سیاستمضامین

بدھ مت کا یوگا اصلی‘ 5ہزار سے 25ہزار آسن نقلیبچوں’ بوڑھوں ‘ بیماروں ‘ کمزوروں کیلئے خطرناک ورزش :  ماہرین کی رائے

سلیم مقصود (موبائل 9701788110)

منوج سنگھ کی مشہور انگریزی کتاب ’’ سناتن دھرما‘‘ Sanatan Dharma کے مطابق 11دسمبر2014ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 21جون کو ’’ عالمی یوم یوگا‘‘ کے طور پر تسلیم کرلیا۔ اس سے کئی سو سال قبل بدھ مت کے ساتھ ساتھ یوگا تبت ‘ چین اور جاپان میں بھی پھیلتا رہا۔ یوگا آسن جین مذہب میں بھی ’’ ذکر‘‘ (Meditation) کی شکل میں عام ہونے لگا۔ یوگا دراصل سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور سنسکرت زبان یوروپ کے آریائی باشندوں کی زبان تھی۔ اس لئے آج بھی جرمنی‘ انگریزی اور روسی زبان میں سنسکرت کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ آر ایس ایس نے اس بات کوتسلیم کرلیاہے کہ اس کے ڈی۔این ۔ اے کا رشتہ آریاؤں سے ہے۔ منوج سنگھ نے یوگا کا مطلب روحانی طور پر متحد ہوجانا بتلایا ہے۔ یوگا ذکر سناتن دھرم کی مقدس کتاب ’’ رِگ وید‘‘ اور سب سے قدیم کتاب ’’ اپنشد میں بھی شامل ہے۔ سب سے اہم Meditation ’’ راج یوگا‘‘ ہے جس کے آٹھ حصے ہیں اس سے ہٹ کر کرما یوگا ‘ بھکتی یوگا‘ اور گیان یوگا بھی بہت اہم ہیں۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کی یہ کوشش ہے کہ ساری دنیا میں یوگا آسن کے ذریعہ سناتن دھرم کو عام کردیا جائے۔ ہندوستان میں یہ کوشش خاص طور پر قبائلیوں میں کی جارہی ہے بلکہ روزنامہ ’’ ہندو‘‘ کی خبر کے مطابق ’’ یوم یوگا آسن‘‘ کے ذریعہ اسے آدی واسی علاقوں میں پھیلایا جارہا ہے۔ مرکزی وزارت ادویات قبائلی مارکٹنگ ترقیاتی ہندوستانی فیڈریشن نے 21 جون کو ’’ یوگا ڈے‘‘ میں قبائلی باشندوں کو یوگا ورزش انجام دینے کی سہولت کے لئے 34ہزار چٹائیاں تمام قبائلی علاقوں میں بانٹ دیں۔
بدھ مت نے یوگا آسن کو صحت یابی کے لئے ایک کسرتی طریقہ کے طور پر پیشہ کیا تھا۔ لیکن سناتن دھرم والوں نے اس کے بدھسٹ تصور ہی کو بدل ڈالا۔ اس میں ایسی باتیں شامل کردیں جن کا تعلق بدھ مت کی تعلیمات سے ہرگز نہیں تھا۔ ہزاروں سال قبل بدھا کے زمانے میں جب یوگا کے طریقوں کی ایجاد کی گئی تو اس وقت نہ تو ’’ طب‘‘ نے ترقی کی تھی اور نہ ہی علم الاعضاء و علاج (Physiotherapy) ہی کو عروج حاصل ہوا تھا۔ اور نہ ہی اس زمانے میں جسم کی ہڈیوں اور جوڑوں پر پڑنے والے طبی اثرات کی تحقیقات کی گئی تھیں۔ یوگا کے خطرناک اور نقصان دہ اثرات کی مخالفت محض عقیدت مندی کی وجہ سے نہیں کی گئی ‘ حالیہ عرصہ میں اور اس سے قبل جن لوگوں نے یوگا آسن کے مضر اثرات کی تحقیقات کے بعد کتابیں لکھیں ان کتابوں پر نہ تو خاص توجہ دی جاسکی اور نہ ہی ناقدین سے مباحث کئے جاسکے۔ اکثر لوگوں میں اس کے متعلق تصور پایا جاتا تھا کہ رفتہ رفتہ تعلیم کے عام ہوتے ہی نئی طبی دواؤں اور نئی بیماریوں کی تحقیقات کے لئے بنائے جانے والے عالمی آلات کی ایجاد سے ایسے جاہلانہ تصور کا خاتمہ ہوجائے گا لیکن ہندوستان میں سناتن دھرم کے پنڈتوں ‘ ویدوں کے ماہرین نے ہندوتوا کو اس قدر طاقتور اور عام کردیا کہ لوگوں کے سیکولر اور سائنسی حقائق کا جائزہ لینے والے احساسات ہی بدل گئے۔
گزشتہ چند برسوں میں انگریزی روزنامہ ’’ ہندو‘‘ میں کم سن بچوں پر یوگا کے مضر اثرات پر ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں فاضل مضمون نگار نے بتایا تھا کہ بچوں کے بڑھتے ہوئے اعضاء اور اعصاب پر یوگا کس قدر نقصاندہ اثر التا ہے اور کس طرح یوگا ان کے ارتقاء میں رکاوٹ ہوجاتا ہے۔ بعض ماہرین نے تو یوگا کے بعض مخصوص آسنوں کی شدید مخالفت بھی کی تھی ۔ ایک ہندوستانی ماہر ڈاکٹر نے بتایا کہ سر نیچا کرنے اور پاؤں آسمان کی طرف اونچا کرنے کے Somer Saulting آسن سے دماغ کافالج Brain Hemorrhage ہونے کا امکان پایا جاتا ہے۔ ان کا یہ استدلال تھا کہ سر نیچا کرنا اور پاؤں آسمان کی طرف کرکے کھڑے رہنا صحت کیلئے زیادہ موزوں ہوتا تو قدرت سر کو انسان کے پاؤں میں باندھ دیتی۔ قدرت نے انسان کے جسم کی ساخت سوچ سمجھ کر بنائی ہے ۔ سر نیچے اور پاؤں نیچے کرنے سے دماغ کی طرف خون کے بہاؤ میں اضافے کے علاوہ گردن کے فقروں اور منکوں کے کھسک جانے کے سبب ریڑھ کی ہڈی کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے‘‘۔
سوریا نمسکار بھی ایک خطرناک کسرت ہے۔ علی الصبح سورج کی شعاعوں کے وٹامن ڈی کے ساتھ جسم میں شامل ہونے سے جسم کی ہڈیاں مضبوط ہوجاتی ہیں اس لئے یوروپ میں مردو و خواتین مخصوص لباس پہن کر ساحل سمندر پر علی الصبح ٹہلنے یا ’’ غسل آفتابی‘‘ کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ کوئی آدمی سوریا نمسکار نہیں کرتا۔ سورج کی صبح کی نرم کرنوں سے پودوں کی کونپلیں اور پھول تقویت حاصل کرتے ہیں۔ لیکن جب سورج کی یہی شعاعیں تیز ہونے لگتی ہیں تو یہ بنفشی شعاعوں Ultra Violet Rays میں تبدیل ہوجاتی ہیں جو تازہ پھولوں اور آنکھوں کے نازک پردوں کے لئے بہت نقصان دہ ہوتی ہیں ۔ یہ شعاعیں بصارت اور جلد دونوں کے لئے مضر ہیں۔ سانس روکنا ‘ سمادھی اور استغراق (Meditation) کرنا خصوصاً دمّہ اور سانس کے عارضے کے لئے مہلک ہیں۔ اکثر آسن ‘ امراضِ قلب کے مریضوں کے لئے بھی بہت زیادہ جان لیوا ثابت ہوسکتے ہیں جیسا کہ 28جون2015ء کے اجتماعی یوگا کے تماشے میں ایک ڈاکٹر کی جان چلے جانے سے ثابت ہوچکا ہے۔ وہ ڈاکٹر دراصل قلب کا مریض تھا۔ ریڑھ کی ہڈی کے مرض (Cervical Spondylitis) میں غلطی سے بھی کندھوں کے بل زمین پر لیٹ کریا جھک کر پاؤں چھونے والی کسرت نہیں کرنی چاہیے۔ اس سے دائمی طور پر مریض اپاہج ہوسکتا ہے اس طرح شوگر کے مریضوں کے لئے بھی یوگا آسن خطرناک ہوسکتے ہیں۔ ’’ سوریا نمسکار‘‘ کے بارے میں ہم ایک بار پھر عرض کردیں کہ یہ ایک بہت ہی خطرناک آسن ہے۔ اس خطرناک آسن سے متعلق یوگا انسٹی ٹیوٹ کے بانی اور صدر شری یوگیندر نے آج سے تقریباً95 سال قبل1928ء میں ایک کتاب ’’ یوگا کے آسان کردہ آسن‘‘ لکھی تھی اس کتاب کے کئی ایڈیشن بھی شائع ہوئے تھے۔ اس کتاب کے صفحہ 99 پر ’’سوریا نمسکار‘‘ کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ خالص صحت کے خیال سے یوگا میں ایسے کئی آسنوں کو خارج کردیا گیا تھا جن کا تعلق تشدد ‘ تناؤ اور تھکان سے تھا۔ انہوں نے بتایا کہ سوریا نمسکار یا سورج کو لیٹ کر سجدے کرنا جو ہندوستان میں سورج کی پرستش کی شکل ہے اور جسے بلا امتیاز یوگا کی ’’ جسمانی تربیت‘‘ کے ساتھ بعض بے علم لوگوں کی طرف سے خلط ملط کردیا گیا تھا۔ اس پر یقیناً یوگا کے چند ماہرین نے پابندی لگادی۔ سب سے پہلے1918ء میں بمبئی میں سانتا کروز کے مقام پر شری یوگیندر نے یوگا کا پہلا یوگا انسٹی ٹیوٹ قائم کیا تھا۔ یوگیندر نے بتایا تھا کہ ’’ ان کے ادارے کے قیام سے قبل لوگ یوگا کو جادو اور روحانی کرتب تصور کرتے تھے۔ ‘‘ یوگا آسن دراصل بدھ مت کی دین ہیں۔ جس طرح مختلف مذاہب کی چیزوں پر ہندومت والوں نے قبضہ کرلیا تھا اسی طرح انہوں نے جین مت اور بدھ مت کے تصورات کو بھی اپنے تصرف میں کرلیا۔ کہا جاتا ہے کہ 200 قبل مسیح میں پتنجلی (Patanjali) نے یوگا کے تصور کو پیش کیا تھا۔ آسنوں کو بھی انہوں نے ہی ترتیب دیا تھا اور اس کا ایک نظام (System) بھی انہوں نے ہی ڈھال دیا تھا۔ ان کے آسن‘ جسمانی حرکت کے مطابق آرم دہ ہوا کرتے تھے ۔ ان سے جسم ‘ دل و دماغ یا اعصاب پر کوئی تناؤ یا دباؤ نہیں پڑا کرتا تھا۔ یوگیندر نے لکھا کہ یوگا کے اصل استغراق Meditation اور پرستش کے طریقوں سے 5 ہزار سے زائد آسنوں کی تعداد بڑھتی رہی اور وہ 25ہزار تک پہنچ گئے۔ ان میں صرف کھیل تماشے داخل کردیئے گئے۔ جسم کے بے وزن کرنا کئی گھنٹوں تک پانی میں ڈوبے رہنا‘ سردی گرمی‘ برف اور آگ کے بے اثر ہونے کے کرتب دکھانا روز مرہ کا معمول ہوگیا۔ حالانکہ آج کل یوگا آسن سے عدم واقف تماشہ بین بھی یہ منظر اب دکھارہے ہیں۔
سابقہ ریاست آندھرا پردیش کے ایک غیر مسلم ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ نماز‘ یوگا سے زیادہ بہتر پرستش اور عبادت ہے۔ کیوں کہ یوگا کے مقابلے میں نماز میں تمام اعضاء سلسلہ وار وقفہ وقفہ سے ورزش انجام دیتے ہیں۔ ان پر غیر فطری دباؤ یا تناؤ نہیں پڑتا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 21جون2015ء کو یوگا کا پہلا عالمی دن منایا گیا۔ اب ہر سال اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق یہ دن منایا جائے گا۔ 2015ء میں دنیا کے 40 سے زائد ممالک نے اس میں حصہ لیا تھا۔ اس پر کروڑہا روپیہ برباد کردیا گیا۔ مگر ایک دن کی یوگا سے دنیا کو کیا حاصل ہوا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے ہر سال ایسے کئی دن منائے جاتے ہیں لیکن اس سے دنیا کو کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے؟8؍دسمبر1991ء کو اس سلسلے میں دو روپے ‘ پانچ روپے ‘ چھ روپے اور دس روپیوں کے دس ‘ دس لاکھ ڈاکٹ ٹکٹ مختلف رنگوں میں انڈین سیکورٹی پریس نے جاری کئے ۔ یوگا اگر واقعی 200 قبل مسیح کی ایجاد ہے تو ظاہر ہے کہ اس وقت تحقیقات کے اس قدر وسائل نہیں تھے اور تکنیکی اور سائنسی تعلیم بھی عام نہیں تھی۔ علم ابدان(Anatomy) کے ماہرین بھی نہیں پائے جاتے تھے۔ اس لئے ہزاروں سال سے یوگا میں مزید عصری اور سائٹنفک تحقیقات کی ضرورت پائی جاتی رہی ہوگی تاکہ اس کے نقائص کو دور کیا جاسکے۔
1997ء میں جین تھیوڈرسکس اور برینڈا ایڈرلی نے گھٹیا اور جوڑوں کے علاج و درد پر ایک کتاب ’’ گھٹیا کا علاج (The Arthritis Cure) لکھی تھی جسے ’’ طبی معجزے‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس کتاب میں گھٹیا کے امراض کی اقسام او ران کے علاج پر بحث کی گئی ہے۔ اگر یوگا اتنی ہی موثر کسرت ہوتی تو اس کتاب کے مصنفین اس کا تذکرہ ضرور کرتے ۔ نیویارک کے ماہر نفسیات اور طبی ڈاکٹر مورین فشرمین نے تین سال تک ہندوستان میں یوگا آسن پر تحقیق کی اور انہیں یوگا کی عالمی کانفرنس کا انعام بھی حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر انہوں نے متعدد کتابیں بھی لکھیں اور یوگا آسن کے ہندوتوا کے ماہرین کے لئے یہ بات بہت تکلیف دہ ہوئی ہوگی جب انہوں نے بہت سے آسنوں میں تبدیلی بھی کی۔ انہوں نے سر کے بل کھڑے رہنے کے آسن کو چیلنج کرتے ہوئے اس کو انجام دیئے بغیر حیران انداز میں کندھوں میں ہونے والی تکلیف کے مریضوں کو 30 سکنڈ میں راحت پہنچادی۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w