مشرق وسطیٰ

اسرائیل کے ’اعلان جنگ‘ کے بعد غزہ کے مکینوں کیلئے نقل مکانی کرنا مشکل

اسرائیلی فوجیوں اور حماس کی ایک دوسرے خلاف بمباری اور راکٹ حملوں میں غزہ کے عام شہری شدید متاثر ہوئے ہیں، رہائشی عمارتوں کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، مکینوں کا کہنا ہے کہ ’ہر جنگ میں اندھا دھند بمباری کی وجہ سے ہمیں اپنا گھر چھوڑنا پڑتا ہے‘۔

غزہ: اسرائیلی فوجیوں اور حماس کی ایک دوسرے خلاف بمباری اور راکٹ حملوں میں غزہ کے عام شہری شدید متاثر ہوئے ہیں، رہائشی عمارتوں کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، مکینوں کا کہنا ہے کہ ’ہر جنگ میں اندھا دھند بمباری کی وجہ سے ہمیں اپنا گھر چھوڑنا پڑتا ہے‘۔

متعلقہ خبریں
اسرائیل بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے تمام فیصلوں پر جلد عمل درآمد کرے: ترکیہ
آیت اللہ خامنہ ای کا پاسداران انقلاب کو اہم پیغام
دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری
اسرائیل غزہ پٹی میں خواتین کو نشانہ بنا رہا ہے: یو این آر ڈبلیو اے
غزہ میں امداد تقسیم کرنے والی ٹیم پر اسرائیل کی بمباری، 23 فلسطینی شہید

اسرائیلی فوجیوں نے آج غزہ کی پٹی کے ارد گرد کے صحرا پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے اور جنگ زدہ سرحدی علاقے سے لوگوں کو نکالنے کے لیے کارروائیاں کی ہیں جبکہ حماس کے ساتھ جاری جھڑپوں کے تیسرے روز تک ہلاکتوں کی تعداد گیارہ سو سے تجاوز کر چکی ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازع شروع ہونے کے بعد سے غزہ کی پٹی میں ایک لاکھ 23ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

غزہ کے رہائشی عامر عاشور کی حاملہ بیوی کی ڈلیوری اس وقت ہوئی جب 7 اکتوبر کی رات کو اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر بمباری شروع کی تھی۔دونوں میاں بیوی قریبی زچگی ہسپتال پہنچے تھے جہاں جوڑے کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی تھی، بچے کی پیدائش کے بعد وہ خوف میں مبتلا تھے کیونکہ ان کا گھر زمین بوس ہوچکا تھا۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر اچانک فضائی اور زمینی حملوں کے بعد اسرائیلی فورسز نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے غزہ کی پٹی پر راکٹ حملے کیے تھے، جن میں مغربی علاقے النصر میں 11 منزلہ عمارت بھی شامل ہے جن میں عامر عاشور رہائش پزیر تھے، اس شہر میں تقریبا تقریباً 80 خاندان آباد تھے۔

حماس کے راکٹ حملوں کے بعد اسرائیل نے ’حالتِ جنگ‘ کا اعلان کردیا تھا، دونوں جانب سے شدید راکٹ حملوں اور بمباری کی وجہ سے اب تک 700 سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہوچکے ہیں، یہ 1973 کی عرب-اسرائیل جنگ کے بعد اس کا سب سے بڑا نقصان ہے، دوسری جانب غزہ کے حکام نے کم از کم 413 اموات کی اطلاع دی ہے۔

غزہ کے رہائشی عامر عاشور نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’مجھے سب سے زیادہ خوف یہ تھا کہ میری بیوی بچے کو جنم دینی والی تھی، میں پریشان تھا کہ مسلسل بمباری کی وجہ سے ہم ہسپتال کیسے پہنچیں گے؟ لیکن مجھے بالکل امید نہیں تھی کہ میرا گھر بمباری کی وجہ سے تباہ ہوجائے گا۔‘انہوں نے ملبے سے اپنا سامان نکالتے افسردہ ہوتے ہوئے کہا کہ ’آج ہم سب، ہمارے بچے، عورتیں بے گھر ہیں، اس مشکل وقت میں ہم کہاں جائیں گے؟

جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر بمباری کرنا شروع کی تو وہاں کے رہائشی شدی الحسی اور ان کے بڑے بھائی النصر میں اپنا گھر چھوڑ کر غزہ شہر کے مرکز الوطن ٹاور چلے گئے جہاں ان کے والدین مقیم تھے لیکن وہاں پر بھی یہ لوگ محفوظ نہیں تھے۔

شدی الحسی نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’اسرائیل کی جانب سے بمباری کی دھمکیوں کے بعد صبح چار بجے ہمیں ٹاور خالی کرنے کا کہا گیا، ہم سب بہت حیران تھے‘۔

سول ڈیفنس کی گاڑیاں اور ایمبولینس بمباری سے چند منٹ قبل عمارت کے مکینوں کو وہاں سے نکالنے کے لیے پہنچی تھیں، جس کی وجہ سے ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔’انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’میں ابھی تک صدمے میں ہوں، میرا پورا خاندان چند گھنٹوں میں بے گھر ہوگیا ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ آگے کیا ہونے والا ہے‘۔

الوطن ٹاور کے سامنے ایک عمارت میں رہنے والے یوسف البواب نے الجزیرہ کو بتایا کہ انہیں مقامی وقت کے مطابق شام 5 بجے اسرائیلی فورسز کی طرف سے دھمکی ملی ہوئی کہ وہ اپنا گھر خالی کر دیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’سویلین ٹاور کے اندر عسکریت پسندوں یا اسرائیل کی مخالفت کرنے والے مسلح افراد کی طرف سے کسی بھی قسم کی سرگرمی نہیں دیکھی تو اسرائیل سویلین ٹاور پر بمباری کیوں کررہا ہے؟‘

غزہ کے رہائشی یوسف البواب جس عمارت میں رہتے تھے وہاں 150 دیگر لوگ آباد تھے لیکن اب یہ عمارت بُری طرح تباہ ہوگئی تھی اور یہاں صرف ملبے کا ڈھیر دکھائی دے رہا تھا۔

بم دھماکے کے بعد اس عمارت کے اردگرد کئی دیگر مکانات اور عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے مسلح افراد، فوجی مقامات اور حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، مجھے یقین ہے کہ اسرائیل جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور انہیں بے گھر کر رہا ہے تاکہ حماس پر مزید دباؤ ڈالا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ ’لیکن اس میں ہم جیسے عام لوگوں کا کیا قصور ہے؟ ہم کہاں جائیں؟

غزہ کے شمالی علاقے بیت لاہیا سے تعلق رکھنے والے محمد صلاح نے بتایا کہ انہوں نے اپنا گھر چھوڑ دیا اور علاقے کے دیگر خاندانوں کے ساتھ اقوام متحدہ کے زیر انتظام اسکول میں پناہ لی ہے۔انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’گزشتہ رات اسرائیلی طیاروں ہمارے علاقے پر بمباری کی، بہت خطرناک صورتحال تھی، اس لیے ہمیں اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔‘ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل بمباری کرتے وقت عام شہریوں اور مسلح افراد میں فرق نہیں کرتے، ہر جنگ میں اندھا دھند بمباری کی وجہ سے ہمیں اپنا گھر چھوڑنا پڑتا ہے۔

محمد صلاح نے کہا کہ ’ہم برسوں سے یہاں رہ رہے ہیں، کوئی بھی ہمارا دفاع یا حمایت کرنے والا نہیں ہے، ہمیں مزاحمت کرنے کا حق ہے۔‘

a3w
a3w