حیدرآبادسوشیل میڈیا

اقلیتی اداروں میں کام کرنے کیلئے اعلیٰ مسلم عہدیدار گریزاں کیوں؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو اعلیٰ رتبہ کے عہدیدار ہیں وہ مسلم اداروں میں کام کرنے سے گریزاں کیوں ہیں؟ کیا ان مسلم عہدیداروں کو مسلم اداروں میں کام کرنے میں عار محسوس ہوتی ہے یا پھر کوئی اور وجہ ہے؟

حیدرآباد: ریاست تلنگانہ میں اعلیٰ رتبہ کے عہدوں پر مسلم عہدیداراب گنتی کے چند ہی رہ گئے ہیں اور جو عہدیدار بچ رہ گئے ہیں وہ اقلیتوں سے متعلق اداروں میں کام کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے یہی وجہ ہے کہ ریاستی حکومت کو مسلم عہدیداروں کو ایک سے زائد اداروں کی سربراہی سونپنی پڑرہی ہے اور اس کے نتیجہ میں ان اداروں کی کارکردگی یقیناً متاثر ہورہی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو اعلیٰ رتبہ کے عہدیدار ہیں وہ مسلم اداروں میں کام کرنے سے گریزاں کیوں ہیں؟ کیا ان مسلم عہدیداروں کو مسلم اداروں میں کام کرنے میں عار محسوس ہوتی ہے یا پھر کوئی اور وجہ ہے؟ دراصل مسلم عہدیداروں کا یہ احساس ہے کہ مسلم اداروں میں کام کرتے ہوئے انہیں صرف رسوائی ہی حاصل ہوہکلتی ہے۔

اگر وہ دیانتداری سے کام کرتے ہیں تو ان پر دباؤ بنائے رکھا جاتا ہے اور چالیں چلتے ہوئے انہیں رسواء کن انداز میں ان کے اپنے اصل محکمہ کو بھیج دیا جاتا ہے، اس کے برخلاف کوئی عہدیدار دباؤ میں آکر خلاف قانون کام کرتا یا ہے یا رشوت خور بن جاتے ہیں تووہ بڑی مدت تک عہدوں پر برقرار تو رہتے ہیں مگر انہیں جہدکاروں کی مسلسل تنقیدوں اور قانونی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آخر کار وہ بھی رسواء ہوکر نکال دئیے جاتے ہیں۔

ایک عرصہ سے مسلمانوں کے اداروں جیسے وقف بورڈ، حج کمیٹی، اردو اکیڈیمی، اقلیتی مالیاتی کارپوریشن‘ دائرۃ المعارف اور اسٹیٹ آرکائیوز کے لئے کوئی باقاعدہ سربراہ نہیں ہے بلکہ ان تمام ہی اداروں کے اعلیٰ عہدوں پر فائز عہدیدار، اضافی ذمہ داری کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

محکمہ پولیس میں ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل کے رتبہ کے عہدیدار شاہنواز قاسم ڈیپوٹیشن پر ڈائرکٹر محکمہ اقلیتی امور کے عہدہ پر فائز ہیں اور وقف بورڈ کے سی ای او اور اردو اکیڈیمی کے سکریٹری/ڈائرکٹر کی اضافی ذمہ داری بھی سنبھالے ہوئے ہیں جب کہ ایک اور آئی ایف ایس عہدیدار بی شفیع اللہ، ڈیپوٹیشن پر سکریٹری تلنگانہ مائنارٹیز ریسیڈنشیل ایجوکیشن انسٹی ٹیوشنس سوسائٹی اور ایگزیکیٹیو آفیسر حج کمیٹی کی ذمہ داری نبھارہے ہیں۔

عثمانیہ یونیورسٹی کے رجسٹرار، دائرۃ المعارف کے ڈائرکٹر کے عہدہ کی اضافی ذمہ داری سنبھال رہے ہیں۔ کرسچئن فینانس کارپوریشن کی منیجنگ ڈائرکٹر محترمہ اے ایچ این کانتی ویزلی کو نائب صدرنشین و منیجئنگ ڈائرکٹر اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کی اضافی ذمہ داری دی گئی ہے۔

ایک موظف خاتون عہدیدار زرینہ پروین کو ڈائرکٹر اسٹیٹ آرکائیوز بنایا گیا ہے۔ ان دنوں وقف بورڈ کے چیف ایگزیکیٹیو آفیسر کے عہدہ کے لئے کشاکش چل رہی ہے۔ وقف بورڈ کے ارکان چاہتے ہیں کہ موجودہ سی ای او شاہنواز قاسم کو ہٹادیا جائے۔

قانون وقف کے مطابق ڈپٹی سکریٹری رتبہ کا ایک مسلمان عہدیدار ہی ہمہ وقتی سی ای او ہونا چاہئے۔ اقلیتی اداروں کے لئے مسلم عہدیداروں کا ان دنوں کال پڑا ہوا ہے اور گنتی کے چند عہدیدار جو دیگر محکموں میں موجود ہیں ان میں بیشتر ان اداروں میں کام کرنے پر رضامند نہیں ہیں۔ایک عرصہ سے وقف بورڈ کے سی ای او کی ذمہ داری کسی مسلم عہدیدار کو سونپنے کے لئے حکومت کوشاں ہے مگر معلوم ہوا ہے کہ اس خصوص میں اس عہدہ کے لئے درکار اہلیت رکھنے والے عہدیداروں سے رابطہ پیدا کیا گیا تو تقریباً سبھی نے معذرت کرلی ہے۔

اس خصوص میں جب ہم نے مسلم عہدیداروں سے بات کی تو ان کا کہنا ہے کہ ان اداروں میں جو ملازمین ہیں ان میں زیادہ تر سفارش پر تقرر پائے ہوئے ہیں اور انہیں دفتریت سے کوئی سرورکار نہیں ہے اور جب آپ ان اداروں میں اصلاحات لانے اور ملت کی خدمت کے جذبہ کے ساتھ خلوص نیت اور دیانتداری سے کام کرتے ہیں تو داخلی اور خارجی ذرائع سے روڑے اٹکائے جاتے ہیں اور آپ پر دباؤ بنائے رکھا جاتا ہے۔

ان عہدیداروں نے بتایا کہ وقف بورڈ کے اسپیشل آفیسر کے طور پر، ایس اے ہدیٰ (آئی پی ایس)‘ جناب شفیق الزماں‘ ڈاکٹر محمد عارض احمد (آئی اے ایس)‘ ایس ایم اقبال (آئی پی ایس) اور جناب جلال الدین اکبر (آئی ایف ایس) جیسے مخلص عہدیداروں کو حکومت نے دباؤ میں آکر ہٹادیا اسی طرح محمد اسداللہ اور منان فاروقی اور عبدالحمید کو بھی حکومت نے دباؤ میں آکر ہٹادیا۔

علاوہ ازیں ڈپٹی سی ای او کے عہدہ پر جب صفی اللہ کو حکومت نے دو سال کے ڈیپوٹیشن پر بھیجا تو بورڈ نے قرار داد منظور کرتے ہوئے ان کی خدمات حکومت کو یہ کہتے ہوئے واپس کردی تھی کہ قانون وقف میں ڈپٹی سی او کے عہدہ کی صراحت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کوئی بھی مسلم عہدیدار، ان اداروں میں کام کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔