مذہب

اسلام میں جہاد سے دنیا میں امن قائم کرنا ہے

اسرائیل اور اسکے ہم نوائوں نے فلسطینی مسلمانوں پر ظلم‘ درندگی وبربریت کی ساری حدیں پار کر دیں۔ بزدل‘ کم ظرف‘ ظالم یہودی معصوم بچوں ‘ عورتوں اور ضعیفوں کو بڑی بے دردی سے شہید کرتے جا رہے ہیں۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)

اسرائیل اور اسکے ہم نوائوں نے فلسطینی مسلمانوں پر ظلم‘ درندگی وبربریت کی ساری حدیں پار کر دیں۔ بزدل‘ کم ظرف‘ ظالم یہودی معصوم بچوں ‘ عورتوں اور ضعیفوں کو بڑی بے دردی سے شہید کرتے جا رہے ہیں۔ ظالموں نے دواخانے، مساجد، مدارس کو نشانہ بنا کر ایسے وحشیانہ اور سفاکانہ حملے کیے ہیں کہ جس کی وجہ سے انسانیت تڑپ اٹھی ہے لیکن افسوس صد افسوس مسلم ممالک کے حکمران اپنے آرام دہ محلوں میں خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ اسلام اس کی سختی سے مخالفت کرتا ہے ۔ اسلام میں جہاد کا جو حکم ہے وہ ظلم وفساد کو ختم کرنے ‘ امن وشانتی کی فضاء قائم کرنے اور خدا کی وحدانیت وبندگی کی طرف بلانے کیلئے ہے۔

اسلام جنگ برائے جنگ کے نظریے کا قائل نہیں، اسلام تلواروں کو بے نیام کرنے کا حکم اسی وقت دیتا ہے جب ظلم و ستم کا بازار گرم ہو، فتنہ و فساد کی آگ بھڑکائی جا رہی ہو، سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے جال بنے جا رہے ہوں ، جارحیت اور بربریت اپنی تمام حدیں پار کر چکی ہوں، اس ظلم کو ختم کرنے کے لئے، فتنہ و فساد کے قلع قمع کے لئے سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی بیخ کنی کے لئے اور جارحیت وبربریت کے خاتمہ کیلئے اسلام جنگ کی اجازت دیتا ہے تاکہ اللہ کی زمین پر اس کے حکم کے مطابق عدل وانصاف قائم ہو اور اولاد آدم امن اور سلامتی کی فضا میں زندگی بسر کر سکے۔

اسلام میں جہاد کے کچھ اصول ہیں:۱) اسلام معصوم بچوں، عورتوں، ضعیفوں کو قتل کرنے سے روکتا ہے۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے: عن ابن عمر أن امراۃ وجدت في بعض مغازي رسول اللہ ﷺمقتولۃ، فانکر رسول اللہ ﷺ ذلک ونھی عن قتل النساء والصبیان (ترمذی) حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو کسی غزوہ میں ایک مقتولہ عورت ملی تو حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے ناپسند فرمایا اور عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع کیا۔

تاجدار کائنات ﷺ نے معصوم بچوں اور بوڑھوں کے قتل کی ممانعت فرمائی، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: لا تقتلوا شیخا فانیا ولا طفلا ولا صغیرا ولا امراۃ (ابوداود) کسی بہت بوڑھے، شیر خوار بچے، نابالغ اور عورت کو قتل نہ کرنا۔ روایت میں مذکور ہے کہ حضور رحمت عالم ﷺ نے میدان جنگ میں ایک عورت کی لاش دیکھی تو ناراض ہوئے، فرمایا: ماکانت ھذہ لتقاتل یہ تو لڑنے والوں میں شامل نہ تھی۔ پھر اسلامی افواج کے سپہ سالار حضرت خالد بن ولید ﷺ کو کہلا بھیجا کہ: لا تقتلن امراۃ ولا عسیفا عورت اور اجیر کو ہرگز قتل نہ کرو۔(ابوداود)

فتح مکہ کے وقت تاجدار کائنات ﷺ نے عفو و درگزر سے کام لے کر جس نظریہ جنگ کی عملی تفسیر پیش کی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے، حضورؐ نے حکم دیا کہ کسی زخمی پر حملہ نہ کیا جائے، جو شخص جان بچا کر بھاگ رہا ہو اس کا تعاقب نہ کیا جائے اور جو اپنا دروازہ بند کر لے اسے امان دی جائے۔ قال رسول اللہ ﷺ یوم فتح مکۃ الا لا یجھزن علی جریح، ولا یتبعن مدبر، ولا یقتلن اسیر، ومن اغلق بابہ فھو آمن (فتوح البلدان )حضور نبی اکرم نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا آگاہ ہو جائو زخمی پر حملہ نہ کیا جائے جان بچا کر بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے اور قیدی کو قتل نہ کیا جائے اور جو اپنا دروازہ بند کر لے پس وہ امن والا ہے۔

جنگ نہ کرنے والوں کا قتل منع ہے۔ اسلام انسانی خون کو کعبے کی حرمت سے زیادہ فضیلت کا سزاوار سمجھتا ہے، دوران جنگ بھی خون ناحق کی سختی سے مذمت کی گئی ہے۔ دوران جنگ صرف انہی دشمنوں کو قتل کرنے کی اجازت دی گئی ہے جو عموماً جنگ میں حصہ لینے کے قابل ہوتے ہیں جبکہ آبادی کا غیر محارب حصہ جس میں بیمار، معذور، گوشہ نشین افراد، بچے، بوڑھے، عورتیں شامل ہیں قتال کی اجازت سے مستثنیٰ ہیں فتح مکہ کے موقع پر حضور ﷺ نے جو ہدایات جاری فرما ئیں ان میں مذکور ہے۔ ’’جو مقابلہ نہ کرے، جان بچا کر بھاگ جائے، اپنا دروازہ بند کر لے یا زخمی ہو اس پر حملہ نہ کیا جائے۔” (فتوح البلدان)

حدیث پاک ہے کہ: لا تقتلوا شیخا فانیا ولا طفلا ولا صغیرا ولا امراۃ ولا تغلوا وضموا غنائمکم واصلحوا واحسنوا ان اللہ یحب المحسنین (ابو داود) نہ کسی بوڑھے کو قتل کرو نہ شیر خوار بچے کو نہ نابالغ کو نہ عورت کو، اموال غنیمت میں خیانت نہ کرنا اور اپنے مال غنیمت کو اکھٹا کر لینا۔ نیکی اور اچھا برتائو کرو اللہ تعالی اچھا برتائو کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔

۲) اسلام نے آگ میں جلانے سے منع فرمایا ہے: حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺنے ہم لوگوں کو کسی جنگی مہم پرروانہ ہونے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ اگر فلاں دو آدمی تم کو ملیں تو ان کے کفر کے باعث ان کو جلا دینا مگر جب ہم روانہ ہونے لگے تو اس وقت فرمایا: اني أمرتکم أن تحرقوا فلانا وفلانا، وان النار لا یعذب بھا اِلا اللہ، فان وجدتموھما فاقتلوھما (بخاری) میں نے تمہیں حکم دیا تھا کہ فلاں فلاں اشخاص کو جلا دینا مگر آگ کا عذاب سوائے خدا کے کوئی نہیں دے سکتا اس لئے اگر تم انہیں پاؤ تو بس قتل کر دینا۔

۳) اسلام نے قیدیوں کے ساتھ ہمدردی کا حکم دیا۔ جنگ بدر میں وہ لوگ قیدی بن کر آئے جنہوں نے آپ ﷺ اور مسلمانوں کو تکلیفیں دے دے کر جلاوطنی پر مجبور کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ نے انہیں صحابہؓ کے حوالے کرتے ہوئے صحابہ کرام کو ان کے بارے تاکید فرمائی کہ ان کے ساتھ ہمدردی اور نرمی کا سلوک کیا جائے چنانچہ صحابہ کرامؓ خود کھجور کھا کر بسر کرتے تھے اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے تھے اور کیوں نہ کھلاتے حضور ﷺ کا بھی ارشاد تھا اور اللہ تعالی نے بھی قیدیوں کو کھانا کھلانے والوں کو نیکو کار قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِیْناً وَیَتِیْماً وَأَسِیْراً٭ إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللَّہِ لَا نُرِیْدُ مِنکُمْ جَزَاء وَلَا شُکُوراً(سورہ دھر) اور (یہ وہ لوگ ہیں جو) مسکین، یتیم اور قیدی کو اس کی (یعنی اللہ کی) محبت میں کھانا کھلاتے ہیں (ان کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ) ہم تم کو محض اللہ کی خوشنودی کے لئے کھانا کھلاتے ہیں نہ ہم تم سے کوئی معاوضہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔

۴) دشمن کی لاشوں کی بے حرمتی کرنے اور ان کے اعضاء کو کاٹنے سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے :عبداللہ بن یزید انصاری روایت کرتے ہیں: نھی النبي ﷺمن النھبی والمثلۃ (ابو داود)حضور ﷺ نے لوٹ کے مال اور مثلہ سے منع فرمایا۔ علاوہ ازیں حضور نبی اکرم ﷺ نے کفار کو اچھے طریقے سے قتل کرنے والے کو اہل ایمان میں سے قرار دیا یعنی مثلہ نہ کرنا اور مہذب طریقے سے قتل کرنا یہ علامت ایمان ہے۔ عن عبداللہ قال: قال رسول اللہ ﷺ :أعف الناس قتلۃ أھل الایمان (ابوداود) حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ کفار کو اچھے طریقے سے قتل کرنے والے اہل ایمان ہیں۔

۵)اظہار اسلام پر قتال سے دستبرداری: اسلام قتل برائے قتل کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ دوران جنگ اگر مد مقابل کسی مرحلے پر (مغلوب ہو کر ہی سہی) اس امر کا بر ملا یا اشار ۃً اظہار کر دے کہ وہ مسلمان ہے یا اس نے اسلام قبول کر لیا ہے تو فوراً لڑائی سے ہاتھ کھینچ لینے کا حکم ہے، اب کسی صورت میں بھی اس پر وار کر کے اسے موت کے گھاٹ نہیں اتارا جا سکتا، خواہ اس فرد نے اپنی جان بچانے کے لئے ہی اسلام قبول کیوں نہ کیا ہو۔ عہد رسالت مآب ﷺ میں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ کفار نے مغلوب ہو کر کلمہ پڑھ لیا لیکن انہیں یہ سمجھ کر قتل کر دیا گیا کہ انہوں نے اپنی جان بچانے کے لئے ایسا کیا ہے۔ اس قسم کے واقعات پر حضور ﷺ رنجیدہ ہو جایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا۔ صحیح البخاری کتاب المغازی کے باب بحث اسامہؓ بن زید میں ہے، حضرت اسامہؓ بن زید فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ہمیں حربہ کی طرف بھیجا، ہماری آمد کی خبر پا کر اہل حربہ اپنا علاقہ چھوڑ کر بھاگ نکلے لیکن ایک شخص گرفتار ہوا اس نے لا الہ الا اللہ کہا لیکن ہم نے تلوار کا وار کر کے اس کا کام تمام کر دیا۔ جب یہ واقعہ تاجدار مدینہ ﷺ کے علم میں آیا تو آپ ؐنے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تمہارا حال کیا ہو گا جب وہ شخص کلمے کے ساتھ تمہارا دامن پکڑے گا اور تم سے جھگڑا کرے گا، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے تو موت کو سامنے دیکھ کر کلمہ پڑھا تھا کہ ممکن ہے اس کی جان بچ جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا۔ پھر حضور ﷺ بار بار یہی کلمات دہراتے رہے کہ قیامت کے دن تمہارا کیا حال ہو گا۔ اسامہؓ بن زید فرماتے ہیں کہ یہ کیفیت دیکھ کر میں دل میں تمنا کرنے لگا کہ کاش میں آج کے دن ہی اسلام لایا ہوتا اور اس خون ناحق میں شریک نہ ہو تا جس پر حضور ﷺ اس قدر ناراضگی کا اظہار فرما رہے ہیں) (بخاری)۔

۶) عام لوٹ مار کی ممانعت ۔ ایک غزوہ میں چند لوگوں نے مسافروں کو لوٹنا چاہا تو حضور ﷺ نے انہیں سختی سے منع کردیا۔ حضرت معاذؓ بن انس سے مروی ہے کہ ایک غزوہ میں حضور رحمت عالم ﷺ کے ہمراہ شرکت کی سعادت نصیب ہوئی، بعض لوگوں نے دوسروں کے راستے کو تنگ کیا اور راہ چلتے مسافروں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ آقائے دو جہاں ﷺ کو معلوم ہوا تو آپ ؐنے ایک صحابی کو بھیج کر اعلان کروایا کہ جو شخص دوسروں کو گھروں میں تنگ کرے یا لوٹ مار میں ملوث ہو اس کا جہاد قبول نہیں۔ گویا اللہ کی راہ میں تلوار میں بے نیام کرنے والے اگر لوٹ مار میں مصروف ہو جائیں، غیر اخلاقی حرکتوں کے مرتکب ہوں۔ عوام الناس کے لئے ان کا عمل باعث آزار بننے لگے تو راہ حق میں جانیں قربان کرنے کا عظیم جذ بہ بھی بارگاہ خداوندی میں مسترد کر دیا جائے گا۔ (سنن ابو داود)

۷)شب خون مارنے کی ممانعت: اسلام نے ہر سطح پر منافقت، ریاکاری اور دھوکہ دہی پر ضرب کاری لگائی ہے، حتی کہ اس کے جنگی قوانین میں بھی منافقت، ریاکاری اور دھوکہ دہی کا شائبہ تک نظر نہیں آتا (جنگی حکمت عملی اور جنگی داؤ پیچ ایک الگ چیز ہے) اسلامی قوانین جنگ میں ایک یہ بھی ہے کہ رات کے وقت دشمن پر حملہ نہ کیا جائے بلکہ صبح ہونے کا انتظار کیا جائے شجاعت، بہادری اور مردانگی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ دشمن کے سامنے آ کر اسے للکارا جائے، تاریخ اسلام میں ایسے بے شمار واقعات درج ہیں کہ اگر دشمن کے سالار کا گھوڑا زخمی ہو کر ناکارہ ہو گیا تو اسلامی سپہ سالار نے اسے دو سرا گھوڑا پیش کر دیا مسلمان جنگوں میں بھی ضابطہ اخلاق کی مکمل پابندی کرتے تھے۔ حضرت انس ؓ روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ خیبر میں رات کے وقت پہنچے اور آپؐ کا طریقہ تھا کہ جب کسی قوم پر رات کے وقت پہنچتے تو صبح ہونے سے قبل حملہ نہ کرتے۔ ان رسول اللہ ﷺ اتی خیبر لیلا وکان اذا اتی قوما بلیل لم یغر بھم حتی یصبح (بخاری) رسول اللہ ﷺ رات کے وقت خیبر کے مقام پر پہنچے چنانچہ آپ ؐ کا معمول تھا کہ جب کسی جگہ رات کو پہنچتے تو صبح ہونے تک ان لوگوں پر حملہ نہیں کیا کرتے تھے۔

اسلام کے جنگی قوانین امن ‘ سکون‘ شانتی‘ مودت‘ الفت‘ یکجہتی پیدا کرنے اور توحید الٰہی و اس کی عبادت کی طرف دعوت دینے کی خاطرہیں۔

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاء ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کی جان ومال، عزت وابروکی حفاظت فرمائے اور ظالم اسرائیلیوں کے ناپاک ارادوں کوتباہ وبربا د کردے آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭

a3w
a3w