طنز و مزاحمضامین

ایک فرمائشی کالم!

عطاء الحق قاسمی

برادرم جواد شیرازی کی بہت لمبی عمر ہے، ابھی ان کا فون آیا کہ آپ اب علامہ شکم بردارسے کب ملاقات کرا رہے ہیں؟ میں ابھی ان سے عرض کر ہی رہا تھا کہ برادر پرسوں تو ملاقات کرائی ہے کہ علامہ صاحب نے دروازے پر دستک دی۔ میں ان کی دستک پہچانتا تھا ، یہ دستک دروازہ اکھاڑنے کی کوشش لگتی ہے اور اس دستک پر ارد گرد کے ہمسائے بھی گھروں سے باہر نکل آتے ہیں چنانچہ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا اور کہا حضرت تشریف لائیں ابھی آپ کے ایک مداح آپ کو یاد فرما رہے تھے، بولے ان کا ایڈریس دو میں ان کی طرف جاکر ان کا شکریہ ادا کروں گا مگر میں نے ان کا ایڈریس دینا مناسب نہ سمجھا کہ مہنگائی کا زمانہ ہے اور شکم بھی کسی عام تام کا نہیں علامہ صاحب کا ہے جسے پُر کرنے سے جواد شیرازی کا مہینے کا راشن لگ جائے گا۔
میں نے دستک سنتے ہی ملازم سے کہہ دیا تھا کہ کھانے کی ٹرالی بھر کر لے آنا جس میں ٹھنڈی، گرم، میٹھی، پھیکی، اشیائے خورونوش کثیر تعداد میں ہوں چنانچہ کچھ دیر بعد انواع واقسام سے لبریز ٹرالی علامہ صاحب کے سامنے تھی اور اگلے ہی لمحے بس صرف یہ ٹرالی تھی، اس میں دھری اشیا علامہ کے شکم میں جاچکی تھیں اور علامہ مجھ سے ”ہل من مزید“ کہتے نظر آ رہے تھے، مگر میں نے جان بوجھ کر ان کے اشاروں کناروں سے ”درگزر “کرتے ہوئے ان سے عرض کی کہ حضرت کھانا پینا تو چلتا ہی رہتا ہے آپ چونکہ ماشااللہ سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں اور افراد کی ضیافتوں میں بن بلائے شریک ہوتے رہتے ہیں سو آج کچھ حالات حاضرہ پر روشنی ڈالیں۔ یہ سن کر علامہ نے خالی ٹرالی کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھا اور فرمایا، ”برادر حالات بہت برے ہیں ساری قوم حلال وحرام کا خیال کیے بغیر شکم پروری میں لگی ہوئی ہے۔ “ علامہ کی زبان سے یہ الفاظ سن کر چائے کا پیالہ میرے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا، میں نے عرض کی، ”حضرت یہ بات آپ کہہ رہے ہیں؟“بولے میں ہی تو کہہ سکتا ہوں تم ایسے لوگوں کو جو گھر میں بیٹھے رہتے ہیں، کیا پتہ باہر کیا ہو رہا ہے؟ میں نے عرض کی کہ کھل کر بتائیں کیا ہو رہا ہے؟ بولے، ”ابھی پرسوں کی بات ہے میں ایک ضیافت میں گیا میں نے مٹن قورمہ اپنی پلیٹ میں ڈالنے کی بجائے قورمے کی پوری ڈش اپنے سامنے رکھ لی، اب سب دیکھ رہے ہیں کہ میں اپنے حصے کا رزق کھا رہا ہوں جو میرے خدا نے میرے مقدر میں لکھا تھا مگر اب حرام حلال کا کسی کو خیال نہیں رہا، میرے قریب بیٹھے لوگوں نے میرے حصے میں آئی ہوئی ڈش میں سے چن چن کر اچھی بوٹیاں نکالیں اور پوری بے شرمی اور ڈھٹائی سے کھانا شروع کر دیا اب اور ہماری قوم کا کیا بنے گا یہ رویہ تو عذاب الٰہی کو آواز دینے کے مترادف ہے۔“میں نے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا یہ تو آپ نے صحیح فرمایا مگر میرے سوال کا مطلب تھا کہ سیاسی منظرنامے کے حوالے سے آپ اپنے اقوال زریں سے مجھے مستفید فرمائیں۔یہ سن کر علامہ مسکرائے اور کہا، ”دیکھا آپ لوگوں کو بھی حالات حاضرہ جاننے کے لیے میری طرف ہی دیکھنا پڑتا ہے۔“ میں نے کہا اس میں کیا شبہ ہے آپ کی ذات اتنی ہمہ گیر ہے کہ رہنمائی کے لیے آپ ہی کی طرف دیکھنا پڑتا ہے، اس پر علامہ خوش ہوئے اور سامنے دھری ڈرائی فروٹ کی پلیٹ میں سے مٹھی بھر کر کاجو نکالا اور منہ میں انڈیل دیا۔اس کے بعد بولے ”بات یہ ہے کہ ہر طرف نفسا نفسی ہی نظر آتی ہے۔میں ایک حلقے میں مستقبل کے ایک امیدوار کی کمپین میں محض رضائے الٰہی کی خاطر روزانہ شام کو وہاں پہنچ جاتا ہوں اور اس کی کارنر میٹنگ میں اس کے حق میں لابنگ کرتا ہوں، بعد میں کھانا وغیرہ بھی ہوتا ہے بخدا بھوک نہیں ہوتی مگر محض میزبان کی دلجوئی کے لیے کھانا پڑتا ہے۔اس کے بعد ایک اور حلقے میں ایک اور مستقبل میں ایم پی اے کے امیدوار کی کارنر میٹنگ میں شرکت کرتا ہوں اس وقت تو بھوک کا سرے سے وجود ہی نہیں ہوتا مگر میزبان کی خوشنودی کے لیے وہاں بھی تھوڑا بہت کھانا پڑتا ہے۔ان کے ”تھوڑا بہت“ سے مجھ سے زیادہ کون واقف ہے چنانچہ میں نے بمشکل اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا، ”حضرت میں آپ سے سیاسی منظرنامے کے حوالے سے پوچھ رہا تھا،بولے ،”ادھر ہی آ رہا ہوں یہ دونوں امیدوار جن کا ذکر میں نے ابھی کیا روزانہ واپسی پر کچھ نذرانہ میری جیب میں ڈال دیتے تھے مگر اب کچھ دنوں سے مولانا ادھر ملی ادھر بیچ میں کود پڑے ہیں اور میرے حصے کے رزق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں بس برادر ہر طرف نفسا نفسی کا دور ہے، حلال حرام کی کسی کو کچھ پروا نہیں۔“یہ سن کر میں نے پھر عرض کی کہ حضرت میں سیاسی منظرنامہ کی بات کر رہا تھا، فرمایا سیاست میں بھی یہی کچھ چل رہا ہے میں نے مختلف سیاسی جماعتوں کے بڑوں سے بات کی کہ آپ میرا ماضی اور حال دیکھیں میں رزق حلال کھانے والوں میں سے ہوں، میں نے اپنے ضمیر کے مطابق ساری زندگی بسر کی ہے، آپ اپنی جماعت کا ٹکٹ مجھے دلوائیں اس سے آپ کی ساکھ میں اضافہ ہو گا۔ لوگ کہیں گے کہ یہ ہے بااصولی جماعت، جو بااصول لوگوں کو آگے لاتی ہے۔ میں نے ایک بار پھر اپنی ہنسی پر بمشکل قابو پایا اور پوچھا، ”حضرت پھر کیا ہوا“ بولے ہونا کیا تھا صاف جواب کہ علامہ صاحب آپ اپنے کام سے کام رکھیں، کھائیں پئیں عیش کریں، سیاست دانوں کا کام سیاست ہے اور وہ کر رہے ہیں، آپ کا بھی جو کام ہے وہ آپ کر رہے ہیں وہ کرتے رہیں۔یہ سن کر میں نے بظاہر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ”علامہ صاحب آپ دلبرداشتہ نہ ہوں، یہ قوم ایک نہ ایک دن آپ اور آپ ایسے دوسری شخصیات کو ضرورپہچانے گی اور ان کا حق انہیں ضرور ملے گا۔“یہ سن کر علامہ نے ایک آہ بھری مٹھی بھر ڈرائی فروٹ اپنے شکم میں اتارا اور پھر فرمایا، ملازم کو آواز دیں، یہ ٹرالی کب سے خالی پڑی اس کا انتظار کر رہی ہے!