مشرق وسطیٰ

ایران میں احتجاجیوں پر فائرنگ‘ متعدد افراد کی ہلاکتوں کی اطلاع

ایرانی سکیوریٹی فورسس نے شورش زدہ جنوب مشرقی صوبہ سستان بلوچستان میں جمعہ کی نماز کے بعد احتجاجی مظاہرین پر فائرنگ کردی جس میں متعدد افراد ہلاک یا زخمی ہوئے

تہران: ایرانی سکیوریٹی فورسس نے شورش زدہ جنوب مشرقی صوبہ سستان بلوچستان میں جمعہ کی نماز کے بعد احتجاجی مظاہرین پر فائرنگ کردی جس میں متعدد افراد ہلاک یا زخمی ہوئے، حقوقی انسانی جہد کاروں نے یہ بات بتائی۔

16 / ستمبر کو 22 سالہ کرد ایرانی خاتون مہسا امینی کی دوران حراست موت کے بعد احتجاجی مظاہروں کے خلاف سخت کارروائی میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ مہم چلانے والوں نے اِس ہفتہ کردستان کے ساتھ اظہار یگانگت کے لئے ملک گیر مظاہروں کی اپیل کی جب کہ سستان بلوچستان کے ہمراہ کردستان بھی ایران کے ہلاکت خیز مخالف احتجاجی مظاہروں کی کارروائیوں کا نشانہ بنا ہے۔

احتجاجی جمعہ کو سستان بلوچستان کے دارالحکومت زاہیدان سے ویڈیو میں نعرہ بازی کرتے ہوئے کردستان ہم تمہاری تائید کریں گے، کہہ رہے تھے، زاہیدان‘ ایران میں ایک سنی عسکریتی شہر ہے، احتجاجی سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ جاری کردہ فوٹیج میں یہ کہہ رہے تھے کہ کرد اور بلوج بھائی ہیں اور وہ قائد کے خون کے پیاسے ہیں۔

یہ حوالہ ایران کے سربراہ اعلیٰ علی خامنہ ای کے بارے میں دیا گیا جب کہ حقوق انسانی جہد کاروں نے بعد ازاں بتایا کہ سیکوریٹی فورسس نے شہر میں احتجاج کرنے والوں پر فائرنگ کی ہے۔ لندن کے بلو چ جہد کار مہم میں اپنے ٹیلی گرام چینل میں بتایا کہ متعدد افراد ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں تاہم اے ایف پی اِن اعداد وشمار کی تصدیق نہیں کرسکا۔

بی اے سی نے ویڈیو جاری کیا جس میں لوگوں کے گروپ کو ایک شخص کو منتقل کرتا ہوا دکھایا گیا جو بظاہر زخمی ہوا تھا۔ اُس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ زاہیدان مکی مسجد کے باہر یہ واقعہ ہوا۔ مظاہرین کھش اور سراون کے شہر سستان بلوچستان کی سڑکوں پر پہنچ گئے تھے۔

بی اے سی اور 1,500 تصویر مانیٹر نے یہ بات بتائی۔ اوسلو کے گروپ ایران حقوق انسانی نے بتایا کہ ایران کے پاسداران انقلاب نے فوجی سازوسامان استعمال کیا جن میں بھاری مشن گنس شامل ہیں تاکہ عوام کو کچل دیا جاسکے۔ شورش زدہ کرد علاقوں میں بھی پاسداران انقلاب موجود ہیں۔

کرد آبادی والے صوبے مغرب اور شمال مغربی ایران امینی کی موت کے بعد احتجاجی مظاہروں کا مرکز ہیں۔ منگل کو ایران کے حقوق انسانی تنظیم نے بتایا کہ ایرانی سکیوریٹی فورسس نے کم از کم 416 افراد کو ہلاک کیا جن میں 51 بچے اور 27 خواتین شامل ہیں جب کہ یہ کارروائی احتجاجی مظاہروں کے آغاز کے بعد کی گئی تھی۔

مہلوکین میں سستان بلوچستان کے کم از کم 126 افراد اور صوبہ کردستان میں 48 افراد بھی شامل ہیں۔ 10 / ستمبر کو بڑے پیمانے پر فائرنگ کے دوران 90 سے زائد ا فراد ہلاک ہوئے۔ جمعہ کے احتجاجی مظاہروں سے ایک دن قبل اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل نے ایران کی خونریز سخت کارروائیوں کی تحقیقات کے لئے اعلیٰ سطحی تحقیقاتی ٹیم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

ایران نے اِس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بے کار ہے اور اِس سے ملک کے قومی اقتدار اعلیٰ کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ایک ممتاز بلوچ عالم مولوی عبدالحامد نے جمعہ کی نماز کے موقع پر گرفتاریوں اور ہلاکتوں کے ذریعہ احتجاجی مظاہروں کو کچلنے کی کارروائیوں کو ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔ اُن کے حوالہ سے بتایا کہ عوامی احتجاج سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ 43 سال کی پالیسیاں ایک ہی مقام پر جامد ہوگئی ہیں۔

شمال مغربی سرحدی علاقوں کی جانب اضافی تعداد میں پاسداران انقلاب کے بکتر بند یونٹ اور اسپیشل فورسس پیشرفت کررہے ہیں۔ یہ علاقے کرد اقلیتی علاقے ہیں، اِس سے قبل اتوار کو مزید کمکوں کی روانگی کا اعلان کیا گیا تھا۔ تسنیم نیوز ایجنسی نے مسکراتے ہوئے پاسداران انقلاب کمانڈرس کی تصویر جاری کی جو فوجی گاڑی میں کھڑے اور سپاہیوں کی طویل قطار کو سلامی دے رہے ہیں۔

ایران نے مغربی ممالک پر الزام عائد کیا کہ وہ بدامنی پیدا کررہے ہیں اور نسلی اقلیتی علاقہ جو علیحدگی پسند گروپس کی جانب سے کام کررہے ہیں، اُن پر احتجاجی مظاہروں کا الزام عائد کیا ہے۔ مولوی عبدالحامد نے محروسین کے ساتھ مبینہ بدسلوکی کی بھی اپنے وعظ کے دوران مذمت کی۔

انہوں نے بتایا کہ میڈیا میں خواتین سے بدسلوکی کے بارے میں خبریں آرہی ہیں جو دل پر بوجھ ہیں اور میں جو کچھ کہہ رہا ہوں نہیں کہہ سکتا۔ بظاہر وہ زیر حراست خواتین کی مبینہ عصمت ریزی واقعات کی رپورٹس کا حوالہ دے رہے تھے۔ جمعرات کو اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل نے ایران میں سخت کارروائیوں کی تحقیقات کی شروعات کے لئے ووٹ دیا اور ایرانی عہدیداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ تشدد کو ترک کردیں۔