مضامین

’امرت کال‘ کے اس بجٹ سے معیشت کو کوئی خاص راحت نہیں

ایم کے وینو

بجٹ2023-24 نجی سرمایہ کاری اور روزگار کے فروغ میں تقریباً ایک دہائی کی سست روی کے بعد شخصی انکم ٹیکس کی رعایتوں کے ذریعے متوسط طبقے کے ہاتھ میں زیادہ پیسہ دے کر سرمائے کے اخراجات اور کھپت کی مانگ کو بڑھانے کی آخری کوشش ہے۔ 7 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں لگے گا۔ یہ بہ مشکل ہی پہلے ہی مہنگائی سے نبرد آزما متوسط طبقے کی حقیقی آمدنی کے لیے افادیت بخش ہو گا۔ حکومت نے اپنے سرمائے کے اخراجات کے بجٹ کو بھی 33 فیصد بڑھا کر 10 لاکھ کروڑ روپے کر دیا ہے۔ لیکن کیا یہ سب معیشت کو مثبت طور پربدل دے گا؟ جیسا کہ ہم نے حالیہ برسوں میں دیکھا ہے، صرف سرکاری سرمائے کے اخراجات میں اضافہ کوئی کارگر تدبیر نہیں ہے۔
میرے خیال میں، بجٹ 2023-24 صرف اس لیے اچھا ہے کہ یہ عالمی معیشت میں ممکنہ سست روی کے پس منظر اور غیر معمولی طور پر سخت مالیاتی پالیسی سے بلند افراط زر کا مقابلہ کرنے میں مصروف ترقی یافتہ ممالک کا سامنا کر سکتا ہے۔ عالمی شرح نمو کے 2022کے 3.4 فیصد سے 2023 میں2.9 فیصدتک گرنے کے آئی ایم ایف کی پیش گوئی سے ہندوستان شاید ہی بچ سکتا ہے۔ ہندوستان کے جی ڈی پی گروتھ کا تخمینہ 2023-24 کے لیے 6.1فیصد ہے، جو پچھلے مالی سال کے 6.8فیصد سے کم ہے۔
اگر اس طرح سے سوچا جائے تو ہندوستانی بجٹ جو 2024 کے عام انتخابات سے قبل مودی حکومت کا آخری بجٹ ہے، میں ترقی اور روزگار کے حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مودی حکومت کے نو سالوں میں نجی سرمایہ کاری اور روزگار میں جمود ہی نظر آیا ہے۔ حکومت اب کھلے عام اعتراف کر رہی ہے کہ بے شمار ٹیکس اور دیگر مراعات کے باوجود 2019 سے نجی سرمایہ کاری نہیں آ رہی ہے۔
بجٹ سے پہلے اقتصادی سروے کے جاری ہونے کے بعد نیتی آیوگ کے وائس چیئرمین سمن بیری نے اعتراف کیا کہ حکومت کی طرف سے سرمائے کے اخراجات میں اضافہ ضروری ہو گیا ہے، جس میں کارپوریٹ سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں۔ تاہم، تاریخ بتاتی ہے کہ نجی سرمایہ کاری کے بغیر ترقی اور روزگار کا اشاریہ پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ صرف عوامی سرمایہ کاری کافی نہیں ہوگی۔ ایک طرح سے گزشتہ نو سالوں میں مودی نامکس کی یہی کہانی رہی ہے۔ یہ دہائی نجی مینوفیکچرنگ سرمایہ کاری کے لیے کچھ خاص اچھی نہیں رہی۔
جس کی وجہ سے روزگار بھی ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔سی ایم آئی ای کے اعداد و شمار واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ 2019-20 سے ہر مالی سال میں معیشت میں کل روزگار 405-410 ملین کی حد میں مستحکم رہا ہے۔ صرف 2020-21 کے کووڈ سال میں تقریباً 386 ملین کی بڑی گراوٹ دیکھی گئی اور اس کے بعد سے کل روزگار میں کچھ بہتری آئی ہے، لیکن پھر بھی یہ 2019-20 کی سطح سے نیچے ہے۔ یہ جمود معیشت کے لیے کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔
مودی حکومت نے مینوفیکچرنگ اور روزگار کو فروغ دینے کے لیے کارپوریٹس کو بہت زیادہ سپلائی مراعات دینے کی کوشش کی ہے، لیکن پرائیویٹ سیکٹر نے سرمایہ کاری نہیں کی کیونکہ اسے لگا کہ ہر طرف مانگ نہیں بڑھ رہی ہے۔ مثال کے طور پر، دو پہیہ گاڑیوں کی فروخت کم و بیش وہی ہے جو پانچ سے چھ سال پہلے تھی۔ اگر پرامڈ کے نچلے حصے میں لوگوں کی آمدنی جمود کا شکار ہے تو مانگ کیسے بڑھے گی؟ اگر مانگ نہیں بڑھے گی تو نجی شعبہ سرمایہ کاری کیوں کرے گا؟ حکومت کئی سالوں سے اس خود ساختہ پریشانی میں پھنسی ہوئی ہے۔ کووڈ کے بعد نیچے کی 70 فیصد آبادی کی آمدنی اورزیادہ متاثر ہوئی۔
اس بجٹ کو چاہے کتنا ہی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے، پی ایم مودی کے اقتدار کے نو سال کی وراثت—مینوفیکچرنگ، نجی سرمایہ کاری اور روزگار میں جمود کی رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ایک اضافی مسئلہ بن گئی ہے۔ بنیادی ڈھانچے پر حکومتی اخراجات، اگرچہ کافی ہے، نجی سرمایہ کاری کی عدم موجودگی کا مقابلہ کرنے میں دور دور تک اہل نہیں ہے۔کم درمیانی آمدنی والے ملک میں وسائل کی کمی کو دیکھتے ہوئے سرکاریں صرف اتنا ہی کر سکتی ہیں۔
نتیجے کے طور پر، ہندوستان اس بڑے تضاد کے بیچ میں ہے جہاں حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ سب سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے، لیکن پھر بھی وہ 81 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو مفت راشن دینے کو مجبور ہے! اس کے علاوہ، حکومت کو روزگار کی ضمانت کے پروگراموں کے لیے نسبتاً زیادہ بجٹ مختص کرنا پڑ رہا ہے، جسے وزیر اعظم نے کانگریس کی اقتصادی پالیسیوں کی ناکامی کی علامت قرار دیا تھا۔
یہ تضاد ساختیاتی ہے اور ہندوستان کے سب سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت بننے کے بارے میں مسلسل مبالغہ آرائی کا سہارا لینے کے بجائے اس کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی بہت کام کیا جانا باقی ہے۔
اس حکومت کے 10ویں سال کی بجٹ تقریر میں جس ”امرت کال“ کا ذکر بار بار کیاجاتاہے، اس میں پہنچنا آسان ہے۔ اب تمام وعدے اگلے 25 سال کے لیے ملتوی کر دیے گئے ہیں، جیسا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر کے خطاب نے تجویز کیا تھا۔ پچھلے نو سالوں کی نجی سرمایہ کاری اور روزگار کا ریکارڈ ”امرت کال“ کے کسی فٹ نوٹ میں بھی درج نہیں ہوگا۔
٭٭٭