۔ لاگت کے دام وضع کر کے کسی کار خیر میں صرف کرڈالیے۔ بیواو¿ں کو دے دیجئے، یتیموں کی دست گیری کیجئے، بیچارے غریب پیٹ بھر کھائیں گے اور اردو ادب کو دعادیں گے۔
اب صرف ایک بات رہ گئی ہے کہ اس مشاعرے میں ملک بھر کے نامور شاعروں کو کیسے جمع کیا جائے۔ تو یہ بھی بہت آسان ہے۔ آج ہی شعرا سے خط و کتابت شروع کر دیجئے، لیکن خط کا لہجہ نیازمندانہ ہو۔ شاعر کی تعریف جی بھر کے کیجئے، کسی کے نام کے ساتھ تاج الشعرا لکھیے، کسی کو خدائے سخن، کسی کو ملک الکلام، کسی کو لسان الملک، کسی کو مصور جذبات کر کے مخاطب کیجئے۔ جو مشاعرے میں شریک ہونے سے انکار کردے اسے پھر خط لکھیے اور اس میں لکھ دیجئے کہ سفر خرچ اور قیام و طعام کا انتظام مشاعرے کے منتظمین کے ذمے ہوگا۔
ایک اور طریقہ بتاو¿ں۔ شہر کے کسی بڑے آدمی کو صدارت کے نام پر پھانسیے، بعض شعرا کے قیام کا انتظام اس کے ہاں ہو جائے گا۔ جو باقی بچیں گے انہیں بعض دوستوں کے یہاں ٹھہرا دیا جائے گا۔ یہ قضیہ تو یوں طے ہوا۔ اب رہا یہ امر کہ شاعروں کو کیا دیا جائے تو اس کا حل بھی بہت آسان ہے۔ شعرا کو صرف داد دیجئے جو داد پر مطمئن نہ ہوں انہیں سفر خرچ پر ٹرخائیے، آپ ہیں کس خیال میں۔ تفریح کے جتنے سامان ہیں ان میں مشاعرہ سب سے کم خرچ اور بالا نشین سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بعض لوگ بیاہ شادی کی تقریبوں پر بھی ایک مشاعرہ کر ڈالنا کافی سمجھتے ہیں۔ میرے ایک دوست کے خاندا ن میں رسم چلی آئی ہے کہ شادی بیاہ کی تقریبوں پر مجرا ضرور ہوتا ہے۔ اب کے انہوں نے اپنے بھائی کی شادی پر طوائف کے مجرے کے بجائے ایک چھوٹا سا مشاعرہ کرڈالا۔ اس طرح ایک تو انہیں سینکڑوں روپوں کی بچت ہوگئی دوسرے انہوں نے اس ترکیب سے اپنا نام اردو ادب کے محسنوں کی فہرست میں درج کروا دیا۔ اسے کہتے ہیں ہرّا نہ لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے۔
ملاحظہ فرمایا آپ نے مشاعرے کا سیدھا سادا اور آسان نسخہ ہے۔ آپ اس ترکیب پر عمل کرکے دیکھئے۔ اس ٹھاٹھ کا مشاعرہ ہوگا کہ جسے لوگ مدتوں یاد کرتے رہیں گے۔ اور ایک مشاعرہ کیا ہے، اس ترکیب سے جتنے مشاعرے چاہے کیجئے۔ کیا مجال کہ ان میں ذرہ بھر کوئی کسر باقی رہ جائے۔ یہ بڑے بڑے استادوں کا آزمودہ نسخہ ہے۔ جو ہمیشہ تیر بہدف ثابت ہوا ہے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ سامعین میں کچھ ایسے ہوں کہ جو داد دینے کا سلیقہ رکھتے ہوں۔ اگر اس قسم کے لوگ میسر نہ ہو سکیں تو چند لڑکوں کو جمع کر کے انہیں داد کے بندھے ہوئے فقرے رٹوا دیجئے۔ خدا نے چاہا تو مشاعرہ کامیاب ہوگیا۔ خیر یہ کام بھی مجھ پر چھوڑ دیجئے۔ آپ خدا کا نام لے کر مشاعرے کی تیاری شروع کیجئے۔ یعنی آج ہی شعرا کی فہرست مرتب کر کے انہیں خط لکھ دیجئے لیکن یہ تو طے نہیں ہوا کہ مشاعرہ کس تاریخ کو ہو خیر خط لکھنے شروع کیجئے اور تاریخ کی جگہ خالی چھوڑ دیجئے۔
٭٭٭