انٹرٹینمنٹ

کامیڈی کنگ محمود: 29 ستمبر یوم پیدائش کے موقع پر خصوصی پیشکش

بچپن کے دنوں سے ہی محمود کا رجحان اداکاری کی جانب تھا اور وہ اداکار بننا چاہتے تھے۔ اپنے والد کی سفارش سے محمود کو بامبے ٹاکیز کی سال 1943 میں آئی فلم قسمت میں اداکار اشوک کمار کے بچپن کا کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔

ممبئی: اپنے مخصوص انداز ،تاثرات اور آواز سے تقریباً پانچ دہائی تک ناظرین کو هنسانے والے محمود نے فلم انڈسٹری میں ’کنگ آف کامیڈی‘ كا درجہ حاصل کیا لیکن انہیں اس کے لیے کافی جدوجہد کرنی پڑی تھی اور یہاں تک سننا پڑا تھا کہ وه نہ تو اداکاری کر سکتے ہیں اور نہ ہی کبھی اداکار بن سکتے ہیں۔

چائلڈ آرٹسٹ سے کامیڈین کے طور پر شروعات کرنے والے محمود کی پیدائش 29 ستمبر 1932 کو ممبئی میں ہوئی تھی۔ ان کے والد ممتاز علی بامبے ٹاكيز ا سٹوڈیو میں کام کیا کرتے تھے۔ گھر کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے محمود ملاڈ اور ورار کے درمیان چلنے والی لوکل ٹرینوں میں ٹافیاں فروخت کرتے تھے۔

بچپن کے دنوں سے ہی محمود کا رجحان اداکاری کی جانب تھا اور وہ اداکار بننا چاہتے تھے۔ اپنے والد کی سفارش سے محمود کو بامبے ٹاکیز کی سال 1943 میں آئی فلم قسمت میں اداکار اشوک کمار کے بچپن کا کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔

اس دوران محمود نے کار ڈرائیو کرنا سیکھا اور پروڈیوسرگیان مکھرجی کے یہاں بطور ڈرائیور کام کرنے لگے کیونکہ اسی بہانے انہیں مسٹر مکھرجی کے ساتھ ہر دن اسٹوڈیو جانے کا موقع مل جایا کرتا تھا جہاں وہ فنکاروں کو قریب سے دیکھ سکتے تھے۔ اس کے بعد محمود نے موسیقار گوپال سنگھ نیپالی، بھرت ویاس، راجہ مہندی علی خان اور پروڈیوسر پی ایل سنتوشی کے گھر پر ڈرائیور کا کام بھی کیا۔

محمود کی قسمت کا ستارہ تب چمکا جب فلم نادان .. کی شوٹنگ کے دوران اداکارہ مدھوبالا کے سامنے ایک جونیئر آرٹسٹ مسلسل دس ريٹیك کے بعد بھی اپنا ڈائیلاگ نہیں بول پایا۔ فلم ڈائریکٹر ہیراسنگھ نے یہ مکالمہ محمود کو بولنے کے لیے دیا جسے انہوں نے بغیر ریٹیک کے ایک ہی بار میں ادا کردیا۔

اس فلم میں محمود کو بطورمحنتانہ 300 روپے ملے جبکہ بطور ڈرائیور محمود کو ماہانہ 75 روپے ہی ملا کرتے تھے۔ اس کے بعد محمود نے ڈرائیور کا کام چھوڑ دیا اور اپنا نام جونیئر آرٹسٹ ایسوسی ایشن میں درج کرا دیا اور فلموں میں کام حاصل کرنے کے لئے جدوجہد شروع کردی۔ اس کے بعد بطور جونیئر آرٹسٹ محمود نے دو بیگھہ زمین، جاگرتی ،سی آئی ڈی، پیاسا جیسی فلموں میں چھوٹے موٹے رول کئے جن سے انہیں کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔

اسی دوران محمود نے اے وی ایم کے بینر تلے بننے والی فلم مس میری کے لئے اسکرین ٹیسٹ دیا لیکن وہ اسکرین ٹیسٹ میں فیل ہوگئے۔ ان کے بارے میں اے وی ایم کی رائے کچھ اس طرح تھی کہ وہ نہ کبھی اداکاری کرسکتے ہیں اور نہ ہی اداکار بن سکتے ہیں۔ بعد کے دنوں میں اے وی ایم بینر کی ان کے بارے میں نہ صرف رائے بدلی ساتھ ہی انہوں محمود کو لے کر بطور اداکار فلم ’میں سندرہوں ‘بھی بنائی ۔

اسی دوران محمود کمال امروہی کے پاس فلم میں کام مانگنے کے لئے گئے تو انہوں نے محمود کو یہاں تک کہہ دیا کہ ..آپ اداکار ممتاز علی کے بیٹے ہیں اور ضروری نہیں ہے کہ ایک اداکار کا بیٹا بھی اداکار بن سکے۔ آپ کے پاس فلموں میں اداکاری کرنے کی قابلیت نہیں ہے۔ آپ چاہیں تو مجھ سے کچھ پیسے لے کر کوئی کاروبار کر سکتے ہیں ۔

اس طرح کی بات سن کر کوئی بھی مایوس ہو سکتا ہے اور فلم انڈسٹری کو الوداع کہہ سکتا ہے لیکن محمود نے اسے چیلنج سمجھا اور نئے جوش و خروش کے ساتھ کام کرنا جاری رکھا۔ اسی دوران انہیں بی آر چوپڑا کیمپ سے بلاوا آیا اور فلم ایک ہی راستہ .. کیلئے کام کرنے کی پیش کش ہوئی ۔

محمود نے محسوس کیا کہ اچانک اتنے بڑے بینر کی فلم میں کام ملنا محض ایک اتفاق نہیں ہے اس میں ضرور کوئی بات ہے۔ بعد میں جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ فلم انہیں اپنی بیوی کی بہن مینا کماری کی کوشش سے حاصل ہوئی ہے تو انہوں نے فلم ایک ہی راستہ میں کام کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ فلم انڈسٹری میں اپنے بل بوتے پر اداکار بننا چاہتے ہیں نہ کہ کسی کی سفارش پر۔

اس دوران محمود نے جدوجہد کرنا جاری رکھا۔ جلد ہی ان کی محنت رنگ لائی اور سال 1958 میں آئی فلم پرورش .. میں انہیں ایک اچھا کردار مل گیا۔ اس فلم میں انہوں نے راج کپور کے بھائی کا کردار اداکیا۔ اس کے بعد انہیں ایل وی پرساد کی فلم چھوٹي بہن میں کام کرنے کا موقع ملا جو ان کے فلمی کریئر کے لئے اہم فلم ثابت ہوئی۔

فلم چھوٹی بہن میں بطور محنتانہ انہیں کو 6000 روپے ملے۔ فلم کی کامیابی کے بعد بطور اداکار محمود فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس فلم میں ان کی اداکاری کی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا نے کافی تعریف کی تھی۔

سال 1961 میں محمود کو ایم وی پرساد کی فلم سسرال .. میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد بطور کامیڈین محمود فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ فلم سسرال میں ان کی جوڑی اداکارہ شوبھا کھوٹے کے ساتھ کافی پسند کی گئی۔ اسی سال انہوں نے اپنی پہلی فلم چھوٹے نواب بنائی ۔ اس کے ساتھ ہی اس فلم کے ذریعہ انہوں نے آر ڈی برمن عرف پنچم دا کو بطور موسیقار فلم انڈسٹری میں پہلی بار پیش کیا۔

اپنے کردار میں آئی یکسانیت سے بچنے کیلئے محمود نے اپنے آپ کو مختلف قسم کے رول میں پیش کیا۔ اسی ترتیب میں سال 1968 میں آئی فلم ’پڑوسن ‘کانام سب سے پہلے آتا ہے۔فلم پڑوسن میں محمود نے منفی مگر مزاحیہ کردار ادا کیا اور ناظرین کو متاثرکرنے میں کامیاب رہے۔ فلم میں ان پر فلمایاگیا ایک گانا ایک چتر نار کرکے شرنگار .. کافی مقبول ہوا۔

سال 1970 میں آئی فلم همجولي میں محمود کی اداکاری کاانوکھا انداز ناظرین کو دیکھنے کو ملا۔ اس فلم میں انہوں نے ٹرپل رول ادا کیا اور ناظرین کی توجہ اپنی طرف کھینچی۔انہوں نے کئی فلمیں بنائیں اور ہدایت بھی کی اور کئی فلموں میں اپنی گلوکاری سے بھی ناظرین کو اپنا دیوانہ بنایا۔

محمود کو اپنے فلمی کریئر میں تین بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اپنے پانچ دہائی طویل فلمی کریئر میں تقریباً 300 فلموں میں اداکاری کا جوہر دکھا کر محمود 23 جولائی 2004 کو اس دنیاسے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئے۔