تعلیم و روزگارتلنگانہ
ٹرینڈنگ

اقلیتی اقامتی اسکولس کی طالبات کے یونیفام سے دوپٹہ غائب

حکومت کی تبدیلی کے ساتھ اداروں کے ذمہ دار اعلیٰ افسران کی تبدیلی ایک معمول ہے اور ہر افسر کی ترجیحات اور کام کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔

حیدرآباد: حکومت کی تبدیلی کے ساتھ اداروں کے ذمہ دار اعلیٰ افسران کی تبدیلی ایک معمول ہے اور ہر افسر کی ترجیحات اور کام کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔

حکومت کی تبدیلی کے ساتھ اقلیتی اداروں کے سربراہ بھی تبدیل ہوگئے مگر اقلیتی اقامتی اسکول میں زیر تعلیم لڑکے اور لڑکیوں کا یونیفام بھی تبدیل ہوگیا۔ یونیفام میں صدری کا اضافہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے لڑکیوں کے یونیفام میں اب دوپٹہ شامل نہیں رہا ہے جس کی وجہ سے مسلم والدین کو یونیفام پر اعتراض ہوسکتا ہے۔

اس خصوص میں ایک ملی تنظیم کے نمائندوں نے سکریٹری ٹمریز سے ملاقات کرتے ہوئے لڑکیوں کے یونیفام میں دوپٹہ اور اسکارف کو شامل کرنے کے لئے نمائندگی کی مگر انہیں یہ کہتے ہوئے مایوس لوٹادیا گیا کہ اعلیٰ افسران نے یہ فیصلہ کیا ہے اور وہ اس میں تبدیلی کی مجاز نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ ٹمریز میں مسلم بچیوں کے داخلہ کے لئے اب تک انتظامیہ کی جانب سے ادارہ میں زیر تعلیم لڑکیوں کی ایسی تصاویر پیش کی جاتی تھیں جن میں وہ نہ صرف دوپٹہ اوڑھے ہوتی ہیں بلکہ ان کے سروں پراسکارف بھی ہوا کرتا تھا۔ اب جس نئے یونیفام کو منظوری دی گئی ہے اس پر بہت سے والدین کو اعتراض ہوسکتا ہے مگر ہمارے آزاد خیال افسروں کو شائد اس کا ادراک ہی نہیں ہے کہ مسلم برادری‘ لڑکیوں کی عفت کے بارے میں بہت حساس ہوتی ہے۔

تلنگانہ مائنارٹیزریسیڈنشیل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس سوسائٹی (ٹمریز) کے تحت اقامتی تعلیمی اداروں کا قیام‘ اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو معیاری تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے مقصد سے عمل میں آیا تھا اور حکومت نے یہ تیقن دیا تھا کہ ان اداروں میں تعلیم پانے والے بچوں کے لئے مذہبی تعلیم کا انتظام بھی کیا کھا جائے گا اور ان کے مذہبی و ثقافتی تشخص کو برقرار رکھا جائے گا۔

مسلم برادری جو بچیوں کے معاملہ میں بہت زیادہ حساس ہوتی ہے‘ وہ حکومت کی جانب سے دئیے جانے والے ٹھوس تیقنات خاص کر ان بچیوں کی عفت کی حفاظت کا مؤثر انتظام کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکیوں کے ہاسٹل میں کسی مرد کو داخلہ کی اجازت نہیں دی گئی ہے‘ حتیٰ کہ تکنیکی کاموں کی انجام دہی کے لئے مرد حضرات کی ضرورت ناگزیر ہوتی ہے انہیں بھی کسی خاتون عملہ کے بغیر ہاسٹل کے اندرونی حصہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔

ابتدائی چند برسوں تک صورت حال بہت بہترتھی مگر ان اداروں میں مستقل تقررات کئے گئے تو نوے فیصد سے زائدعہدوں پرغیر اقلیتی برادری کے لوگ فائز ہوگئے جنہوں نے اپنے عہدے سنبھالنے کے ساتھ ہی اپنا کلچر بچوں پر تھوپنے لگے جس پر مسلمانوں کے ایک گوشہ کی جانب سے اعتراض کیا جاتا رہا ہے۔

اب اگر لڑکیوں کے یونیفام سے دوپٹہ غائب کردیا جائے تو نہ صرف داخلوں پر برا اثر پڑسکتا ہے بلکہ والدین پہلے سے وہاں زیر تعلیم بچیوں کو ان اسکولس اور کالجس کو بھیجنے کے بارے میں تردد کاشکار ہوجائیں گے۔ ٹمریز کے افسران کو یہ جان لینا چاہئے کہ مساجد کے منبروں اور علمائے کرام کی جانب سے ٹمریز میں بچوں کو داخلہ دلانے کی اپیلوں کا ہی اثر ہے کہ آج مسلمان اپنی بچیوں کو اقامتی اسکولس میں داخل کروانے پر آمادہ ہیں اگریہی صورت حال رہی تو کسی بھی مسجد کے منبر سے ٹمریز میں داخلہ دلانے کی ترغیب نہیں دی جائے گی۔

دوپٹوں اور اسکارف کی بجائے صدری کے لزوم کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ جن عمارتوں میں یہ اسکولس اور کالجس کام کرتے ہیں وہاں ایر کنڈیشنڈ کلاس رومس نہیں ہیں اور موسم گرمامیں صدری کے استعمال کی وجہ سے لڑکیاں پسینے میں شرابور ہوجائیں گی اور وہ گرمی برداشت نہ کرتے ہوئے صدری نکال دینے پر مجبور ہوجائیں گی۔ اس لئے انتظامیہ چاہئے کہ اس کو انا کا مسئلہ نہ بنائے اور اپنے فیصلہ پر نظرثانی کرے۔