طنز و مزاحمضامین

’’بس ‘‘جسے کہتے ہیں ہر روز کا رونا ہے

حمید عادل

معروف شاعر ندا فاضلی کی غزل کا ایک شعر ہے :
دنیاجسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے
مندرجہ بالا شعر کو ’’بس‘‘ سے بس بس ہوکرہم نے(ندا فاضلی سے معذرت کے ساتھ) کچھ اس طرح ڈھالا ہے :
’’بس‘‘ جسے کہتے ہیں ہر روز کا رونا ہے
کھو جائے تو مٹی ہے مل جائے تو سونا ہے
بس کا انتظارمحبوب کے انتظار سے بھی زیادہ گراں گزرتا ہے بلکہ بس کے انتظار میں خود آدمی کے گزر جانے کے آثار نمودار ہوجاتے ہیں … راہ تکتے تکتے مسافر کی گردن ٹیڑھی ہوجاتی ہے کہ پھر وہ سیدھے منہ بات کرناتو درکنار سیدھے منہ دیکھنے کے تک قابل نہیں رہتا…ہم جہاں رہتے ہیں ، وہاں بس اسٹاپ تو کافی وسیع اور تاریخی ہے لیکن بسوں سے خالی ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح ہمارے سینوں میں دل تو ہے مگر محبت سے خالی ہے… کبھی کبھار بھولی بھٹکی کوئی بس آجائے تو پھر ہماری خوشی کا بلکہ خود ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا اورہم پر چچا غالب کے اس شعر کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے:
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
ہم بس کے ایسے بیمار ہوئے کہ اس کے سوا کوئی اور سواری ہمیں جچتی ہی نہیں ہے … ہم پر کتنے ہی غم سوار ہوں،جیسے ہی ہم بس میں سوار ہوتے ہیں ، سارے غم بھول جاتے ہیں …کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ نشست ملنے پر ہمارے اندر موجودشرارتی حمید عادل جھوم جھوم کر بلکہ مٹک مٹک کر گنگنانے لگ جاتا ہے:
چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے آنکھوں میں سرور آ جاتا ہے
جب تم مجھے اپنا کہتے ہو اپنے پہ غرور آ جاتا ہے
تم حسن کی خود اک دنیا ہو شاید یہ تمہیں معلوم نہیں
محفل میں تمہارے آنے سے ہر چیز پہ نور آ جاتا ہے
یہی بس اکثر ’’ صنم بے وفا‘‘ بن جاتی ہے تو دل غم کی تاریکیوں میں ڈوب جاتا ہے اور ہمارے اندر موجود شرارتی حمید عادلؔ جو بس کے ملنے پر خوشی کے ترانے گنگنایا کرتا ہے ،فلم ’’ اناڑی ‘‘ کی نوتن آنٹی بن کر گانے لگ جاتا ہے :
تیرا جانا دل کے ارمانوں کا لٹ جانا
کوئی دیکھے بن کے تقدیروں کا مٹ جانا
بس کی شرارتوں کے کیا کہنے ،جس کا ہمیں انتظار ہوتا ہے وہ بس دور دور تک دکھائی نہیں دیتی اور جس بس کی ہمیں ضرورت نہیں ہوتی وہ ہمارے آگے پیچھے ناز و ادا سے اٹھلاتی پھرتی ہے…زندگی تو خیر امتحان لیتی ہے لیکن بس بھی کچھ کم امتحان نہیں لیتی …اب یہی دیکھیے کہ مسلسل بس کے چھوٹ جانے سے ہم بنا ناشتہ کیے گھر سے نکلنے لگے تو بس نے جلدی آنا ترک کر دیا اورجب ہم نے دوبارہ ناشتہ کرکے گھر سے نکلنا شروع کیا توبس نے دوبارہ وقت سے پہلے روانہ ہونا شروع کردیا … .جب بس اسٹاپ پر پہنچ کرہم سنتے کہ ’’ بس ! ابھی گئی بس‘‘ تو دل چاہتا کہ اپنے بال اور خبر سنانے والا کا منہ نوچ لیں … اس شدید جھنجھلاہٹ کے درمیان کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی ڈھیٹ بھکاری آدھمکتا اور ہمارے صبر کا امتحان لیتا…
چلچلاتی دھوپ میں ایک بس اسٹاپ پر کچھ لوگ پسینے سے شرابور بس کے انتظار میں کھڑے تھے کہ ایک بھکاری آیا، سب کو جنت کی دعائیں دے کر بھیک اکٹھی کی اورپھر ٹیکسی بک کروا کر اس میں بیٹھ کر چلتا بنا۔
معروف شاعر سید محمد جعفری نے ’’ بس کا سفر ‘‘ کے عنوان سے خوب نظم کہی ہے ،ایک شعرملاحظہ فرمائیں :
ان ہی سے پوچھتا ہوں میں سفر کرتے ہیں جو بس میں
کہ دے دیتے ہو اپنی زندگی کیوں غیر کے بس میں
اسی نظم کا ایک اور شعر ہے :
پڑا ہوگا بسوں میں آپ کو ایسوں سے بھی پالا
اٹھی کھجلی تو اپنے ساتھ ساتھی کو کھجا ڈالا
ایک بارمسافرین سے کھچا کھچ بھری بس کے اندر ہماری بے بسی دیدنی تھی، ہم اپنا پیر کھجانا چاہ رہے تھے لیکن اس کوشش میں کسی اور کا پیر کھجاکر خود کو مطمئن کررہے تھے کہ ہم نے اپنا پیر کھجا لیا لیکن ہم چونکہ کسی کی ناک کھجانے کے موقف میں نہیں تھے ،اس لیے ہم نے بغل میں بیٹھے ہوئے ایک مسافر سے التجا کی: ’’ بھائی جان !آپ ذرا میری ناک کھجا دیں ،بڑا ثواب ہوگا۔‘‘
اس شخص نے نہایت بے بسی کے ساتھ جواب دیا: ’’مجھے ثواب کی کوئی ضرورت نہیں ہے جناب ، میں آپ کی ناک کھجا دوں گا، بدلے میں آپ میرادایاں کان کھجا دیں!!‘‘
چمن بیگ بس میں سفر کررہے تھے، اگلی نشست پر ایک خاتون بار بار اپنے بچے سے کہہ رہی تھی ’’ بیٹا! یہ حلوہ کھالو، ورنہ میں ان انکل ( چمن بیگ) کو دے دوں گی …جب خاتون نے چوتھی بار یہی کہا تو چمن بیگ تڑخ اٹھے ’’ بہن جی ! جلدی فیصلہ کرلیں، آپ کی وجہ سے میں چار اسٹاپ آگے آچکا ہوں ۔‘‘
شہر حیدرآباد کی مسافرین سے لبریز بسوں میں اب سفر کرنا تو درکنار اس میں محض سوار ہونا اور سوار ہونے کے بعد بس سے اترنا بھی آسان نہیں رہا ہے، آدمی کی ذرا سی غفلت اسے کہیں اور پہنچا دیتی ہے …اس پر ستم یہ کہ آر ٹی سی بسوں کے ڈرائیور، مسافرین کی چستی، پھرتی اور ان کے فٹنس کا وقتا فوقتاً طرح طرح سے امتحان لیا کرتے ہیں۔ بس ڈرائیورس کا یہ محبوب مشغلہ بن چکاہے کہ مسافرین اگر بس اسٹاپ پر بڑے ادب و احترام سے کھڑے بس کا انتظار کررہے ہوں تو وہ یاتوبس، اسٹاپ سے بہت پہلے روک دیتے ہیں یا پھراسٹاپ سے بہت آگے اور بیچارے مسافرین کیا لنگڑے کیا لولے، کیا اندھے کیابہرے ،کیا ٹخلے کیا ہکلے،کیا بچے کیا بوڑھے سبھی دیوانہ وار بس کی سمت سرپٹ دوڑنے لگتے ہیں… کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ مسافرین بس تک پہنچ بھی نہیں پاتے ہیں اور بس دھواں اڑاتے ہوئے آگے بڑھ جاتی ہے اور مسافرین کبھی ہاتھ تو کبھی آنکھیںملتے رہ جاتے ہیں ۔
دو دن قبل ہم بس اسٹاپ پر مطلوبہ بس کے انتظار میں کھڑے تھے، دریں اثنا کسی اور منزل کی بس آکر ہمارے سامنے کھڑی ہوگئی، غلطی ہم سے یہ ہوئی کہ ہم وہاں سے نہیں کھسکے پھر کیا تھا پلک جھپکتے جم غفیر ہمارے ارد گرد جمع ہوگیا اورجس بس میں ہمیں جانا ہی نہیں ہے ،ہماری مرضی کے خلاف،اس بس میں ہمیں پہنچا کر ہی دم لیا …بس کے اندر پہنچ کر ہم باہر نکلنے کے لیے بہت پھڑپھڑائے لیکن ہمارا پھڑ پھڑانا کچھ کام نہ آیا … اسی دوران بس بھی چل پڑی …ہمیں یہ تک پتا نہ تھا کہ یہ کس روٹ کی بس ہے ؟کیا کریں سمجھ میں نہیں آرہا تھاہم اسی ادھیڑ بن میں غلطاں و پیچاں تھے کہ بس ڈرائیور نے ایسے بریک لگائے کہ مسافرین کی چیخیں نکل گئیں ، چیخنے کے معاملے میں خواتین مردوں پر بازی مار گئیں…اس زور داربریک کا ہم پر کچھ اس طرح اثر ہوا کہ بس میں موجود آہنی کھمبے سے ہمارا سر جا ٹکرایا ،سر کے ٹکراتے ہی ہماری آنکھوں کے دیے بجھ گئے اور اندھیرا سا چھا گیا، بہت ممکن تھا کہ ہم وہیں ڈھیر ہوجاتے لیکن بس میں موجود کثیر ہجوم نے ہمیں نیچے گرنے نہ دیا ۔ہم نے بھی حالات کو اپنے حق میں سازگارپایا تو کسی چالاک ڈاکو کی طرح خود سپردگی کا اعلان کردیا ،یعنی خود کو بس میں موجودمسافرین کے حوالے کردیا،اب ہمارے ساتھ آتما تھی،جس کا کوئی بوجھ نہیں ہوتا…
دوستو! بس کے اندر گھٹن کا یہ عالم تھا کہ ہمیں ایک عدد آکسیجن سیلنڈر کی بڑی سخت ضرورت محسوس ہونے لگی کیونکہ ہماری سانسیں بے ترتیب ہوکر پھولنے لگی تھیں ۔ چنانچہ تازہ ہوا کی تلاش میں ہم نے بے چین ہوکرایک صاحب کی بغل سے اپنا منہ نکال کر ابھی ہوا کا ایک تازہ جھونکا اندر کھینچا بھی نہیں تھا کہ ہمارے چہرے کے سامنے کوئی پراسرار ہاتھ جس میں نامی گرامی برانڈ کی چھالیہ کی پاکٹ تھی ، لہرانے لگا۔ہاتھ جس کا بھی ہو لیکن اتنا تو صاف محسوس ہورہا تھا کہ کوئی شخص اپنا ہاتھ اپنے منہ کے قریب لے جانا چاہ رہا ہے لیکن بس چونکہ مسافرین سے لدی ہوئی تھی ،اس لیے وہ ایسا کرنے سے قاصر تھا۔ ہمیں اس مسافرکی یہ بے بسی دیکھی نہ گئی اور ہم نے اس کے ہاتھ سے چھالیہ کی پاکٹ چھینی اور چٹ کر گئے۔ دوسرے ہی لمحے ایک زور دار گالی کے ساتھ ایک بھونڈی آواز فضا میں گونجی’’ جو بھی میرے ہاتھ سے چھالیہ کی پاکٹ چھینا،اِس کو کھاتے ہی اُنے مر جائیں گا!‘‘ اس ریمارک کو سن کر چند مسافرین کی باچھیں کھل گئیں، جن میں ہم خودبھی شامل تھے۔ ابھی ہم اس واقعے سے لطف اندوز ہو ہی رہے تھے کہ ایک صاحب نے ہمارے پیر کو بری طرح سے اپنے پیروں تلے روند دیا ، ہم نے تلملاکر کہا ’’ بھائی صاحب!آپ کا پیر ہمارے پیر پرہے، ذرا ہٹا لیں پلیز!‘‘ تو انہوں نے جواب دیا ’’ میاں! پچھلے آدھے گھنٹے سے میںایک ٹانگ پر کھڑا ہوں اور میری دوسری ٹانگ کہاں ہے ، کچھ پتا نہیں چل رہا ہے،یہ بس ہے باوا، برداشت کرنا پڑتا !‘‘
بس سے باہر نکلنے کی جدوجہد اور گھٹن کی وجہ سے ہمارا سارا وجود پسینے سے شرابور ہوچکا تھا… ہم نے اپنی ساری توانائی کو یکجا کیا اور بس سے اترنے کی پھر ایک بار کوشش کرنے لگے لیکن مسافرین کی بے حسی کا یہ عالم تھا کہ کاروبار یا علم و ہنر کے میدان کی طرح بس میں بھی ہمیں کوئی سائیڈ دینے تیار نہ تھا … شاید اس پست اور بیمارسوچ کی بنا پر تنگ نظر انسان بس کے مسافر کی طرح جہاں کھڑا ہے وہیں کھڑا ہے … ہماری مسلسل زور آزمائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم بس سے اتر نے میں کامیاب ہوگئے …
دل دہلا دینے والے بس کے سفر کے بعد ہم سڑک کی دوسری جانب اپنی مطلوبہ بس کے انتظار میں جاکر کھڑے ہوگئے… دل بے چین اور سانس پھولی جارہی تھی … ایسا لگ رہا تھا کہ ہم بس کا نہیں بلکہ محبوبہ کے منتظر ہیںکہ کب آئے گی کب آئے گی ؟دریں اثنا ہمیں یاد آیا کہ ہم تو دعا کرنا ہی بھول گئے ،تب ہی تو بس غائب ہے، پھر کیا تھا دل سے دعا بلکہ آہ کا نکلنا شروع ہوگیا… لیکن یہ دیکھ کر ہمارے اوسان خطا ہونے لگے کہ ایک ایک کرکے ہماری راہ کے مسافرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، جس تیزی سے وہ بڑھتے جارہے تھے، ہماری دعا میں بھی اسی مناسبت سے شدت آتی جارہی تھی … خداخدا کر کے تیز طرار بے باک حسینہ کی طرح وہ آگئی …جی ہاں ہماری منزل کی ساتھی یعنی ہماری بس پھر کیا تھا ، اتنی بھگدڑ مچی کہ سارے کہ سارے مسافر تو بس میں سوار ہوگئے اور ہماری باری آخر میں آئی … دعا میں دو حاجتیں تھیں، بس کا آنا اور نشست کا مل جانا، اس میں ایک تو پوری ہوگئی لیکن نشست کے ملنے کی امید نہ تھی … ہم بس کی چھت سے جڑے ڈنڈا کو پکڑ کر کھڑے ہونے کی تیاری میں تھے کہ ایک آواز نے ہمیں چونکا دیا’’ یہاں بیٹھ جائیے ‘‘ ایک نوجوان اٹھ کر ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کررہا تھا… بے ساختہ دل سے آواز آئی ’’اللہ تری عطا کا کیا کہنا ،میں خطا ہی خطا تو عطا ہی عطا …‘‘
۰۰۰٭٭٭۰۰۰