دونوں ایوانوں کے سربراہ کسی پارٹی کے ترجمان نہیں ہوسکتے: کپل سبل
رکن راجیہ سبھا کپل سبل نے جمعہ کے دن نائب صدرجمہوریہ جگدیپ دھنکر کو نشانہئ تنقید بنایا۔ جنہوں نے صدرجمہوریہ کو تین ماہ میں فیصلے کردینے کی عدلیہ کی ہدایت پرسوال اٹھایاتھا۔

نئی دہلی (پی ٹی آئی) رکن راجیہ سبھا کپل سبل نے جمعہ کے دن نائب صدرجمہوریہ جگدیپ دھنکر کو نشانہئ تنقید بنایا۔ جنہوں نے صدرجمہوریہ کو تین ماہ میں فیصلے کردینے کی عدلیہ کی ہدایت پرسوال اٹھایاتھا۔
کپل سبل نے کہا کہ یہ غیردستوری ہے اور انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا کہ راجیہ سبھا کے کسی سربراہ نے اس قسم کا سیاسی بیان دیا ہو۔ ایک دن قبل جگدیپ دھنکر نے عدلیہ کے خلاف سخت الفاظ استعمال کئے تھے۔ کپل سبل نے زوردے کرکہا کہ لوک سبھا کے اسپیکر اور راجیہ سبھا کے صدرنشین اپوزیشن اور برسرِ اقتدارجماعت سے مساوی فاصلہ رکھتے ہیں۔ یہ دونوں پارٹی کے ترجمان نہیں بن سکتے۔
ہرکوئی جانتا ہے کہ اسپیکرلوک سبھا کی کرسی بیچ میں رکھی ہوتی ہے۔ وہ ایوان کا اسپیکرکا ہوتا ہے۔ کسی ایک پارٹی کا اسپیکر نہیں۔ یہ لوگ ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ انہیں ووٹ ڈالنے کی اجازت اسی وقت ہوسکتی ہے جب دونوں طرف کے ووٹ برابرہوں۔ ایوان بالا کا بھی یہی معاملہ ہوتا ہے۔ ایوان بالا کے سربراہ کو بھی اپوزیشن اور برسراقتدارجماعت دونوں سے مساوی فاصلہ رکھنا پڑتا ہے۔
سینئر وکیل کپل سبل نئی دہلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ جگدیپ دھنکر نے جمعرات کے دن عدلیہ پرسوال اٹھایاتاکہ وہ صدرجمہوریہ کیلئے فیصلے کرنے کا وقت کیسے طئے کرسکتی ہے۔ وہ سوپرپارلیمنٹ کی طرح کام کررہی ہے۔ سپریم کورٹ جمہوری طاقتوں کی طرف نیوکلیئر میزائل نہیں داغ سکتی۔
قبل ازیں سپریم کورٹ نے کہاتھا کہ گورنر کی طرف سے غوروفکر کیلئے جو بل صدرجمہوریہ کو بھیجے جاتے ہیں‘ انہیں زیرالتواء نہیں رکھناچاہئیے۔ زیادہ سے زیادہ تین ماہ میں فیصلے کردینے چاہئیے۔ نائب صدرنشین راجیہ سبھا نے دستور کے آرٹیکل 142کو جو سپریم کورٹ کو کھلے اختیارات دیتی ہے‘ جمہوری طاقتوں کے خلاف نیوکلیئرمیزائل قراردیاتھا جو دن رات عدلیہ کو دستیاب رہتا ہے۔
کپل سبل نے جگدیپ دھنکر پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگرآپ ایسے بیانات دیں گے تواسے ایسے دیکھاجائے گا جیسے عدلیہ کو سبق سکھایاجارہا ہو۔ عدلیہ کو اس طرح نشانہ نہیں بناناچاہئیے۔ میں نے پہلے کبھی بھی ایوان بالا کے کسی سربراہ کو اس قسم کے سیاسی بیانات جاری کرتے نہیں دیکھا۔
بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سربراہ نے بھی سابق میں ایسا نہیں کیاتھا۔ اگرکسی ادارہ پر بھروسہ قائم ہے تو وہ عدلیہ ہے۔ حکومت میں موجود لوگوں کو جب عدلیہ کا کوئی فیصلہ پسند نہیں آتا تو وہ یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ عدلیہ نے اپنی حد پارکردی ہے۔ انہیں جب عدالت کا فیصلہ پسند آجاتا ہے تو اپوزیشن یہی کہنے لگتی ہے۔
لوگ جب دفعہ 370یا بابری مسجد۔رام جنم بھومی فیصلے پر سوال اٹھاتے ہیں توحکومت کہتی ہے کہ فیصلہ سپریم کورٹ کا ہے۔ جگدیپ دھنکرنے کہاتھا کہ صدرجمہوریہ کے اختیارات پربندش کیسے لگائی جاسکتی ہے۔ اس پر کپل سبل نے حیرت ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ ایسا کون کررہا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا کوئی گورنر عوام کے لئے اہمیت کے حامل بل کو اپنے پاس دوسال تک روکے رکھ سکتا ہے۔