سیاستمضامین

برطانیہ کا سیاہ کارنامہ اعلان بالفور

محمد انیس الدین

حکومت برطانیہ کے سکریٹری خارجہ ارتھر بالفور نے 1917ء میں برطانوی یہودی لابی کے اہم ترین فرد Walter Rothschild کو ایک خط لکھا جس میں فلسطین کو یہودیوں میں تقسیم کرنے کے منصوبہ کا انکشاف ہوا۔ اس خط کی نقل بھی پیش ہے۔
پہلی عالمی جنگ کے بعد برطانوی سامراجی نظام نے فلسطینی عربوں کی سرزمین کو صیہونیوں کے قبضہ میں دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم دراصل صیہونیوں کی ایماء پر ہی شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد بڑے پیمانے پر خون ریزی ہوئی اور اس کے بعد جنگ کا خاتمہ ہوا ۔ صیہونی پہلی جنگ عظیم سے کئی سال قبل ہی فلسطین کی سرزمین پر ناجائز ریاست کے قیام کی تیاریاں کررہے تھے اور یہی وجہ تھی کہ صیہونیوں کی سرگرمیاں نہ صرف پہلی جنگ عظیم کی بنیاد بنیں بلکہ دوسری جنگ عظیم بھی صیہونیوں کی کارستانیوں کا نتیجہ ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے روتھ شیلڈ کو جو خط لکھا تھا وہ اپنی نوعیت کا مختصر خط تھا جو ایک ہی پیراگراف پر محیط تھا‘ تاہم اس کے اثر سے فلسطین کی تقسیم کا نمونہ بن کر سامنے آیا۔
بالفور نے 2؍نومبر1917ء کو لکھے گئے اس خط میں تحریر کیا کہ ’ جناب روتھ شیلڈ مجھے آپ کو یہ بات بتانے میں انتہائی مسرت ہورہی ہے کہ کابینہ نے یہودیوں کی امنگوں کے مطابق منصوبہ قبول کرلیا ہے۔ فلسطین میں یہودیوں کی ریاست اور وطن تشکیل دینے کے لئے حکومت برطانیہ ہر ممکن کوشش بروئے کار لائے گی۔ میں اس اعلامیہ کو آپ تک پہنچانے میں پر مسرت ہوں۔(آرتھر بالفور)
اس اعلان کے بعد جیسے فلسطینی عربوں پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی اور فلسطین کے عوام اور تمام دھڑوں نے اس اعلان کو مسترد کردیا اور کسی صورت فلسطین پر صیہونیوں کی ناجائز ریاست کے حق کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا۔
فلسطینی عربوں کا موقف کافی مضبوط تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک سے صیہونیوں کو لا کر فلسطین میں بسایاجارہا ہے اور حکومت برطانیہ فلسطین پر ان کو ایک الگ وطن بناکر دینے کا وعدہ کررہی ہے۔ دراصل تاریخ فلسطین میںبرطانوی سکریٹری خارجہ آرتھر بالفور کا یہ خط اور اعلان فلسطین پر صیہونیوں کی ناجائز ریاست کے قیام کیلئے ایک امید بن گیا تھا جس کے اثرات بعد ازاں ویسے ہی سامنے آئے جس طرح اعلان میں بیان کئے گئے تھے۔
ماہ نومبر میں اعلان بالفور کو 106سال یعنی ظلم اور بربریت کی ایک صدی سے زائد عرصہ گزرگیا۔ دنیا کے سامنے آج بھی جب فلسطین کیلئے انصاف کی بات ا ٹھائی جاتی ہے وہاں حکومت برطانیہ کے اس سیاہ کارنامہ پر دنیا برطانوی سرکار کو فلسطینیوں کے106سالہ قتل عام میں صیہونیوں کے ساتھ برابر کا شریک جرم تصور کرتی ہے۔ آج حکومت برطانیہ جمہوریت کے دعوؤں اور قانون کی بالادستی ‘ دہشت کے خلاف لڑائی سمیت انصاف کے تقاضوں کے کھوکھلے نعرے بلند کررہی ہے لیکن آج نئی نسل باشعور ہوچکی ہے اور یہ جان چکی ہے کہ برطانوی استعمار اور امریکی سامراج کا اصل چہرہ ‘ انتہائی گھناؤنا اور سیاہ ہے جو ساری دنیا کے سامنے بے نقاب ہوچکا ہے۔
آج دنیا کے ہر گوشے سے فلسطینیوں کی حمایت میں اٹھنے والی آواز عالمی سامراجی طاقتوں امریکہ اور برطانیہ کے جھوٹے‘ مکارانہ اور عیارانہ طرز عمل پر نہ صرف انگلی اٹھارہی ہے بلکہ بلا لحاظ مذہب اور قوم اسرائیل کی حالیہ خوفناک بربریت اور درندگی پر سخت ترین احتجاجی مظاہرے کرکے اپنی انسانیت دوستی کا عملی ثبوت پیش کررہی ہے۔ بعض ممالک اپنے سفیروں کو واپس بلارہے ہیں۔ ساری دنیا کے عوام اسرائیل اور امریکہ سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ غزہ ‘ فلسطین میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی فوری بند کردے۔ فلسطین کے اس قدیم مسئلہ نے ساری دنیا کو دو طبقوں میں بانٹ دیا ہے ‘ ایک مظلوم کا طرفدار اور دوسرا ظالم کا ۔ ایک طرف دنیا کے مظلوم ہیں جو فلسطینی مظلوموں کی حمایت کرکے حق انسانیت ادا کررہے ہیں تو دوسری طرف ظلم کا اور فرضی دہشت کا ایک منصوبہ بند نظام ہے جس کی قیادت دنیا کا سب سے بڑا شیطان اور دہشت گرد امریکہ اور اس کے ساتھ برطانیہ و دیگر استعماری حکمران کررہے ہیں۔
آج دنیا میں صرف دو طبقات کے درمیان جنگ جاری ہے۔ تمام تر شیطانی قوتیں بشمول امریکہ‘ برطانیہ‘ اسرائیل اور ان کے اتحاد ہیں کہ جنہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ خیانت کے منصوبے ترتیب دے رکھے ہیں۔ فلسطینی ایک صدی سے دہشت کا شکار ہیں اور جب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو ان مجاہدین نے اپنے خالق پر کامل توکل کرتے ہوئے جذبہ ایمانی سے لبریز ہوکر جائز حق کے حصول کیلئے صیہونی طاقت کو7اکتوبر 2023ء کو للکارتے ہوئے دشمن پر گھات لگادی اور اس کے ناقابل شکست ہونے کے دعویٰ کو پارہ پارہ کردیا۔ اس جرأت اور بے باکی کا فائدہ اٹھا کر تمام عرب اور اسلامی ممالک کو ایک مشترکہ موقف اختیار کرتے ہوئے دہشت گردوں کو سبق سکھانا چاہیے تھا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم امہ اس دفعہ بھی اپنے کعبہ امریکہ سے امن کی امید رکھے ہوئے ہے یا ان کی قدم بوسی سے باز آنا نہیں چاہتے۔ آج اسرائیلی درندگی کا ایک ماہ ہوگیا اور درندگی میں دن رات اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اسرائیل درندہ ہزاروں بچوں اور خواتین کو اپنی درندگی کا نشانہ بنارہا ہے ۔ جب کسی مقام پر آفات سماوی یا ارضی آتی ہے تو ساری دنیا کے انسانیت دوست مدد کو آجاتے ہیں۔ لیکن اسرائیلی وحشیانہ بمباری سے جو عمارتیں زمین دوز ہورہی ہیں تو ان کے ملبہ سے زندہ رہنے والے انسانوں کو بچانا نہ صرف دشوار بلکہ ناممکن ہے کیا عالم انسانیت کو اس بات کا احساس ہے کہ اس ملبہ کے نیچے سے مجبور انسان تڑپ تڑپ کر کسی مدد کی امید میں اپنے خالق کے پاس جارہے ہیں۔
دنیا کو اب تو عقل آگئی ہوگی کہ حقیقی دہشت گرد کون ہیں۔ ظالم اسرائیل فلسطینیوں پر سفید فاسفورس کے ہلاکت خیز بم برسارہا ہے جس سے بے شمار بچے اور خواتین ہلاک ہورہے ہیں اور جوزخمی ہیں ان کی تڑپ کا آپ کو اگر تھوڑا بھی احساس ہے تو آپ موت کو ترجیح دیں گے اگر ایسے ہی بم عرب حکمرانوں کے خاندان پر گریں تو یہ اپنے مجازی خدا امریکہ اور برطانیہ کی پناہ میں چلے جائیں گے ۔ عرب اور اسلامی ممالک کو ایک صدی کی صیہونی بربریت کے بعد بھی یہ بات سمجھ نہیں آئی کا کہ ان کا حقیقی دشمن کون ہے۔ ان مجازی عالمی طاقتوں کی قدم بوسی سے باہر آؤ اور حقیقی واحد ‘ اعلیٰ ترین طاقت ‘ خالق کائنات کے قدموں میں آجاؤ۔ دنیا امن کا گہوارہ ہوجائے گی۔ ظلم کا خاتمہ ہوگا۔ دنیا میں امن ہوگا۔
آج سے چند برس قبل کی بات ہے کہ ا مریکی صدر کی جانب سے فلسطین کے عنوان پر ہونے والی صدی کی ڈیل بھی کسی اعلان بالفور سے کم نہ تھی تاہم یہ 1917ء نہ تھا کہ جہاں مظلوموں کی آواز کو خاموش کروادیا جائے گا۔ آج کا فلسطین گزشتہ ایک صدی کے ظلم و بربریت کے دور میں نشونما پاکر اور بیدار ہوکر صیہونی اور طاغوتی طاقتوں کے سامنے سینہ سپر ہوکر مزاحمت کی ایک آہنی دیوار بن کر مقدس سرزمین کے تحفظ کے لئے سر پر کفن باندھ کر حق اور باطل کے اس عظیم معرکہ میں بے شمار جانی اور مالی قربانیوں کے ساتھ میدان مزاحمت میں مشغول ہے۔ آج کا فلسطین اپنے حقوق اور امت کے تقدس کیلئے باطل طاقتوں سے نبردآزما ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ کسی عرب ملک نے باوجود بے پناہ وسائل ‘ دولت فوج اور طاقت اور حکومت کے ایسی دلیری اور جرأت کا مظاہرہ کرنے سے قاصر تھے جیسی جرأت مجاہدین نے 7اکتوبر سے دکھا کر ظالم کا سر نیچا کردیا۔ اس بات میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ مجاہدین بھی کثیر جانی و مالی نقصانات برداشت کررہے ہیں۔ ان کی معمولی جیت بھی ان دشمنوں کے آگے ایک عظیم کارنامہ اور فتح ہے۔
اب فلسطینی مجاہدین کی مزاحمت ایک فیصلہ کن اور پائیدار مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے۔ اب دنیا کے کسی بالفور اور بائیڈن کو یہ ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ فلسطین اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کی قسمت کا فیصلہ کریں۔ برطانوی استعمار دنیا کے سامنے کتنا ہی اپنا مہذب چہرہ پیش کرے لیکن فلسطین کے ساتھ کی جانے والی درندگی اور ناانصافی ہمیشہ برطانیہ کے سیاسی نظام اور عدالتی اور قانونی نظام پر ایک سیاہ دھبہ کی مانند واضح اور ابھرتی ہوئی نشانی کی طرح نظر آرتی رہے گی۔گزشتہ ایک صدی میں فلسطینی عوام پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم اور درندگی کی بنیاد برطانوی سامراج کا بالفور اعلامیہ ہے جس کا مطلب ہے کہ فلسطین میںہونے والے صیہونیوں کے تمام مظالم چاہے وہ پہلی جنگ عظیم کے بعد شروع ہوئے یا دوسری جنگ عظیم کے بعد یا فلسطین پر ناجائز ریاست اسرائیل کو قائم کرنے کے بعد ہوئے۔ ان سب میں امریکہ اور برطانوی سامراج برابر کے مجرم ہیں ۔ آج برطانوی نام نہاد مہذب معاشرہ نسل نو اپنی حکومتوں سے سوال کررہی ہے کہ آٓخر کس برطانوی دستور کے تحت فلسطین پر اسرائیل جیسی درندہ صفت ناجائز‘ نسل پرست ریاست کو قائم کروایا گیا تھا؟
آج برطانوی باشندے فلسطینیوں کے ساتھ حکومت کی جانب سے ہونے والی ناانصافی اور درندگی اور ظلم و بربریت کا ننگا ناچ ہورہاہے‘ پوری دنیا کے سامنے سرنگوں اور شرمندہ ہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں مظلومین کی حمایت میں احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر ہیں۔ بحر حال دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلم دنیا کو نقصان پہنچا ہے اسکے پیچھے ہمیشہ صیہونیوں کی سازشیں کارفرما رہی ہیں۔
پہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ کی تمام تر تباہ کاریوں کا آغاز کروانے والے عوام میں صیہونی ملوث ہیں اور بعد ازاں ان دو عالمی جنگوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانوی اور امریکی سامراج سے مل کر فلسطین کی مقدس سرزمین پر اپنا ناجائز تسلط قائم کرتے ہوئے جعلی اسرائیلی ریاست کی بنیاد ٹھیک1948ء میں رکھ کر اس بات کا ثبوت دیا کہ دنیا میں امن کو تہہ و بالا کرنے اور جنگوں کے آغاز کروانے کا صیہونی مقصد دراصل فلسطین پر صیہونیوں کی جعلی ریاست کا قیام تھا۔اب سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ قانون کی بالادستی کا دم بھرنے والی برطانوی سرکار کیا آج 106سال گزرنے کے بعد اخلاقی طور پر فلسطینی عوام اور اقوام عالم کے سامنے فلسطینیوں کے ساتھ کی جانے والی ایک صدی کی درندگی پر اظہارِ افسوس اور ندامت اور معافی کی خواست گوار ہوتی۔ لیکن حالیہ فلسطین کی عوام پر سفید فاسفورس کی بوچھاڑ اور رات کی تاریکی میں فلسطینیوں کو دھوکہ دے کر ان مقامات سے دور ہوجانے کے پمفلٹ فضا سے گراکر اور جیسے ہی عوام گھر سے باہر ہوتے ہیں درندوں کی بمباری۔ کیا اس کیفیت کو جنگ کا نام دیا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں یہ فلسطینی عربوں کی نسل کشی کا ایک سلسلہ ہے اور صیہونی اپنے صدیوں پرانے منصوبوں پر مکمل اتحاد سے نہ صرف عمل کررہے ہیں بلکہ ظالم کو ہر قسم کا تعاون اور ہتھیار فراہم کرکے تیسری عالمی بربادی کی راہیں ہموار کررہے ہیں۔ مسلم اور عرب م مالک اس انسانیت سوز المیہ کو آنکھوں سے دیکھتے ہوئے امریکہ اور مغربی ممالک کی خوشنودی ‘ خوشامد اور قدم بوسی میں ا یک دوسرے پر سبقت لے جارہے ہیں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰