رشید پروین
شری امر ناتھ یاترا جاری ہے اور اب تک سر کاری اعداد و شمار کے مطابق لاکھوں یاتری درشن سے مستفید ہوچکے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ رواں رہے گا ، آپ کو یہ معلوم ہی ہے کہ پہلے ماضی قریب میں یہ یاترا کئی وجوہات کی بِنا پر چودہ پندرہ دنوں تک ہی محدود ہوا کرتی تھی اور یاتریوں کی تعداد کو بھی کئی ماحولیاتی تحفظات کی خاطر مانیٹر کیا جاتا تھا ، بہرحال اب یہ یاترا کھلی ہے اور ان تمام یاتریوں کی سہولیات اور ان کا سارا سفر آرام دہ اور آسان بنانے کی خاطر بہت سارے اور بے شمار اقدامات کئے جاتے ہیں ، جو ایک احسن قدم ہے ، لیکن کشمیر اور کشمیر سے باہر کچھ اس قسم کا تاثر قائم کیا جارہا ہے کہ شاید اب اس سرکار میں ہی یاترا اور یاتریوں کے آرام اور آسائش کا خیال رکھا جاتا ہے اور شاید یہ بھی گماں ہوتا ہے کہ اس سے پہلے یہ سفر نہ تو آسان تھا اور نہ ہی پوری طرح سے محفوظ۔ اس مذہبی فریضے میں اگر یہ تاثر پیدا کیا جائے اور پیدا کرنے کی کوشش ہوتو یہ ایک مذہبی معاملے اور اس سے جڑے ہوئے دوسرے نقطہ ہائے نگاہ کو سیاسی رنگ دینے کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے۔ جب کہ کشمیر کا صدیوں سے پورا ریکارڈ موجود ہے کہ کشمیری لوگ اس سفر میں یاتریوں کے ہمیشہ نہ صرف شانہ بہ شانہ چلتے رہے ہیں بلکہ ان کی ہر ہر آسائش اور سہولیت کا سرکاری اور غیر سرکاری طور پر خیال رکھتے آرہے ہیں ۔
اب کی بار آنریبل گورنر کے علاوہ دوسرے کلیدی عہدے داروں اور ارباب اقتدار نے بہ نفس نفیس بھی تمام سرکاری اقدامات کا جائزہ لیا اور آن سپاٹ بہت ساری مفید ہدایات اور احکامات بھی جاری کر دیے۔ اس میں ہر قدم پر عوامی تعاون میسر ہے اور اس کا احساس بھی کیا جارہا ہے اور اس عوامی جذبے کی سراہنا بھی کی جارہی ہے، لیکن میری توجہ کا مرکز سربراہ گرو یا مہنت ویپندر گری کا بیان ہے جس میں انہوں نے کہا اور اعتراف کیا ہے کہ ” کشمیری لوگ ہمیشہ یاتریوں کا ساتھ دیتے رہے ہیں ، تعاون کرتے رہے ہیں اور پیار و محبت کے ساتھ یاتریوں کے آرام اور سہولیات کا خیال رکھتے آئے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سلسلہ اسی طرح صدیوں سے چلتا آرہا ہے ۔“یہ کشمیری لوگ ہی ہیں جو انتہائی کٹھن اور مشکلات میں بھی کمزور و نحیف یاتریوں کو چار پائیوں پر سوار امر ناتھ گپھا کے درشن کراتے رہے ہیں ، اور یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ کشمیری عوام سے کبھی تاریخ میں کسی بھی یاتری کے خلاف کوئی ایسی حرکت سرزد نہیں ہوئی جس سے کسی یاتری کے جان و مال کو خطرہ لاحق رہا ہو ، اور پوری ملیٹینسی کی تاریخ میں شاید اس طرح کا ایک یا دو واقعے ریکارڈ ہوئے ہوں جن کی نہ صرف بڑے پیمانے پر عوام نے بلکہ اس وقت کی ملیٹنٹ آوت فٹوں نے بھی مذمت کی تھی۔ یہاں یاتری اور تمام غیر مسلم لوگ ، تنہا ہوں یا جماعت کی صورت میں اپنے آپ کومحفوظ پاتے ہیں ۔ بہرحال گرو مہنت ویپندر کے اس بیان کی روشنی میں یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ رواداری ، اخوت ، بھائی چارہ اورانسانیت کے بلند و بالا اقدار کی حفاظت اور ان کی نگہبانی کشمیری مسلماں کا طریق زندگی اور شیوہ ہی رہا ہے ۔
پہلے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ کو یاد دلاوں کہ سرزمین وادی کشمیر کو ۔کشمیری زباں میں (پیر وار ) کہا جاتا ہے جس کا ترجمہ صوفی ،سنتوں ، فقیروں ، ،اولیاکرام ، غوث،و اقطاب کا صحن یا آنگن ہی ہوسکتا ، ان بلند وبالا سادات اور غوث و اقطاب کی یہاں کثرت اور بڑی تعداد کو اس پس منظر میں آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی ؒ کے بارے میں تاریخی شواہد ہیں کہ ان کے ساتھ ختلان ، ا زبکستان ، سمر قند ، یار قند ، ، پکھلی وغیرہ سے سات سو سے زیادہ سادات باکمال، درویش ،و مومن واردِ کشمیر ہوئے ،جنہوں نے اسی سرزمین کی مٹی اپنی آخری آرام گاہوں کے لیے بھی پسند کی۔ اپنے حسن اخلاق ، پاکیزہ کردار سے ایمان اور اسلام کی شمعیں روشن کیں ۔ آج بھی ان کے مزارات اسی طرح مرجع نور اور محبت و خلوص کی آماجگاہیں بنی ہوئی ہیں، جس طرح سے اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتیؒ اور دہلی میں حضرت بختیار کاکی ؒ، اور حضرت نظام ا لدین ؒ ا تنی صدیوں سے آفتابِ امن و امان بنے ہوئے ہیں،جن کے در آستاں آج بھی بلا تفریق مذہب و ملت ، رنگ و نسل ، ذات پات ، اونچ نیچ اور کسی بھی قسم کی چھوت چھات کے سبھی روئے زمین کے بسکینوںکے لیے وا ہیں ۔
میں نے یہ چند سطور صرف اس لیے قلمبند کی ہیں کہ آپ سر زمین کشمیر کے امن و امان اور محبت و خلوص کی ان خوشبووں کا تھوڑا سا احساس ضرور کریں جو یہاں کے ذرے ذرے میں رچی بسی ہیں ۔ جموں و کشمیر سے متعلق ماضی قریب میں اور ابھی تک کہیں کہیں کچھ فرقہ پرست لوگ ایسے بیانات داغتے رہتے ہیں جو کشمیر کی ہزاروں برس کی تاریخ کے ساتھ کسی بھی طرح موافقت نہیں رکھتے ، میں یہ بات اس لیے دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ایسے بیانات اپنے پسِ منظر میں سر زمین کشمیر کی ”بو باس “ سے نہ تو ہم آہنگ ہیں اور نہ کوئی مطابقت رکھتے ہیں۔ تاریخی طور پر ۴۷ ۱۹ سے کشمیر کی اکثریتی مسلم آبادی کئی ایسے مرحلوں سے گزری ہے، جنہیں انتشار ، اضطراب اور عذاب مسلسل سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، لیکن یہاں آج تک کی تاریخ تک کسی ایک بھی ہندو مسلم فساد کا ریکارڈ موجود نہیں ۔ یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہاں کی مسلم اکثریت منافرت ، تعصب اور بغض سے آشنا ہی نہیں ۔ مسلم اکثریت ہر وقت اپنے ہندو بھائیوں کا استقبال کرنے اور انہیں پھر وادی میں اپنی روایات کے مطابق بودو باش کرنے کو کھلے دل سے خوش آمدید کہنے کو تیار بھی ہے اور یہ بھی حق ہے کہ وہ کشمیر کے گلستاں کو اس برادری کے بغیر نامکمل سمجھتے ہیں۔
مہاتما گاندھی کو اس زمانے میں بھی ہمارے ہاں بھائی چارے اور محبت کی فروزاں شمع کا احساس ہوا تھا جب تقسیم ہند کے دوران دونوں طرف سے منافرت کے شعلوں میں ہر چیز بھسم ہوتی دکھائی دی تھی ۔ جب گھٹا ٹوپ اندھیروں میں انسانیت ، محبت ، یگانگت اور اپنائیت کے سارے چراغوں نے دھویں کا کفن نہیں پہنا تھا،لیکن یہی سرزمین اس بات کا یقین دلارہی تھی کہ اس رات کی سنگینی ختم ہوگی اور سحر بھی ، یقینی طور پر نمودار ہوگی۔ کشمیر ۔بھائی چارے ،امن و شانتی کی عملی مثال اور گہوارہ ہے ،جس طرح بھارت میں صدیوں سے ہندو مسلم میل ملاپ ،یگانگت اور بھائی چارے نے ایک نئی تہذیب کو جنم دیا تھا جسے ہم اور آپ گنگا جمنی تہذیب سے مو سوم کرتے ہیں، جس پر کل تک سارے بھارت کو فخر حاصل تھا ، بالکل اسی طرح یہاں اس جنت بے نظیر میں سبھی طرح کے مذاہب اور ادیان کے ماننے والے ایک ساتھ ، ایک واحد گھرانے کی طرح رہتے آئے ہیں، آج بھی کسی اقلیتی فرقے کے فرد کو جو یہاں بودوباش رکھتا ہے، کسی مسلم سے کوئی خوف یا گزند نہیں پہنچی ہے۔ ہماری پنڈت برادری ۹۰ کی دہائی سے ملک کے دوسرے حصوں میں جا بسی ہے، لیکن آج بھی ایک اچھی خاصی تعداد ہندو برادری کی کشمیر میں موجود ، ہمارے ساتھ رہ رہی ہے اور افسوس کہ آنکھوں کے اندھے اتنا بھی نہیں دیکھ پاتے کہ جب بھی کوئی ہندو بھائی سورگباشی ہوتا ہے تواس کے اپنے نہیں بلکہ مسلم برادری کے لوگ اپنے کندھوں پر میت کو شمشان گھاٹ تک پہنچاتے ہیں ، غمزدہ کے گھر چار دن تک سوگ میں شامل رہتے ہیں اور تمام ہندو رسومات کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے اس گھرانے کے ساتھ ان کے دکھ درد میں شامل رہ کر ان کی ڈھارس بندھاتے ہیں ۔ یہ ایک بار فوٹو سیشن کی بات نہیں ، بلکہ پچھلے تیس برس سے ہر بار جب بھی کوئی ہندو برادری کا دوست گزرتا جاتا ہے تو یہی کچھ ہوتا ہے ، ہم آج بھی محبت اور اخوت کی روشنیوں میں نہاتے ہیں۔
بدقسمتی سے سارا بھارت الیکٹرانک میڈیا کا یرغمال ہوچکا ہے ،اور ہم وہی کچھ سوچتے ، سمجھتے ، بولتے ہیں جو یہ میڈیا ہمیں سمجھانا اور بلوانا چاہتا ہے ، زمانے کی گردش میں کئی منصوبوں کے تحت ہماری یہ برادری نقل مکانی پر مجبور ہوئی اور تب سے اب تک ان کی واپسی کے منصوبے اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ رہے کیوں کہ ایک تو اس کے پیچھے اب مضبوط سیاسی عوامل ہیں اور دوئم کچھ پارٹیاں اور لیڈر حضرات نے اپنی دکانیں ہی اسی ایک اشو پر کھول رکھی ہیں اور پھر مختلف ہندو لیڈروں اور مرکز نے ہندو برادری کی واپسی کو اتنا پیچیدہ بنایا کہ آج تک ان کی واپسی ممکن ہی نہیں ہوسکی، اور دوسری طرف ہندو برادی نے بھی ایک ساتھ کئی طرح کے فوائد اٹھاکر ان مراعات کو بر قرار رکھنے کی خاطر وادی آنے کا خیال ہی بھلادیا جو انہیں بحیثیت مائیگرنٹ حاصل ہیں۔ پھر جب سرکار کا یہ دعویٰ ہے کہ ملیٹینسی کا جنازہ نکل چکا ہے ، اور کشمیری عوام پہلی بار بلا خوف و خطر کے نہ صرف اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں بلکہ اب اس قوم کی نئی نسل بھی محفوظ و مامون اپنے مستقبل کو سنوارنے، سلجھانے میں مصروف ہے ، تو ہندو برادری سے وابستہ ا فراد جو یہاں آنا چاہتے ہیں،کس قسم کے خدشات یا تحفظات سے دوچار ہیں ؟ یہاں ہر طرف امن اور شانتی کا عالم ہے ، حالیہ جی 20 سے اس بات کو تقویت ملی ہے،لیکن افسوس کہ کچھ آوازیں اب بھی اٹھ رہی ہیں جو نامناسب بھی ہیں اور انتہائی غیر سنجیدہ بھی ہیں۔ کشمیری عوام اپنی ہندو برادری کا استقبال کرنے کے تیار ہیں ، جس طرح وہ محبت و احترام کے ساتھ ان لاکھوں یاتریوں کا کرتے ہیں ۔ کشمیر کی سیاسی فضاو¿ں کو اسی پسَ منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ بہت سارے وہ مسائل حل ہوں جو عوام کے بنیادی انسانی حقوق سے جڑے ہیں ۔