مضامین

اپنا مقام شاخِ بریدہ ہے باغ میں

صوفی انیس دُرّانی

مجھے علم نہیں کہ پنجابی میں ردالی کا مذکر کس نام سے جاناجاتا ہے۔ ردالی ایسی پیشہ ورماتم کرنے والی عورتوں کا قبیلہ کہلاتاہے جو گاوو¿ں میں کسی صاحب ثروت زمیندار اور بے حساب زرعی زمینوں کے مالک کی موت کے بعد اس کا خاندان اپنے گاوو¿ں بلاتا ہے اور ان پیشہ ورماتم کرنے والوں سے متوفی کے نعش کے پاس بیٹھ کر ماتم کرنے اور آہ وبکاکی بھیانک اور دل میں خوف پیدا کرنے والی آوازیں اور رقت آمیز نوحے پڑھنے کے لیے کہاجاتا ہے ۔ یہ بڑی دلگیر آوازمیں روکر سینہ کوٹ کوٹ کرمرنے والے کا سوگ مناتی ہیں ۔ اس کی تعریفیں کرتی ہیں۔ یہ عمل اس وقت تک جاری رہتاہے جب تک ارتھی روانہ نہیں ہوجاتی ۔ یہ ماتم گسار عورتیں کسی کی محبت میں ایسا نہیں کرتیں بلکہ ان کو اہل خانہ کی طرف سے بڑی موٹی رقم بطور اجرت یا انعام دی جاتی ہے ۔یہ رواج پنجاب میں دونوں طرف ہے۔یعنی پاکستان کی سمت والے پنجاب میں بھی ہے اور بھارتی سرحد کے پنجاب میں بھی ہے۔ غریب کے گھر جب موت ہوتی ہے تواس کو آنے والی شام کے کھانے کی فکر لاحق ہوتی ہے اور وہ خود اپنے دل کے اندر ایک حشر جیسی کشمکش کا شکار ہوتاہے۔ بہرحال میں اعتراف کرتاہوں کہ میں مردردالیوں کے وجود سے آگاہ نہیں تھا لیکن ان کی بابت ابھی ابھی آگاہی ملی ہے۔ میں اخبارات میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر دامودراس مودی کے اس بیان کو منجملہ اقسام ردالی تصور کرتاہوں جس میں انھوںنے اپنی ۵۶انچ کی چھاتی کو ٹ کوٹ کر مسلمانوں کے پسماندہ طبقات کو بھاجپا کے لیے نرم کرنے کی کوشش کی ہے۔ موصوف نے فرمایا کہ اے بھاجپا کے کارکنان پسماندہ مسلمانوں سے باہمی ربط وضبط میں اضافہ کریں، سماج کے مختلف حصوں کے مابین خصوصاً پسماندہ طبقات میں پیار بھری یاترائیں نکالیں اور ان کے ساتھ یکجہتی اور یگانگت کوفروغ دیں۔ انھوں نے اپنے کارکنان سے یہ بھی کہا کہ وہ بلا تفریق مذہب وملت محروم ان طبقات کے لوگوں تک پہنچیں جو ابھی بھی حاشےے پرہیں۔
وزیراعظم کے یہ ارشادات سن کر مجھے بھی ایسا لگتاہے کہ جیسے میں کسی ایسے گاﺅں میں پہنچ گیا ہوں جہاں ردالی عورتیں کسی کا سوگ منارہی ہیں۔ میں نے پہلے توخدا وندقادرمطلق کا شکرادا کیا کہ بے شک وہ دلوں کو بدلنے کی قدرت بھی رکھتاہے، مگر دل میں شکوک وشبہات کے بادل چھائے رہے کہ وزیراعظم ”بھگوان“ مودی نے مسلمانوں کے حق میں بات کہی ہے یامحض یہ ایک جملہ ہے کیوں کہ وہ جملے چھوڑنے کے ماہر ہیں۔ وہ وزیراعظم جو مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیںدیتا ، بڑے سے بڑے واقعات مسلمانوں کے خلاف ہوجاتے ہیں ، وہ اف تک نہیں کرتا اور نہ کبھی اس قسم کا تاثردینے کی کوشش کرتاہے کہ وہ مسلمانوں کوپہنچنے والے صدمہ سے کسی طرح متاثر ہوا ہے۔ اس کی حالیہ مثال نپور شرما اورجندل کے ذریعہ اہانت رسول کا معاملہ ہے جس کا نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی ممالک نے بھی نوٹس لیا ہے اور ہندوستان کی زبردست بے عزتی ہوئی ہے، لیکن ہمارے لفاظ وزیراعظم نے اس تعلق سے ایک جملہ نہیں بولا۔ سخت ہنگامے کو فرو کرنے کے لیے انھوں نے نہیں بلکہ بھاجپا کے صدرنے انہیں ترجمان کے عہدہ سے ہٹادیا اور بس اس سارے ملک کے مسلمان مطالبہ کرتے رہے کہ ان ملزمان کو گرفتار کرکے ان پر مقدمہ چلایا جائے مگر مسلمانوں کے اس جائز مطالبہ کو وزیراعظم نے اپنی جوتی کی نوک سے مسل دیا۔ سپریم کورٹ کے دوجج صاحبان نے عام لوگوں کی جانب سے دائر ایک مقدمے میں ان دونوں ملزموں کے خلاف بہت سخت الفاظ استعمال کئے لیکن حکومت نے اس تمام معاملہ کو ابھی تک کوئی اہمیت نہیں دی ہے۔
ایسے بے بہرہ وزیراعظم کے پسماندہ مسلمانوں کے حق میں بات کرنا کچھ عجیب سا محسوس نہیں ہوتا؟ بہت دیر تک غوروفکر کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ وزیراعظم کی چولیں ڈھیلی ہوگئی ہیں۔ غیرمسلم بھائیوں کو اس پر بری طرح ہندوکرن کردیا گیاہے کہ اب وہ ہل من مزید (میری بھوک ابھی پوری طرح سیرحاصل کی کیفیت سے دوچار ہیں نہیں ہوئی ہے، اس لیے مجھے اور کھانے کودو)روایتوں کے مطابق حشر میں جہنم میں میں لاکھوں لوگوں کے پھینک دیے جانے کے باوجود اس میں مزید جگہ بچے گی اورجہنم مطالبہ کرے گا کہ اے رب مجھے ابھی مزید خوراک ضرورت ہے۔ٹکڑے ٹکڑے گینگ کے پروردہ ہندو توا عناصر کا ابھی انتہا پسندی سے پیٹ نہیں بھرا اس لیے وہ مزید انتہا پسندی کے طلب گار ہیں۔ حکومت کتنی بھی فاشسٹ ہووہ کسی نہ کسی حدتک آئین کی پابند ہوتی ہے۔ مودی سرکار بھی دنیا دکھاوے کے لیے ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ مثلاً چند روز قبل ہندو تنظیم وشوہندوسینا نے دھمکی دی ہے کہ اگر وارانسی کے ایک مندر میں شرنگار پوجاسے ہندوو¿ں کو روکا گیاتووہ گیان واپی مسجد کا حشر بابری مسجد جیسا کردیں گے ۔ وارانسی میں ایودھیا کی تاریخ دہرادی جائے گی۔ یہ دھمکی وشوہندو سینا کے جنرل سکریٹری دگ وجے چوبے نے کھلے عام دی ہے، اس کا نابکار نے کہا کہ ہندوو¿ں نے انہیں اقتدار اس لیے نہیںسونپا ہے کہ وہ خاموش رہیں۔ بلکہ ان کا کام ہے کہ پوجا کی راہ کے لیے میدان ہموار کیا جائے۔ شری نگار گوری ہندوو¿ں کی ماں یعنی ماتاہیں اپنی ماتا کی پوجا سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔ مرکزی حکومت اور آدتیہ یوگی کی سرکار نے بھی کئی روز گزرنے کے باوجود اس نفرت انگیز بیان بازی کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شری نگار گوری کی پوجا کی جگہ جو گیان واپی مسجد سے خاصے فاصلے پر ہے، کبھی کسی قسم کا کوئی تنازعہ نہیں رہاہے۔ پھر بھی صرف اشتعال پیدا کرنے اور ہندوبھائیوں کو بھڑکانے کے لیے اس قسم کی بیان بازی کی جارہی ہے، مگر مودی جو اچانک پسماندہ مسلمانوں کی محبت کا دم بھرنے لگے ہیں بالکل خاموش ہیں۔ انتہا پسندعناصر کی مددسے برسراقتدا رآنا ان کی ہمت افزائی کے لیے بھی میٹھی باتیں کرنا شیر پرسواری کرنے کے مترادف ہے، جیسے ہی اس شیرکی مرضی کے خلاف چلو گے، یہ آپ پرہی حملہ کرکے آپ کوہلاک کردے گا ۔ سنگھ پریوار کے گرو بھاگوت جی بھی اس صورتحال کو بھگت رہے ہیں گزشتہ کچھ ہفتوں سے ان کے راگ درباری میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ وہ عوامی سطح پر مسلمانوں کے بھی ہندوہونے کا اعتراف کررہے ہیں۔ ایک ماہرنباض کی طرح انہوں نے اندازہ لگایا ہے کہ اب انھیں اپنے سواری کے خون پینے والے شیر کو گھاس کھلانے کی طرف رغبت دلانا ضروری ہوگیا ہے، ورنہ کسی دن بھاگوت جی اور مودی جی نیچے ہوں گے اور شیر انھیں جھنجھوڑنے پرآمادہ نظرآرہاہوگا۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ جو ہندوتوا کے عناصران سے مایوس ہوکر انھیں صلواتیں سنائیں، ان کے ووٹ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پسماندہ مسلمانوں کا استعمال کیا جائے۔مسلمانوں میں پسماندہ طبقات کی تعدادلگ بھگ ۸۵ فیصد ہے۔ یہ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں کو کپڑوں سے پہچاننے والا وزیراعظم انہی کپڑے پہننے والے مسلمانوں سے آنکھ مٹکا کرنے کی باتیں کررہاہے۔
عالم اسلام سے تعلقات میں پیداہونے والی کشیدگی کو کم کرنے اور ایران سے تعلق کواستحکام بخشنے کے لیے سابق وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی کوبھارت کا نائب صدر بنانے کی باتیں چل رہی ہیں ۔ اس گفت وشنید کا سارا مرکز اسلامک دنیا سے تعلقات کو ایک ایسا رنگ دینا ہے جس میں بھارت کے مفادات محفوظ رہیں کیوں کہ طالبان جیسے سخت گیر حکمراں ہمارے بے حد نزدیک آپہنچے ہیں۔ بھارت ان کی غذائی اجناس سے مدد کرکے انھیں بھارت کے لیے نرم گوشہ اختیار کرنے کی طرف راغب کررہاہے۔ تودوسری طرف ۲۰۲۳ کے بعد سے ترکیہ دنیا کے نقشے پر ایک اہم کردار ادا کرنے کی حیثیت میں آجائے گا ۔ ان تمام امور خارجیہ میں ایک مسلمان نائب صدر جمہوریہ اہم کردار ادا کرسکتاہے۔
لیکن مختار عباس نقوی کے چند حالیہ اخباری انٹرویو پڑھ کر مجھے لگا کہ وہ بھی ردالی کا کردار ادا کرنے کے لیے منتخب کئے گئے ہیں ۔ابھی تک وہ بحیثیت وزیر اقلیتی امور تھے اور اب وہ نائب صدر جمہوریہ کے انداز میں حکومت کا دفاع کررہے ہیں۔ وزیر تووزیر اعظم کے حکم کا پابند ہوتاہے لیکن نائب صدر جمہوریہ کا رتبہ صدرجمہوریہ کے بعددوسرے نمبرپر ہوتاہے اور وزیراعظم مراتب سرکار ی کے مطابق تیسرے نمبر پرآتے ہیں۔ نقوی صاحب نے حال ہی میں ایک اخبار کو انٹرویودیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو گلے لگانے کے لیے ہمیں بھی آگے بڑھنا ہوگا۔ آپ نے گل افشانی کی، فسادات میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہوتاہے۔ ایک دور میں ہر داڑھی ٹوپی والے پرالقاعدہ کا ٹھپہ لگ گیا تھا ۔ کتنے ہی نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں جیلوں میں ٹھونس دیا گیا تھا۔ کیا ہمارے زمانے میں بھی ایسا ہی ہوا؟ بلکہ نقوی صاحب آپ کے مودی جی کے زمانے میں تواب داڑھی والے اور غیر داڑھی والے کا فرق ہی ختم کردیا گیاہے۔ اس زمانے میں جن لوگوں کو ملوث کیا گیا تھا، ان میں سے بیشتر پولیس کی زیادتی کے شکار تھے جو مناسب انداز میں مقدمہ چلنے کے سبب بری ہوگئے لیکن اب مودی جی کے زمانے میں اگر کسی کو بغاوت کے مقدمہ میں UAPA کے تحت گرفتار کرلیا جاتاہے تواس کو سپریم کورٹ تک گئے بغیر ضمانت نہیں ملتی۔ ویسے بھی ہم آپ کے یا وزیراعظم کے الفاظ پر کیوں بھروسہ کریں؟ یہ موجودہ حکومت کی تاریخ میں پہلی حکومت ہے جس کے جاری کردہ آنکڑوں پر ملک کے اقتصادی ماہرین بھروسہ کرتے ہیں نہ امریکہ کرتا ہے اورنہ اقوام متحدہ اس لیے آپ کے اس انٹرویومیں مسلمانوں کوفیض پہنچانے کے اعدادوشمار پرہم مسلمان اور ان کی تنظیمیں کیوں بھروسہ کریں؟ نہ اہانت رسول پر آپ کی کارروائی سے مسلمان خوش ہیں اورنہ آپ کے اعلان کردہ وعدوں پر بھروسہ۔ مسلمان توصرف مودی سرکار سے اتنا چاہتا ہے کہ وہ پولیس کی زیادتیوں پرنکیل ڈالیں اور خاطی پولیس افسران کے خلاف کارروائی کرےں، بالخصوص ان معاملات میں جہاں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے پولیس کے خلاف کوئی سخت جملہ استعمال کیاہے۔ اگرپولیس مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ کارروائی نہ کرے اور ان کے ساتھ انصاف سے پیش آئے توبھاجپا کی طرف کسی نہ کسی نوعیت نرمی آسکتی ہے۔ ورنہ مسلمانوں کو گلے لگانے کی حسرت کبھی پوری نہیں ہوسکتی!
اپنا مقام شاخِ بریدہ ہے باغ میں
گل ہیں مگرستائے ہوئے باغباں کے ہیں