مشرق وسطیٰ

اسرائیلی انٹیلی جنس غزہ سے بڑے حملے روکنے میں کیسے ناکام رہی؟

فلسطین کے عسکریت پسند گروہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کو اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی کی ناکامی بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

یروشلم: فلسطین کے عسکریت پسند گروہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کو اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی کی ناکامی بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

متعلقہ خبریں
اسرائیل بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے تمام فیصلوں پر جلد عمل درآمد کرے: ترکیہ
اسرائیل، دل آزار گانوں کے مقابلے کے اندراجات پر نظرِ ثانی کرے گا
اسرائیل کے تیار کردہ اشیاء کا استعمال نہ کریں: مشتاق ملک
اسرائیل رہائشیوں کو رفح سے غزہ کے جنوب مغربی ساحل پر المواسی منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے
اسرائیل غزہ پٹی میں خواتین کو نشانہ بنا رہا ہے: یو این آر ڈبلیو اے

ہفتہ کے روز درجنوں مسلح فلسطینی اسرائیل اور غزہ کی پٹی کے درمیان سخت حفاظتی حصار والی سرحد عبور کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ اسی دوران غزہ سے اسرائیل پر مبینہ طور پر ہزاروں راکٹ داغے گئے۔

شین بیت، اسرائیلی انٹیلی جنس موساد، اس کی بیرونی خفیہ ایجنسی اور اسرائیلی دفاعی افواج حتیٰ کہ کوئی بھی حماس کی جانب سے داغے جانے والے ان میزائلوں اور حملے کے بارے میں جاننے میں ناکام رہا، یہ امر انتہائی حیران کْن قرار دیا جا رہا ہے۔

اسرائیل کے پاس مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ وسیع اور اچھی طرح سے مالی اعانت سے چلنے والی انٹیلی جنس سروسز موجود ہیں۔ان کے مخبر اور ایجنٹ فلسطینی عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ ساتھ لبنان، شام اور دیگر جگہوں پر بھی موجود ہیں۔

انھوں نے ماضی میں عسکریت پسند رہنماؤں کا قتل عام کیا ہے اور وہ ان کی تمام نقل و حرکت کو قریب سے جانتے ہیں۔غزہ اور اسرائیل کے درمیان سرحدی باڑ کے ساتھ ساتھ کیمرے، گراؤنڈ موشن سینسر اور فوج کا باقاعدگی سے گشت بھی ہوتا ہے۔

خاردار تاروں کی باڑ کو اس حملے میں ہونے والی دراندازی کو روکنے کے لیے ایک ’سمارٹ بیریئر‘ سمجھا جاتا رہا ہے۔اس کے باوجود حماس کے عسکریت پسند اس راستے سے گزرتے ہیں، تاروں میں سوراخ کرتے ہیں یا پیراگلائڈر کے ذریعے اسرائیل میں داخل ہوتے ہیں۔

اسرائیلی خفیہ ایجنسی کی ناک کے نیچے ہزاروں راکٹوں کو ذخیرہ کرنے اور فائر کرنے والے اس طرح کے مربوط اور پیچیدہ حملے کی تیاری اور اسے انجام دینے کے لیے حماس کی جانب سے غیر معمولی سطح کی آپریشنل سکیورٹی درکار ہونی چاہیے تھی۔

اسرائیلی حکام نے بی بی سی کے فرینک گارڈنر کو بتایا کہ ’ایک بڑی تحقیقات شروع ہو چکی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس میں ہونے والے سوالات برسوں تک جاری رہیں گے۔‘لیکن اس وقت اسرائیل کی ترجیحات زیادہ اہم ہیں۔

انھیں اپنی جنوبی سرحدوں کی دراندازی کو روکنے اور دبانے کی ضرورت ہے، حماس کے ان عسکریت پسندوں کو مْلک سے نکالنا اہم ہوگا جنھوں نے سرحدی اسرائیلی حصے میں متعدد مقامات کا کنٹرول سنبھالنے کا دعویٰ کیا ہے۔

اسرائیل کو ایسے میں اپنے ہی شہریوں کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہو گی جنھیں یرغمال بنایا گیا ہےاور شاید اسرائیل کے لیے سب سے بڑی تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ وہ مغربی کنارے میں پھیلنے والی اس شورش کو روکنے اور ممکنہ طور پر لبنان کے ساتھ اپنی شمالی سرحد کے پار حزب اللہ کے بھاری ہتھیاروں سے لیس جنگجوؤں کو اپنی طرف راغب کرنے سے کیسے روکے گا؟

a3w
a3w