الّو

ڈاکٹر سید عباس متقی
آپ نے الّو کو تو ضرور دیکھا ہوگا۔ایک غیر سماجی پرندہ ہے۔بھیانک شکل و صورت،چہرے کے گھنے بال و پر میں ابلی ہو ئی آنکھیں اوراپنے شکار پر لگی ہو ئی خونخوار نگاہیں، خطرناک مڑی ہوئی چونچ،مضبوط اور جان لیوا پنجے اور ان مضبوط پنجوں میں روح کو مجروح کرنے والے ناخن جو معصوم پرندوں کے لیے موت کا ناقوس ثابت ہوتے ہیں۔ڈراؤنا چہرہ جسے دیکھ کر شریفوں کے بدن میں جھرجھری پیدا ہو جاتی ہے۔گردن کے بغیر اِدھر سے اُدھر گھومتا ہوا سر۔اس کی شان انفرادیت تو دیکھو ”ہوں ہوں“کا نعرہ لگاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ فنا فی اللہ کے مرتبے پر فائز ہے۔کہیں خود کے وجود کے احساس کے ساتھ بھی کو ئی با خدا ہو سکتا ہے۔ ساری دنیا ایک طرف ہوتی ہے اورالو ایک طرف ہو تاہے۔سارے پرندے گلشن آب وگِل میں مل جل کر دانہ دنکا چگتے ہیں،چہچہاتے ہیں اور خدا کی حمد و ثنا کے گیت گاتے ہیں اور یہ سماج اور سماج کی بے پناہ نعمتوں سے بے پرواہ کسی ویرانے میں،کسی خراب خانے میں،کسی شاخ بے برگ و بار پر بیٹھابھیانک آواز نکالتاہے جسے سن کر پرندوں کے بچے اپنی ماؤں کے پروں میں منھ چھپالیتے ہیں اور ان کے باپ ان کی ماؤں کے بال و پر میں اپنا منھ چھپالیتے ہیں اور بہت دیر تک باہر نہیں نکالتے۔انفرادیت کی مالا جپتا ہے۔چاہتا ہے کہ اس کی ہیت سے معصوم پرندے دھوکہ کھائیں اور پھر وہ دھوکہ کھانے والوں کو کھاجائے۔الو ہو یا انسان ہر دھوکہ کھانے والے کو کھاجاتا ہے۔پتا نہیں چالاک ملاؤں کی صفت اس کے اندر کہاں سے پیدا ہو گئی ہے۔لوہے کے گرم ہو نے تک زاہد خشک بنا محو تسبیح رہتا ہے اور جوں ہی روح معصوم تغافل کا شکار ہو ئی اور اس نے کچھ ایسا حملہ کیاکہ وہ کسی کو منھ دکھانے کے لائق نہیں رہی بلکہ اس کا وجود ہی نہیں رہا۔ظاہر ہے کہ جب ظریفوں کے چغہئ فریب میں آکر عقلاء بازی ہار جاتے ہیں تو معصوم ارواح کس شمار میں ہوتی ہیں۔ تاہم دیوانہ بکار خویش ہشیار کے مصداق الو یہ خوب سمجھتا ہے کہ عصمت کا سودا ہو نے کے بعد زندگی بے سود ہو تی ہے۔اس لیے وہ ہر منظر کو پس منظر کردیتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ انسان نے نظر آنے والے اور خدانے نظر نہ آنے والے کیمرے لگا رکھے ہیں جو رتی رتی سے خبردار ہیں اور خبردار کرنے والے ہیں۔یہ عکس گیراشیاء ہرہر منظر کو قید کرلیتے ہیں اور پھر دور کی کوڑی لانے والے کتے شکار کی بو سے شکار تک پہنچ جاتے ہیں اور الو اپنی تمام فراست موہوم کے باوجود پولیس کے ہتے چڑھ جاتاہے۔تنہائی کا رسیا تھا مدتوں تنہائی جھیلتا ہے۔یہ آج کا شاخسانہ نہیں ہر دور میں الو رہے ہیں اورہر الو کا یہی انجام رہا ہے۔ہر گستاخ کے لیے دریئے نیل کی موجیں مدام مضطرب رہتی ہیں کہ کب کوئی الو کچھ کہہ دے اور کوئی الو کچھ لکھ دے اور وہ اپنی دردناک موجوں میں اسے گھیر کر کیفر کردار تک پہنچا دے۔ہم تو ان سراپا چغد قلم کاروں سے بھی شدید خفا ہیں جوسرکاردوعالم ؐ کو محض نبی کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور نبی کریم ؐلکھنے سے ان کے ہاتھ شل ہو جاتے ہیں۔تعجب تو یہ ہے کہ یہ الواپنے باپ کو تو صاحب اور جناب لکھتا ہے لیکن اپنے رسول کو صرف ”نبی“لکھتا ہے اور نبی کریم یا نبی آخرالزماں لکھنے سے روتا ہے۔کم بخت اپنے ماموں کو تو ماموں جان لکھتا ہے،والد کو تو والد گرامی قدر لکھتا ہے لیکن جس کے صدقے میں وہ مسلمان ہے اس بزرگ و برتر ہستی کے لیے صرف نبی لکھ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ یاد باد کہ جس طرح زبان دل کا آئینہ ہو تی ہے بعینہ قلم قلب کا آئینہ ہوتا ہے۔ محبتیں ہو ں کہ عداوتیں لفظوں کی متلاشی ہو تی ہیں۔الوؤں کو کیا معلوم کہ شہنشاہوں کے نام کس عزت و احترام سے لیے جاتے ہیں اور شہنشاہوں کے شہنشاہ،یہاں تو زبان تھراتی ہے،لفظ لرز جاتے ہیں کہ کہیں کوئی لفظ شان مصطفوی کے مغائر نہ ہو جائے۔عقلا ء خوب جانتے ہیں کہ خدا نے دشمنوں کی اتباع میں لفظو ں کے انتخاب سے تک منع فرمایا ہے۔جس نے ”راعنا“کہنے سے تک منع کیا ہو اس کا منشا اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ زبان پہلے لفظ تولے پھر بارگاہ پیغمبری میں کھولے۔الو کو اس سے کیا غرض جو منھ میں آیا کہہ دیا خواہ وہ لفظ اسے جہنم رسید ہی کیوں نہ کردے۔ویران شاخ پر بیٹھ کراپنے وجود کا ورد کرنے والے الو کو کیامعلوم کہ چاہنے والوں نے بارگاہ پیغمبری میں کیاکچھ نہ بہ عنوان ادب عرض کیاہے،الو کو فارسی سے کیامطلب وہ تو کرسی کا طالب اور نام کا رسیا ہو تا ہے۔کفر نے الو کو اس لائق بھی کہاں رکھا ہے کہ وہ جامی کی حامی بھر سکے کہ اس عاشق مصطفی نے کیاکہا تھا
ہزار بار بشویم دہن ز مشک و گلاب ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبیست
الو کو کیامعلوم کہ پیغمبر کی شان تو بہت اعلی ٰ و ارفع ہو تی ہے خدا نے تو والدین کے لیے دو حرفی لفظ ”اف“کو گوارا نہ فرمایا۔مبتلائے کفر الوؤں کو اقدار عالیہ سے کیا علاقہ۔الو کے پٹھے یہ کہتے ہیں کہ اتنی سی بات سے کیا ہو تاہے تو ہم کہتے ہیں کہ ”طلاق ”کہنے سے کیا ہو تا ہے،بیوی سے بول دے۔مگر الو اتنا چالاک بھی ہے کہ وہ لفظ کی اہمیت کو خوب جانتا اورسمجھتا ہے لیکن مان کر نہیں دیتا۔
اگرچہ الو کہاں اور عقاب کہاں، لیکن الو کی نگاہ عقاب کی طرح تیز ہو تی ہے۔وہ سرسراتی جھاڑیوں میں سرکتے چوہے کو با آسانی دیکھ لیتاہے اور دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ایسا تیر کی طرح آجھپٹتاہے کہ چوہے کی جان الو کے گھنے پنکھوں میں پھنس جاتی ہے۔کم بخت معصوم چوہے کوسالم ہی نگل جاتا ہے۔ا س کی چونچ چوہے کے حجم کو خاطر میں نہیں لاتی اور جس قدر چاہے کھل جاتی ہے۔
تر نوالوں کو دیکھ کر چونچ کو اپنی حدوں تک کھول دینا یہ صرف الوؤں ہی کا وتیرہ نہیں اشرف المخلوقات کہلانے والے بھی کچھ ایسا کر گزرتے ہیں۔ایک قاضی کو ہم نے دیکھا کہ ایک لندن ریٹرن سے اچھی خاصی رقم اینٹھ رہا تھا۔ہم نے پوچھا قاضی جی یہ کیا لو ٹ مار ہے۔آپ قاضی ہیں کوئی پاجی نہیں۔کہنے لگے قبلہ!اگر لند ن ریٹرن رئیس سے بھی کچھ من چاہی رقم نہ توڑ لوں تو خود میں لندن نہ کہلاؤں گا۔قاضی جی نے لندن سے پہلے ایک خاص لفظ بھی ارشاد فرمایا تھا جو عموماً لندنی استعمال کرتے ہیں۔یہ سن کر ہم نے چپ سادھ لی کہ شکر کے موقع پر شکرنجیاں اچھی معلوم نہیں ہوتیں۔
الو اتنا بے حیا ہو تا ہے کہ آپ الو کو کتنا ہی الو بلکہ الو کا پٹھا کہیں اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور اگر رینگنے کا سلسلہ اپنی تہہ تک بھی پہنچ جائے تب بھی اسے کوئی احساس نہیں ہو گا کہ وہ بارگاہ بے کس پناہ میں غیر شائستہ لفظ کہے یالکھے ہیں۔وہ الو ہے اسے جس بات سے روکا جاتا ہے وہی بات کہتاہے۔اپنے دل کا راجہ ہے منحوسیت کا چغہ پہن رکھا ہے۔شیطان کی طرح مستقل مزاج واقع ہوا ہے۔ ایک بات کہہ کر جوتے کھائے تھے پھر وہی بات کہہ کر لات کھاتا ہے۔ہمیں اس موقع پر وہ کارٹونسٹ یاد آرہاہے جس نے نبی آخرالزماں کا کارٹون بنایا تھا خدا نے نذر آتش کردیا اور جل جلاکر خودوہ ایک کارٹون بن گیا، وہ اس درجہ جل گیا تھا کہ جس عضو کو پکڑتے وہ ہاتھ میں آجاتا تھا۔نازک اعضا تو تھے ہی نہیں کہ پکڑ میں آسکتے۔تعجب خیز امر یہ ہے کہ الوؤں کا عبرت ناک انجام دیکھ کر بھی الوؤں کو عبرت بھی نہیں آتی۔الوجو ٹہرے، منھ اٹھائے بک پڑتے ہیں۔جو آیا لکھ مارتے ہیں۔الو کی حماقت ملاحظہ ہو کہ وہ ا پنے حمق کو بہادری سے اور گستاخی کو حق بیانی سے تعبیر کرتا ہے۔ بارگاہ نبوی ؐ میں جب اس کی گستاخیاں دیکھتے ہیں تو عقلائے عالم کہتے ہیں کہ اے الو کے پٹھے،آفتاب عالم تاب کی گستاخیوں سے پرہیز کر،شاہ خاور کی شان اقدس میں اپنی گندی زبان کھولنے سے باز رہ تو وہ عقلائے عالم کی بات نہیں مانتا اور اپنے پیرو مرشد حضرت العلامہ ابلیس علیہ اللعنہ کے نقش قدم پرچلتا ہے اور آخرش جہنم رسید ہو جاتا ہے۔ظاہر ہے کہ گستاخ رسول کو جنت سے کیا علاقہ اگرچہ علاقوں کے علاقو ں کو اپنا مریدہی کیوں نہ کیاہو۔
الو کے سب ہو تا ہے گردن نہیں ہوتی۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غریب کی سر پر دھڑ رکھ دیاگیاہے۔جس الو نے اہل اسلام کو اذیت پہنچائی ہے اس کے بھی گردن نہیں ہے۔اسے دیکھنے کے بعد یوں لگتا ہے جیسے کسی گینڈے کے دھڑپر ہاتھی کا سر رکھ دیاگیاہے اور اس پر شیطان اسے راہ نحوست کی جانب ہانک رہاہے۔ویسے بھی ہر گستاخ کی گردن نہیں ہو تی یا پھر طوق لعنت کی گرانی کے سبب گردن دکھائی نہیں دیتی۔اس موقع پر ہمیں ایک بہت بڑا الو یا د آرہاہے،وہ مملکت نحوست کا راجہ تھا۔پتا نہیں اسے کیا سوجھی کچھ اچھا اچھا ہی لکھ رہا تھا اچھا لکھتے لکھتے جو قسمت خراب ہو ئی توکچھ ایسا برا لکھدیا مانو بالٹی بھر دودھ میں ایک تازہ مینگنی چھوڑی ہو۔بھلے ہی وہ وہی وہانوی یا یہی یہانوی کے افسانے لکھ مارتا لیکن بارگاہ مصطفوی میں زبان درازی سے محفوظ رہتا۔اب یہی دیکھیے کہ الو ؤں کے سردار نے اپنی کتاب میں معلم کائنات کو انپڑھ اور پیغمبر آخرالزماں کو چرواہا لکھ کر اپنی مٹی پلید کرلی۔نرا الو تھا اپنی گستاخی پر اڑا رہا۔اہل ایمان چیختے چلاتے رہے کہ کم بخت کیوں شیطان بننے پر تلا ہو اہے۔توبہ کرلے،عالم اسلام تجھ سے خفا ہے،اپنی بکواس سے رجوع کر لے،شیطان نے بھی کبھی رجوع کیاہے۔عدم توبہ ہی کی حالت میں ملک عدم کو سدھار گیااور اپنے پیچھے بے وقوف الوؤں کا ایک جم غفیر چھوڑ گیا۔ظاہر ہے کہ الوکی اتباع الوہی تو کریں گے۔کچھ ہو ہم ابلیس کی وعدہ وفائی کے قائل ہو گئے کہ اس نے خدا سے جو وعدہ کیا تھا کہ وہ خدا کے بندوں سے جہنم کو بھر دے گا، اسے وفا کرنے میں رمق برابر کسر نہیں چھوڑی۔گستاخوں کو وادی جہنم مبارک ہو۔پتا نہیں الو کے ذکر کے ساتھ ہی ہیں رہ رہ کر وہ الو بھی یاد آرہاہے جس نے بارگاہ قدسیت میں پہلی گستاخی کی تھی اور رسول خدا کے سامنے ترش لہجے میں کہا تھا کہ”اعدل یا محمد ؐ“۔ہم سوچتے ہیں کہ اس کم بخت کو حیا کیوں نہیں آئی کہ جس کے قدموں کی خاک کا ہر ذرہ عدل و انصاف کا پیغام دیتا ہو اگر وہ عدل نہ کرے گاتوپھر اس کائنات میں کون ہے جو عدل کرے گا۔کم بخت نرا الو تھا، اگر الو نہ ہوتا تو رسول خدا ؐ کو اذیت کیوں پہنچاتا۔کہتے ہیں کہ اس مردود کے بھی گردن نہیں تھی۔حرص کے سبب پیٹ آگے نکل آیا تھا،تھوتھنی لٹکی ہوئی تھی۔کم بخت سر کو منڈوائے ہوئے تھا اور اپنی لنگی کو پنڈلی تک اٹھارکھی تھی۔چہرہ سیاہ تھا اور لعنت کے سبب مزید سیاہ ہو گیا تھا۔کولھے کافی دور تک نکلے ہو ئے تھے۔دہانہ پھیلا ہو ا تھا گویا جہنم کو دیکھ کر مسکرارہاہو۔صحابہ کرام اس کی اس گستاخی کو دیکھ کر چراغ پا ہو گئے اور یہ چراغ پائی محبت کی پہچان ہے،اسے جہنم رسید کرنے کی درخواست کی لیکن رحمت للعالمین نے اس کی جان بخش دی لیکن گستاخوں کی نشانی بتادی کہ اس کی نسل میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کی عبادات دیکھ کر تم اپنی عبادتوں کو ہیچ جانوگے، لیکن ان کا ایمان حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔یعنی وہ کم بخت نرے الو ہو ں گے۔ قران پاک کی تفسیر کریں گے لیکن ”زباں نے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل دل و نگا ہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں“کی خود تفسیر ہو ں گے۔
از خدا خواہیم توفیق ادب بے ادب محروم ماند از فضل رب