محمد صالح انصاری
گزشتہ چند دنوں سے ہندوستان کے ایک حصہ ریاست اُترا کھنڈ کے اُتر کاشی کے علاقہ سے آنے والی خبر حیرتناک اور ڈراؤنی ہے۔ اُتر کاشی کے علاقہ میں رہ رہے مسلمان اپنا گھر اپنا مکان، دکان سب کچھ چھوڑ کر کہیں اور جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ وہ سب مسلمان ہیں اور وہاں کے چند نفرت پسند لوگ ہندوستان کے ہندو مسلم اتحاد کو پسند نہیں کرتے۔ مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو اب نشانہ بنانا عام بات ہو گئی ہے۔ پہلے ماب لینچنگ، بچّہ چوری کے الزام میں مارا جاتا تھا۔ اب مسلم اقلیتی علاقوں سے مسلمانوں کو نفرت کی بنا پر بھگایا جا رہا ہے۔ یہ سب ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جس ملک کا آئین اپنے لوگوں کے جان اور مال کے تحفظ کی بات کرتا ہے۔ جس ملک کا آئین اپنے عوام کو مذہبی آزادی اور کہیں بھی کسی بھی حصہ میں قیام کرنے اور بسنے کی آزادی دیتا ہے۔
اُتر کاشی میں ہونے والے واقعات کے پیچھے نفرت کی ایک بڑی فیکٹری کام کر رہی ہے جس کو وقت کی حکومت کا مکمل تعاون حاصل ہے۔ ایسا اس لیے بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ وہاں سے موصول ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں ہندوتوا پسند لوگ مسلمانوں کے گھروں پر حملے کر رہے ہیں اور اُن کے کاروبار کو برباد کرنے اور اپنے نفرت کے اظہار میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔
یہ سب تب شروع ہوا جب اس علاقہ کی ایک نابالغ لڑکی کے اگوا کرنے کہ الزام عبید اور سینی نام کے دو لڑکوں پر آیا ۔ دونوں دوست تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ رہتے تھے۔ اس معاملہ میں عبید نام کے لڑکے کا جڑا ہونا اس علاقہ کے لوگوں کے لیے خاص کر مسلمانوں کے لیے مصیبت کا پہاڑ بن کر ٹوٹ پڑا۔ ایک تو ہماری نا اخلاقی کا مظاہرہ اور دوسرا ہمارا مسلمان ہونا اس علاقہ کے ہندتوا پسند لوگوں میں کانٹے کی طرح لگی۔ جس کے بعد محلہ کے بازاروں میں مسلم دکانوں کو نشان زد کر کے دھمکایا گیا، پوسٹر لگائے گئے اور ایک بڑی بھیڑ لاکر ان کے دکانوں پر حملے کیے گئے۔
اس پورے معاملے پر پولیس اہلکاروں کا رویہ بےحد مایوس کن رہا ہے۔ یہ بات اچھی رہی کی لڑکی کے اگوا ہونے کے فوراً بعد پولیس نے گناہگاروں کو گرفتار کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا لیکن وہاں کی پولیس ان نفرتی لوگوں کو قابو کرنے میں بلکل ناکام رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ علاقہ کے لوگوں کو راتوں رات اپنے گھر خالی کر کے جانے پڑے رہے ہیں۔ جس علاقہ کے لوگوں کو رات کے اندھیرے میں اپنے گھروں کو خالی کر بھاگنا پڑ رہا ہو، ان کے خوف اور دہشت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اس علاقہ کے بڑے بڑے مسلم بھاجپا سے جڑے سیاسی لیڈروں کو بھی اپنا مکان خالی کر بھاگنا پڑا۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کہیں نہ کہیں اس پورے معاملے میں وہاں کی حکومت بھی شامل ہے اور انکا خاموش تماشائی بنے رہنا اس بات کی تصدیق کرتی ہے۔
اس معاملے پر ہم ووٹ اور انتخاب کی بات کر کے نکل نہیں سکتے ہیں یہاں ہمیں خود اپنے آپ کی اور اپنے کیے کاموں کے احتساب کی ضرورت ہے۔ ہمیں ملک کی حکومت سے کوئی اُمید نہیں ہے کہ وہ ہماری حفاظت میں کوئی مضبوط قدم اٹھائے۔ جبکہ ملک کا آئین اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ لوگوں کے جان اور اُن کے مال کے حفاظت کی زمہ داری اس ریاست کی ہوگی۔ لیکن اگر ہم نے آنکھیں نہیں کھولی اور عقلمندی سے کام نہیں کیا تو سوائے خطرہ بڑھنے کے کوئی فائدہ نظر نہیں آتا ہے۔
احتساب ہمیں اپنے آپ کی اور اپنے معاشرے کی کرنی پڑےگی۔ احتساب اس بات کی کہ عبید نامی لڑکا اتنا بد اخلاق کیسے ہو گیا کہ ایک نابالغ لڑکی کی عصمت کا سودا کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ احتساب ہمیں اس بات کی کرنی ہے کہ ہمارے آس پاس اور کتنے عبید ہیں اور ان کو صحیح راستہ پر لانے کے لیے ہم کیا کر رہے ہیں۔ ایسے نازک حالات میں خود کا احتساب ہمیں نیا راستہ دکھائے گا نئی منزل کا پتہ دیگا اور وہ راستہ ہے معاشرے میں اخلاقی اقدار کو پیدا کرنے کی، معاشرے میں پھیلی بےحیائی کے خلاف آواز اٹھانے اور اس کو روکنے کی ہے۔
جب تک ہمارا معاشرہ اپنی اخلاقی زمہ داریوں سے بھاگتا رہیگا والدین اپنی اخلاقی زمہ داریوں سے بھاگتے رہیں گے، ہمارے معاشرے کے عالم اور علماء اور اہل علم، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اپنی زمہ داریوں سے بھاگتے رہیں گے۔ معاشرے میں پھیلنے والی بے حیائی ناانصافی ظلم اور زیادتی کا حصہ بنتے رہیں گے تب تک ملک میں امن و سکون کی فضا نہیں قائم سکتی۔ تب تک ہمیں چین کی نیند نہیں نصیب ہو سکتی۔ اس ملک کو پر سکون بنانا اگر چہ حکومت کی سب سے بڑی اور پہلی زمہ داری ہے اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی بھی ضرورت ہے کہ حکومت کے سامنے ہم کہاں کھڑے ہیں اور اپنے معاشرے کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہے۔