اوہام پرستی اور اسلام
اوہام پرستی ایک مذموم اور غیر شرعی رسم ہے، عقیدے کی ناپختگی اورایمان کی کمزوری کی علامت ہے، توہمات کی غلامی ایساسنگین مرض ہے جوخدائے وحدہ لاشریک لہ کے مختارکل اور قادر مطلق ہونے کاعقیدہ کمزور کردیتی ہے
مفتی محمد عبداللہ قاسمی
استاذ جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد
موبائل فون: 8688514639
اوہام پرستی ایک مذموم اور غیر شرعی رسم ہے، عقیدے کی ناپختگی اورایمان کی کمزوری کی علامت ہے، توہمات کی غلامی ایساسنگین مرض ہے جوخدائے وحدہ لاشریک لہ کے مختارکل اور قادر مطلق ہونے کاعقیدہ کمزور کردیتی ہے، انسان کی جبین شرافت کوداغ دار اور رسواکردیتی ہے، اور انسان کودردرکی ٹھوکریں کھانے کاپیش خیمہ ثابت ہوتی ہے،یہ توہمات ہی کی اسیری ہے جس کی وجہ سے انسان بعض مخلوقات کونفع ونقصان کا مالک سمجھنے لگتاہے،خاص اوقات کوکامیابی و ناکامی اورعزت وذلت میں موثرخیال کرنے لگتاہے۔
زمانہ جاہلیت اوراوہام پرستی: حقیقت یہ ہے کہ مخصوص اشیاء کوموثرحقیقی سمجھنا اوران سے نفع ونقصان کووابستہ کرلیناایک نوع کی غلامی ہے،اورزمانہ جاہلیت کے لوگوں کے نقش قدم پرچلنے کے مترادف ہے، زمانہ جاہلیت میں عرب لوگ بہت سے توہمات میں گرفتار تھے، اور اللہ جل شانہ کی پیداکردہ بعض چیزوں کونفع و ضررکامالک خیال کرتے تھے،ذیل میں اہل عرب کے بعض توہمات کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کیاجاتا ہے:
پرندے اڑاکرفال نکالنا: اہل عرب کوجب کوئی مہم درپیش ہوتی یاکسی جگہ سفرکرنا ہوتا یاکوئی اہم کام کرنے کا ارادہ ہوتا توپرندے کواڑاتے تھے، اگر پرندہ دائیں جانب اڑتا تواس سے نیک فال لیتے، اور سمجھتے کہ سفر کامیاب ہونے والاہے،اوراس کام میں خیروبرکت ہے، چنانچہ وہ کام کرڈالتے، اوراگرپرندہ بائیں جانب اڑتا تواس سے براشگون لیتے،اورسمجھتے کہ اس مہم اور سفرمیں نقصان ہونے والا ہے، چنانچہ اس سے گریز کرتے۔
صحرائی جنات کے بار ے میں تصور: اہل عرب کاایک خیال یہ تھاکہ صحراء میں کچھ جنات ہوتے ہیں جورنگ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،اوریہ مسافر کو نقصان پہونچانے اورانہیں راستہ سے ہٹانے کی قدرت رکھتے ہیں، چنانچہ جب یہ لوگ سفرکے دوران کسی صحراء میں قیام کرتے تو یوں پناہ مانگتے تھے: اعوذ بعظیم ہذاالوادی من الجن میں اس وادی کے جنات کے سردارکی پناہ مانگتا ہوں۔
صفراورشوال کی نحوست کاتصور: اہل عرب ماہ صفر کے حوالہ سے بھی عجیب قسم کے توہمات میں مبتلا تھے، ان کاعقیدہ تھاکہ اس مہینے میں بلائیں اورمصیبتیں نازل ہوتی ہیں، اور اس مہینے میں جوکام شروع کیاجائے وہ ناقص اور ناتمام رہتا ہے، اسی طرح یہ لوگ شوال کے مہینے کو بھی منحوس تصور کرتے تھے،اوراس کی وجہ یہ تھی کہ ایک مرتبہ ماہ شوال میں عرب میں طاعون کی ایک خوف ناک وباپھیلی تھی، جس میں ہزاروں لوگ لقمۂ اجل بن گئے تھے، اور سینکڑوں گھر ویران ہوگئے تھے،اس بناء پرعرب کے لوگ اس مہینہ میں خوشی کی تقریب منعقد کرنے سے گریزکرتے تھے۔
الوکومنحوس خیال کرنا: اسی طرح اہل عرب بعض جانوروں کو بھی منحوس اور نامسعود تصور کرتے تھے،مثلا الو کو منحوس اور نامبارک تصورکرتے تھے، اور اسے آفات وبلیات نازل ہونے کاذریعہ قرار دیتے تھے، ان کا عقیدہ تھاکہ الوجس گھرپربیٹھ جائے اس گھر والوں پر مصیبتیں نازل ہوتی ہیں،اور وہ پریشانیوں میں مبتلاہوجاتے ہیں۔
اسلام اور اوہام پرستی کا خاتمہ: جب اسلام کا آفتاب طلوع ہواتواسلام نے زمانہ جاہلیت کے ان بے ہودہ خیالات پرقدغن لگایا، اور لوگوں کے ان باطل اور غلط تصورات کی اصلاح فرمائی، اسلام نے سب سے پہلے مسلمانوں کے دلوں میں توحید باری کابے غباراور دوٹوک عقیدہ بٹھایا،کہ اللہ جل شانہ اپنی ذات اورصفات کے لحاظ سے یکتا وتنہاہیں،کوئی بھی مخلوق اللہ تبارک وتعالی کی ہمسرنہیں،اورنفع ونقصان کااختیارایک اللہ وحدہ لاشریک لہ کے ہاتھ میں ہے، پوری دنیاکی مخلوق کسی انسان کوفائدہ پہونچانے کے لئے جمع ہوجائے؛ لیکن اللہ جل شانہ کامنشانہ ہو تواس انسان کونفع نہیں پہنچ سکتا،اسی طرح پوری کائنات کے انسان وجنات کے کسی فرد بشر کو نقصان پہنچانے کے لئے اکھٹے ہوجائیں؛لیکن اللہ جل شانہ کی مشیت نہ ہو تواس انسان کابال بھی بیکا نہیں ہوسکتا، یہ وہ بنیادی تعلیم ہے جواسلام اپنے پیروکاروں کو دیتا ہے، ظاہرہے کہ عقیدہ توحید کماحقہ انسان کے دل میں رچ بس جائے، اور اس آفاقی تصورکارنگ انسان کے دل ودماغ پرچڑھ جائے تو اس طرح کے بے ہودہ تصورات کاوہ کبھی اسیرنہیں ہوسکتا، جاہلی توہمات اس کے عزم وارادے میں کبھی سدراہ ثابت نہیں ہوسکتے۔
آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے عرب سماج کو اوہام پرستی جن کے آہنی طوق سے عرب کے لوگوں کی گردنیں گراں بارہورہی تھیں،اورجن باطل تصورات نے ایک طرح سے ان کوغلام بنا رکھا تھا ان سے آزاد کیا،اور معاشرے کو توحیدکی شاہ راہ پر گامزن کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کے بے جا توہمات پرقدغن لگاتے ہوئے ارشادفرمایا:دوسروں کوبیماری لگنے کی کوئی حقیقت نہیں،بدشگونی کی کوئی حقیقت نہیں،ہامہ جانورکی کوئی حقیقت نہیں، اورصفرکے مہینے کے منحوس ہونے کی کوئی حقیقت نہیں۔(بخاری،حدیث نمبر:۵۳۱۶)ہامہ ایک جانورہے، اہل عرب کا خیال تھاکہ یہ مقتول کے سر سے پیدا ہوتا ہے، اور برابر فریاد کرتارہتاہے کہ مجھے پانی دو، یہاں تک کہ اس کامارنے والا مرجائے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دوٹوک انداز میں اس باطل خیال کی تردیدفرمائی ہے۔ایک حدیث شریف میں ہے: اسلام میں بدفالی اور بدشگونی کی کوئی حقیقت نہیں ہے، البتہ نیک فال اچھی چیزہے،صحابہ نے عرض کیا:نیک فال کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: اچھااورپاکیزہ کلام جوکسی سے سنے۔ (بخاری، حدیث نمبر: ۵۳۱۵) ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اچھے فال پسندکرتے تھے، اور بدشگونی کو ناپسندکرتے تھے۔ (ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۳۵۲۶)
ہماراسماج اوراوہام پرستی: بدقسمتی سے آج بھی ہمارے معاشرے میں بہت سے بیہودہ جاہلی تصورات پائے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے ہماری معاشرتی زندگی کاچین وسکون رخصت ہوگیا ہے، اورایک عجیب وغریب قسم کی بے اطمینانی اورانتشارمیں ہمارا سماج مبتلاہے ، چنانچہ ماہ صفرکو لوگ آج بھی منحوس اور نامبارک سمجھتے ہیں، اور اس میں خوشی وغمی کی تقاریب منعقدکرنے سے گریز کرتے ہیں، اسی طرح لوگوں میں یہ خیال پایاجاتا ہے کہ صفرکے ابتدائی تیرہ دن بہت سخت اورتیز ہوتے ہیں، ان دنوں میں بلائیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں،اسی لئے لوگوں میں یہ ایام تیرہ تیزی کے نام سے مشہورہیں،ان تیرہ ایام کے منحوس ہونے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان تیرہ ایام میں علیل رہے،جوان تیرہ دنوں کی نحوست کااثرتھا، حالاں کہ تاریخی روایات کاجائزہ لیاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض الوفات کا آغازماہ صفرکے آخری دنوں میں ہوا تھا، جو ربیع الاول کے ابتدائی بارہ دنوں تک رہا، پھراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیاسے رحلت فرماگئے؛لہذااس واقعہ کو بنیاد بناکر صفرکے ابتدائی تیرہ دنوں کومنحوس تصور کرنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے، دوسرے اگرتسلیم کرلیاجائے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں میں بیمار رہے تب بھی ماہ صفرکی نحوست کا تصور غلط ہے؛کیوں کہ بیماری اور تکلیف اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے بندوں کے حق میں رحمت ہے،اورانسان کے لئے سراپا خیر کا ذریعہ ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: مسلمان کوکوئی رنج،غم ،دکھ اور تکلیف پہونچتی ہے ،حتی کہ اگراسے ایک کانٹا بھی چبھ جائے تواللہ اس کی وجہ سے اس کے گناہوں کومعاف کردیتا ہے۔ (بخاری، حدیث نمبر: ۵۶۴۱) ایک حدیث شریف میں ہے: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاتون کی عیادت کی،اوراس سے دریافت فرمایا: کیا حال ہے؟ اس خاتون نے کہا:اللہ کاشکر ہے؛لیکن بخارنے مجھے تھکا دیا ہے، سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبرکرو؛ کیونکہ بخارآدمی کے گناہوں کواس طرح دور کر دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے زنگ کودورکردیتی ہے۔(الترغیب والترہیب)
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ امت مسلمہ کو غلط اور باطل افکار و نظریات سے محفوظ فرمائے، صحیح اور مضبوط اسلامی عقائد کا انہیں حامل بنائے۔ آمین ثم آمین۔٭