مذہب

اخلاق و شائستگی کا امتحان

چار ریاستوں میں اسمبلی الیکشن کا طوفان تھم چکا ہے، اور الیکشن کا عمل پورا ہو چکا ہے، الیکشن کے نتائج بیلٹ بکس میں بند ہیں، اور ہزاروں اُمیدواروں کی قسمتیں ان بند ڈبوں سے متعلق ہیں، یہ الیکشن صرف سیاسی زور آزمائی اور عوامی مقبولیت ہی کی آزمائش نہیں؛ بلکہ ہمارے اخلاق و کردار، زبان و بیان اور شرافت کا بھی امتحان ہیں، ہندوستان ایک ایسی سر زمین ہے، جو شروع سے مذہبی و ابستگی میں ممتاز رہی ہے

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

چار ریاستوں میں اسمبلی الیکشن کا طوفان تھم چکا ہے، اور الیکشن کا عمل پورا ہو چکا ہے، الیکشن کے نتائج بیلٹ بکس میں بند ہیں، اور ہزاروں اُمیدواروں کی قسمتیں ان بند ڈبوں سے متعلق ہیں، یہ الیکشن صرف سیاسی زور آزمائی اور عوامی مقبولیت ہی کی آزمائش نہیں؛ بلکہ ہمارے اخلاق و کردار، زبان و بیان اور شرافت کا بھی امتحان ہیں، ہندوستان ایک ایسی سر زمین ہے، جو شروع سے مذہبی و ابستگی میں ممتاز رہی ہے،

بودھ مذہب ہویا جین مت، ایران سے آیا ہوا پارسی مذہب ہو، یا خود ہندوستان میں پیدا ہونے والا سکھ دھرم، ہندو مذہب ہو یا حق و سچائی کا آخری او رمکمل ترجمان مذہب اسلام، ان سب کے نقوش اس ملک کے چپہ چپہ پر ثبت ہیں، اور یہاں کی تہذیب و ثقافت ان کے گہرے اثرات سے خالی نہیں ہے، مذہب خواہ کوئی بھی ہو، اور عقیدہ و عمل میں خواہ کسی قدر بھی اختلاف ہو، شرافت، اخلاق اور انسانیت کا پیغامبر ہوتا ہے،

اس لئے رواداری، مروت اور بردباری ہندوستان کی اصل فطرت ہے، اگر اس ملک کی فطرت میں یہ عنصر نہ ہوتا تو مختلف قوموں کو یہاں پناہ نہ ملی ہوتی اور یہ تہذیبوں اورقوموں کا گلدستہ نہ بنا ہوتا؛ لیکن کیا ہم نے اپنی اس قومی روایت کو باقی رکھا ہے ؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں چاہئے کہ آپ اپنا امتحان لیں اور خود اپنا احتساب کریں، جب حالات معتدل ہوں، اس وقت انسان کے اخلاق اور سلوک کی آزمائش نہیں ہوتی، انسان غیرمعمولی حالات میں ہی پہچانا جاتا ہے،

الیکشن بھی آزمائش کی کسوٹی ہے، یہ موقع مفادات کے ٹکراؤ، نظریات کے تصادم اور ہندوستان کی سیاست میں مختلف خاندانوں کے ہوس اقتدار کا ہوتا ہے، اس موقعہ سے ہمارے اخلاق کی حقیقی تصویر سامنے آتی ہے اور اندرونی جذبات اُبل پڑتے ہیں، اخلاق وانسانیت کے مصنوعی نقاب، جو ہم نے پہن رکھے ہیں، تار تار ہو جاتے ہیں اور اس کے اندر جو مکروہ چہرہ چھپا ہوا ہے، وہ سامنے آجاتا ہے۔

پچھلے دنوں ہمارے سیاسی قائدین نے کیا کچھ نہیں کہا، اور نہیں سنا ؟ ایک دوسرے کے خلاف کیسے اوچھے ریمارک کئے اور پھر کیسے ناشائستہ جوابی حملے کئے ؟ خود ہمارے مسلمان قائدین نے ایک دوسرے کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا ؟ تقریروں میں ایک دوسرے کے نجی حالات؛ بلکہ اس کی کئی پشتوں کے حالات بیان نہیں کئے گئے ؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایک دوسرے کی عزت و آبرو کو بھی نشانہ بنایا گیا ؟ یہ ہماری اخلاقی پستی اور فکری دناء ت کا مظہر ہے، اپنے نظریات کو پیش کرنا اور مخالف نظریہ پر تنقید کرنا بری بات نہیں؛ بلکہ جمہوریت کا ضروری حصہ ہے، معیاری تنقید سے بڑھ کر جمہوریت کے لئے کوئی قیمتی تحفہ نہیں ہوسکتا؛ لیکن ضروری ہے کہ تنقید ہو نہ کہ تنقیص، اور تنقید ادب و شائستگی کے دائرہ میں ہو۔

جب نفس پر چوٹ پڑے اور اپنے کردار کو ٹھوکر لگے، وہی وقت انسان کے اخلاقی معیار کو پرکھنے کا ہوتا ہے؛ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بہادر وہ نہیں جو کُشتی میں کسی کو زیر کردے؛ بلکہ حقیقی بہادر وہ ہے، جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے: انما الشدید الذی یملک نفسہ عند الغضب (بخاری، حدیث نمبر: ۲۱۱۴) ایک بار ایک صاحب نے آپ ﷺ سے نصیحت کرنے کی خواہش کی، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’لا تغضب‘‘یعنی غصہ نہ کرو، وہ باربار آپ ﷺ سے نصیحت کی خواہش کرتے رہے اور آپ ہر بار یہی ارشاد فرماتے رہے کہ غصہ نہ کرو، (بخاری، حدیث نمبر: ۲۱۱۶) حضرت ابوسعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ ایک بار آپ ﷺ نے عصر کے بعد صحابہ ؓ سے خطاب فرمایا،

آپ ﷺ نے اس خطاب میں یہ بھی فرمایا کہ مزاج کے اعتبار سے انسان مختلف نوع کے ہوتے ہیں، ان میں سب سے بہتر وہ ہے جس کو غصہ دیر سے آئے اور جلد چلا جائے: خیرھم بطی الغضب و سریع الفییٔ‘‘ اور سب سے خراب شخص وہ ہے جس کو غصہ آئے جلدی اور جائے دیر سے، (ترمذی، حدیث نمبر: ۲۱۹۱) اس لئے انفرادی معاملات میں بھی اور اجتماعی مسائل میں اس سے بھی بڑھ کر غیظ و غضب کو قابو میں رکھنا چاہئے، کہ حد اعتدال سے بڑھتا ہوا غصہ، نفرت اور حسد کا جذبہ ہی انسان کو بے قابو کر دیتا ہے اور غیر معتدل بنا دیتا ہے۔

نرم خوئی اور نرم کلامی سے وہ کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے، جو تند مزاجی، یاوہ گوئی اور کردار کشی سے حاصل نہیں کیا جاسکتا، حضرت عائشہ ؓسے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نرم خو ہیں، نرم خوئی کو پسند فرماتے ہیں اور نرم خوئی پر وہ کچھ عنایت کرتے ہیں، جو تند خوئی پر نہیں دیتے: ان اﷲ رفیق یحب الرفق، ویعطی علی الرفق مالا یعطی علی العنف (مسلم، حدیث نمبر: ۲۵۹۳)آپ ﷺ نے خوب ارشاد فرمایا کہ نرمی جس چیز میں بھی ہو اسے آراستہ اورخوبصورت بنا دے گی: ان الرفق لا یکون فی شئی الا زانہ‘‘ اور جو چیز نرمی سے محروم ہوگی، وہ بد نمائی سے خالی نہ ہوگی: ولا ینزع من شئی الاشانہ (مسلم، حدیث نمبر:۴ ۲۵۹) اس لئے تنقید اگر صالح اور تعمیری ہو، شریفانہ ہو اور حدود ادب میں ہو، تو ایک بہتر چیز ہے؛ لیکن اگر تنقید کا منشا کردار کشی اور ذاتیات پر حملہ کرنا ہو، تویہ نہایت قبیح، غیراسلامی اور غیر شریفانہ فعل ہے۔

آپ ﷺ کے مخالفین اور کفار و مشرکین آپ کو ’’محمد‘‘ کی بجائے ’’ مذمم ‘‘ کہا کرتے تھے، ’’محمد‘‘ (ﷺ) کے معنی قابل تعریف کے ہیں، ’’ مذمم ‘‘ کے معنی ایسے شخص کے ہیں، جس کی برائی بیان کی جاتی ہو، یہ جتنی بے ہودہ اور ناشائستہ حرکت تھی وہ ظاہر ہے؛ لیکن آپ ﷺ مجسم رحمت تھے، اس لئے کبھی اس پر مشتعل نہیں ہوئے اور نہ اپنے مخالفین کو کبھی قبیح ناموں سے یاد کیا؛ بلکہ صحابہ ؓ کو کفار کی اس حرکت پر غصہ آتا تو تسلی دیتے اور فرماتے: اللہ نے ان کی لعنت وملامت کو میری طرف سے پھیر دیا ہے، کہ وہ ’’ مذمم ‘‘ کوبُرا بھلا کہتے ہیں، اور میں ’’ محمد ‘‘ ہوں، (بخاری، حدیث نمبر: ۳۵۳۳) حدیث میں کہیں یہ بات نہیں ملتی کہ آپ ﷺ نے اپنے بد ترین مخالفین کے لئے بھی ناشائستہ الفاظ استعمال کئے ہوں، یا ان کی ذاتی زندگی کے مفاسد کو طشت از بام کرنے کی کوشش کی ہو۔

آپ ﷺ غیر مہذب طرز گفتگو کا جواب بھی مہذب طریقہ پر دیا کرتے تھے، یہود ہمیشہ آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے رہتے تھے او رایسے الفاظ کی تلاش میں رہتے تھے جس کے خراب معنی ہوں اور وہ لفظی اور صوتی اعتبار سے کسی اچھے لفظ کے قریب ہو، تاکہ دھوکہ دیا جاسکے؛ چنانچہ سلام سے قریبی لفظ عربی میں ’’ سام ‘‘ ہے، جس کے معنی موت کے ہیں، جب آپ ﷺ کو سلام کرتے تو ’’ السلام علیکم‘‘ کی بجائے ’’ السام علیکم ‘‘ کہہ دیتے، جس کے معنی ہیں: ’’ آپ ﷺ پر موت آئے ‘‘ آپ ﷺ اس کے جواب میں صرف ’’وعلیکم‘‘ کہنے پر اکتفا کرتے، ایک بار کچھ یہود ملاقات کو آئے اور انھوں نے اسی طرح کے الفاظ کہے، حضرت عائشہؓ موجود تھیں، ان سے رہا نہیں گیا، اور جواب دیا: ’’ بل علیکم السام واللعنۃ ‘‘ یعنی تم پر موت آئے اور لعنت ہو، آپ ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ! تم بد زبان نہ بنو کہ اللہ تعالیٰ کو ہر معاملہ میں نرمی پسند ہے: ’’إن اﷲ یحب الرفق فی الامر کلہ (بخاری، باب النہی عن ابتداء اھل الکتاب بالسلام الخ)

قرآن مجید نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوتی زندگی کا بہت تفصیلی نقشہ کھینچا ہے، اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام کو فرعون کی طرف دعوت اسلام دینے کے لئے مامور فرماتے ہیں، فرعون کی سنگ دلی، اس کا ظلم و جور، کفر پر اس کا اصرار؛ بلکہ اپنی خدائی کا دعویٰ، محتاج اظہار نہیں؛ لیکن اس کے باوجود حکم ہوا کہ ان کو نرمی کے ساتھ دعوت دینا، شاید اسے عبرت ہو اور اس میں خدا کا خوف پیدا ہ: ’’ فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَیِّنًا لَعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْیَخْشٰی‘‘ مقامِ فکر ہے کہ فرعون جیسے ظالم و جابر اور متکبر کافر کے ساتھ بھی نرم گفتاری کی تلقین کی جارہی ہے، قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ خدا کے نیک بندوں کا طریقہ یہ ہے کہ ان کی چال ڈھال بھی تواضع اور فروتنی کا مظہر ہوتی ہے، اور جب اوچھے قسم کے لوگ ان سے ناشائستہ باتیں کہتے ہیں تو وہ ان سے بھی کلمہ خیر کہہ کر ہٹ جاتے ہیں: وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰـمًا (الفرقان: ۶۳)

رسول اللہ ﷺ کے یہاں عزتِ نفس کا اس درجہ خیال تھا کہ غیر مسلموں میں بھی جو اصحاب وجاہت ہوتے، آپ ﷺ ان کا لحاظ فرماتے، آپ ﷺ نے بادشاہ روم ہرقل کو خط لکھا تو ’’ عظیم الروم ‘‘ کے لفظ سے خطاب فرمایا، یعنی روم کا عظیم شخص، بعض صحابہ ؓ کو اس تعبیر پر تامل تھا؛ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کو اسی طرح کہتے ہیں، بعض سرداران قبائل کو از راہِ احترام آپ ﷺ نے اپنا تکیہ پیش فرمایا، ابو سفیان اہل مکہ کے سردار تھے، فتح مکہ کے موقع سے آپ ﷺ نے ان کا اعزاز کرتے ہوئے فرمایا: جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اسے امن ہے: ’’من دخل دار ابی سفیان فھو آمن‘‘ یہ آپ ﷺ کا سلوک و برتاؤ غیر مسلموں اور اعدائِ اسلام کے ساتھ تھا، اور ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ بھی ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جس پر انسانیت شرمائے اور جس سے شرم و حیا کو عار آئے۔

یہ کردار کشی جو اسٹیج پر ہوتی ہے اور پوسٹر اور اخباری اشتہار کو بھی اس کے لئے ذریعہ ووسیلہ بنایا جاتا ہے اور سوال و جواب، پھر جواب الجواب اور اس کے بعد اس جواب کا جواب جو کیا جاتا ہے اور لوگوں کی عزت و آبرو سے کھیلنے میں جس چوکسی اور مہارت کا ثبوت دیا جاتا ہے، وہ مسلمانوں کے لئے سراسر باعث ِشرم و عار ہے، باہمی کردار کشی اور آبرو ریزی کے بغیر بھی ہم اپنا مدعیٰ لوگوں کے سامنے رکھ سکتے ہیں اور ہم اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں، ہماری یہ اخلاقی پستی اور دناء ت عام مسلمانوں کو غلط اشارے دیتی ہے،

جب مسلمانوں کے قائدین اور محترم شخصیتیں ہی اس سطح پر اتر آئیں تو عوام سے کیوں کر توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان کمزوریوں سے دور رکھ سکیں گے؟ جس سفینہ کا ناخداہی آداب سفر سے بے بہرہ ہو، کون ہے جو اسے ساحل سے ہمکنار کرے؟ – کاش! ہمارے سیاسی قائدین اور ان قائدین کے معاونین و انصار جو بہر حال اس ’’خیرات ‘‘ ہی کا ایک حصہ ہیں، اس حقیقت پر غور کریں!
٭٭٭