ایشیاء

افغانستان میں 11 مرد اور 3 خواتین کو جرائم ثابت ہونے پر کوڑوں کی سزا

افغانستان میں اسلامی قانون کے نفاذ کے بعد اس پر عمل کے تحت کابل میں افغان عدالت کے حکم پر 11 مردوں اور 3 خواتین کو کوڑے مارے گئے۔

کابل: افغانستان میں اسلامی قانون کے نفاذ کے بعد اس پر عمل کے تحت کابل میں افغان عدالت کے حکم پر 11 مردوں اور 3 خواتین کو کوڑے مارے گئے۔اس ضمن میں صوبائی حکام نے کہا ہے کہ مذکورہ افراد چوری اور اخلاقی جرائم کے مرتکب پائے گئے تھے۔

خیال رہے کہ 13نومبر کو طالبان کے سپریم لیڈرنے رواں ماہ ججوں کو اسلامی قانون یا شریعت کے مکمل نفاذ کا حکم دیا تھا، اس کے بعد پہلی مرتبہ کوڑے کی سزاؤں کی تصدیق کی گئی ہے، طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ نے رواں ماہ ججوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اسلامی قانون میں بیان کردہ سزاؤں کا مکمل نفاذ کریں۔

ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق صوبہ لوگر میں طالبان حکومت کے اطلاعات وثقافت کے سربراہ قاضی رفیع اللہ صمیم نے کہا کہ کوڑوں کی سزا سرعام نہیں دی گئی۔انہوں نے کہا کہ کُل 14 افراد کو سزائیں دی گئیں جن میں 11 مرد اور 3 خواتین تھیں اور کسی بھی فرد کو زیادہ سے زیادہ 39 کوڑے مارے گئے۔

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اخوندزادہ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ چوروں، اغوا کاروں اور بغاوت کرنے والوں کی فائلوں کا بغور جائزہ لیا جائے گا۔انہوں نے کہا تھا کہ وہ فائلیں جن میں حدود اور قصاص کی تمام شرعی شرائط پوری کی گئی ہیں، تمام لوگ ان پر عمل کرنے کے پابند ہیں، یہ شریعت اور میرا حکم ہے جو سب پر واجب ہے۔

اسلامی قوانین کے تحت حدود سے مراد ایسے جرائم ہیں جن کی سزائیں لازمی ہیں جبکہ دوسری جانب قصاص سے مراد’بدلہ‘ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص نے دوسرے شخص کی آنکھ ضائع کردی ہے یا نقصان پہنچایا ہے تو بدلے کے طور پر جرم کرنے والے شخص کی بھی آنکھ ضائع کی جائے گی۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے طالبان جنگجوؤں کی جانب سے کچھ لوگوں کو متعدد الزمات پر کوڑے مارے جانے کی ویڈیو سوشل میڈیا میں گردش کرنے کے بعد طالبان کو شدید تنقیدوں کا سامنا ہے۔طالبان نے کئی بار اغوا کاروں کی لاشیں عوام کے سامنے ظاہر کیں جو طالبان کے بقول فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے تھے جبکہ یہ بھی اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ جمعہ کی نماز کے بعد دیہی علاقوں میں بالغ افراد کو کوڑے مارے جارہے ہیں لیکن ان اطلاعات کی آزادانہ تصدیق نہیں ہوسکی۔

سال 2001 سے پہلے دور اقتدار میں طالبان کی جانب سے لوگوں کو عوامی سطح پر سزائیں دی جاتی تھیں جن میں کوڑے مارنا اور نیشنل اسٹیڈیم میں سزائے موت کی سزائیں شامل ہیں۔خیال رہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کسی بھی ملک نے افغان حکومت کو تسلیم نہیں کیا دوسری جانب لڑکیوں کے اسکول پر پابندی عائد کرنے پر عالمی برادری کی جانب سے طالبان کو شدید تنقید کا بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔