مضامین

بھارت توڑو یاترا سے جوڑویاترا تک

غلام علی اخضر

لال کرشن اڈوانی نے ۱۹۹۰ءکی رتھ یاتراسے اس ملک میں جونفرت کا بیج بویا اب اس کا خاتمہ ناممکن سامعلوم ہو رہا ہے۔ اس یاتراکا اثر یہ ہوا کہ پورے ملک میں دنگے فسادات بھڑک اٹھے۔ مرکز میں موجود کانگریس سرکاراور دنگایوں کی ملی بھگت سے بابری مسجد کو شہید کردیا گیا۔ بھارت کی یکجہتی کا جنازہ تو اسی دن نکل گیا تھا جب حکومت کے بھوکے نیتاﺅں کی وجہ سے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ تقسیم کا ذمے دار کون تھا؟ دونوں فریق ایک دوسرے کو بدنام کرتے رہتے ہیں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ دونوں فریق حکومت کے بھوکے تھے،ایک فریق کو یہ لگ رہا تھا کہ ہندو حکومت پر قابض رہیں گے اور مسلمانوں کو ان کا صحیح حصہ نہیں مل سکے گا اور دوسرا فریق یہ سوچ رہا تھا کہ جناح کا ’جن‘ اس قدر چتر ہے کہ اگر وہ رہا تو پھر حکومت میں اس کا عمل دخل بڑے پیمانے پر ہوگا۔ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو تقسیم ہندکا رونا توروتے تھے، لیکن ان کی چال بالکل مگرمچھ کے آنسو بہانے جیسا تھی۔ وہ پردے کے پیچھے کچھ اور سامنے کچھ اور کررہے تھے۔ وہ ایک انسان ہو کر بھی دو چہرے اور دو زبان کے مالک تھے۔ ہاں ان فریقین میں بھی کچھ لوگ تھے جو بالکل سچے قومی یکجہتی کے امین اور وطن پرست تھے جو اس ملک کی تقسیم کو اپنے ایک جسم کو دوٹکڑے ہونے جیسا سمجھتے تھے۔ خیرتقسیم کے بعد اس ملک نے بہت اتار چڑھاﺅ دیکھے اور پھر خود کو سنبھالا، لیکن حکومت حاصل کرنے اور اپنا دبدبہ قائم کرنے کے لیے نفرت کو ہتھیار بنانے والے سرگرم رہے ۔ آرایس ایس کا نظریہ روز بروز پروان چڑھتا گیا۔ وہ کانگریس جس کے دور حکومت میں آرایس ایس کوپھلنے پھولنے اور سنورنے کا موقع ملا، اسی کی حکومت کا اس نے تختہ پلٹ دیا۔ وہ خود تو میدان حکومت میں نہیں آئی لیکن اس نے ایک ایسی پارٹی کا انتخاب کیا اوراس کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور تھمائی جو اس کے اشارے پر کام کرے اوروہ جو چاہے ملک میں وہی ہو۔ یہ تو ماننا پڑے گا کہ اڈوانی کی یاترا نے اس ملک کی سیاست کا مزاج ہی تبدیل کردیا۔ اکثریتی طبقہ کے اندر مذہبی شدت روز بروز بڑھتی ہی گئی پھر بھارت کا نقشہ ایسا بنا کہ اقلیتی طبقہ کی جان و مال کو نقصان پہنچانا دیس بھکتی کا حصہ کہا جانے لگا۔ مسلم بچیوں کو مرتد بنانے پر اکثریتی طبقہ کے نوجوان کو انعام و اکرام دینے کا اعلان کیا جانے لگا۔ ایوان عدالت سے ایسے ایسے فیصلے دیے جانے لگے جس سے اقلیت کے اندر خوف بڑھنے لگا اور اکثریت کے دماغ میں وہ موقف جو کبھی تردد کے ساتھ سانسیں لے رہا تھا اب یقین میں تبدیل ہونے لگاکہ اب اس کا من ماناراج چلے گا، اس لیے اس نے بابری کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی کھلے عام کہنا شروع کیا کہ ہمارے حق میں ہی فیصلہ ہوگا۔ حکومت بھی ہماری ہے اور عدالت بھی۔ مسلمان فریق کی یہ سب سے بڑی بھول تھی کہ اس نے ڈنکا پیٹ پیٹ کر اعلان کیا کہ سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے گی ہمیں وہ قبول ہوگا۔ دو ٹکے کے دانشوروں نے اس فیصلے کا استقبال کیا، ان کا خیال تھا کہ اچھا ہوا کہ مسجد مندر کا یہ جھگڑا ختم ہوا اور مندر مسجد کی سیاست کا اب خاتمہ ہوجائے گا۔ جب کہ کئی دور اندیش یہ کہہ رہے تھے کہ یہ فیصلہ ملک میں اور بھی انارکی کا ماحول پیدا کرے گااور مسجد مندر کی سیاست کواور طاقت ملے گی اور وہی ہوا۔ آج پورے ملک کی مساجد ومدارس پر شدت پسندوں کی بدنظر ہے۔میڈیا اب میڈیا نہیں ہے بلکہ وہ ہندوتوا کا ترجمان ہوچکا ہے۔ وہ ایک ہی طرح کے جرم میں ملوث الگ الگ مذہب سے تعلق رکھنے والے مجرم کوالگ الگ روپ میں پیش کرنے لگا ہے۔ اس نے صحافت کی اقدار کو ذبیح کردیا ہے ،کسی کے اشارے پر ناچنا اور تلوے چاٹنا،اب اس کے ہر روز کا فخریہ کام ہوچکا ہے۔ ملک کی بحرانی صورت بھی اسے امرت کال لگتی ہے۔وہ حکومت سے سوال کرتے وقت گیدڑ بن جاتا ہے اور جب اپوزیشن سے سوال کرتا ہے تو موٹا فربہ شیر بن کر ایسا دہاڑتا ہے کہ جیسے اس کے اندرسچے جرنلسٹ کا خون اُبال مار رہا ہو۔حکومت کے پالے ہوئے نام نہاد مسلمانوں کو وہ پینل پر بٹھاکر / ڈیبیٹ میں بلا کرکے مسلمانوں کے خلاف خوب زہر اُگلتااوراگلواتا ہے، یہ گروہ اُس شدت پسندجماعت کی غلامی کا ثبوت پیش کرنے میں ہرحد تک گرنے کے لیے تیار ہتا ہے جس کا ہر قدم مسلم مکت بھارت بنانے کا ہے ۔ان نام نہاد مسلم چاپلوسوں کو شرم نہیں آتی کہ بلقیس بانوکے ریپ کو ایک بی جے پی نیتا میڈیا والوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ایک چھوٹی سی بات بتاتی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر بالکل انگریزی حکومت کی پالیسی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے کہ ملک آزاد ہونے سے پہلے وہ ہندوستانیوں پر کس طرح ظلم کرتے تھے ، اس کی دجال فوج کی ہوس کا شکار ہندوستانی لڑکیاں کس بے رحمی سے ہوتی تھیں، لیکن اس کے باجود ہندوستان کے اچھے خاصے افراد انگریز کے ترجمان اور اس کے مخبر بنے ہوئے تھے۔ایسے وقت میںجب ملک کا ماحول بالکل مکدر ہوچکا ہے ، راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کتنی کامیاب ہوگی، وہ ۲۰۲۴ کے الیکشن میں ہی معلوم ہوگا۔ کیا بھارت جوڑویا تراسے جس کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ ایک غیر سیاسی یاترا ہے جو ملک میں نفرت کا ماحول ہے، اس کو مٹانے نکلی ہے ؛ سیکولرازم، قومی یکجہتی اورہم جویہ الاپتے نہیں تھکتے کہ اس ملک کے عوام کو محبت پر یقین ہے ؛کا ڈی این اے ٹیسٹ ہوجائے گا ؟ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جس طرح اڈوانی کی رتھ یاترا جو در اصل مذہبی اور سیاسی یاترا تھی جس میں نفرتی بم و بارود سے بھری بھیڑ شریک تھی، جسے ہم آسان لفظوں میں ’بھارت توڑو تخت حاصل کرو یاترا‘ بھی کہہ سکتے ہیں، تو کیا اسی طرح سب سے بڑے سیکولر ملک کا دعویٰ کرنے والے ملک کے عوام محبت سے سرشار ہوکر اب جب کہ اس نفرت کے خلاف راہول گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا شروع کی ہے تو اس کا استقبال کرتے ہیں اور اس کا حصہ بنتے ہیں۔ کیا کانگریس کا کھویا ہوا وقار اس یاترا سے واپس ہوپائے گا۔ کیا یہ یاترا اپنے ہدف کو پاسکے گی۔ بہت سارے سوالات ہیں جن پر ابھی کچھ کھل کر کہنا قبل از وقت ہوگا، لیکن حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے جس سے چشم پوشی ممکن نہیں کہ جس طرح آریس ایس اپنی زمین مضبوط کر چکی ہے ،سنگھی فاشزم سر چڑھ کر بول رہا ہے اور اکثریت ملک کی تمام بدحالی کو دیکھنے کے باجود جنونی حدتک اس کی مدح خواںہے اور پھر اس سیاسی شطرنج میں کجریوال کی عام آدمی پارٹی جو ایک اہم رول نبھا رہی ہے، کانگریس کی راہ آسان نہیں ہے، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ امید پر دنیا قائم ہے اور ہر زوال کے بعد عروج ہے، اور عروج کو زوال ہے۔ دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک حکومتیں قائم ہوئیں، لیکن پھر ایک دن اسے ختم ہی ہونا پڑا۔ دنیا کی کوئی چیز ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بھارت میں بڑھتی اس نفرت کا بھی ایک دن سورج غروب ہوگا۔

a3w
a3w