محمد انیس الدین
جب سے بھارت میں زعفرانی اقتدار آیا ہے منصوبہ بندی اور عیاری سے مختلف غیر دستوری‘ غیر اخلاقی طریقوں سے حزب اختلاف کو لاچار اور مجبور کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے دو پارلیمانی انتخابات گزرنے کے بعد تیسری میعاد کے آغاز تک بھی حزب اختلاف زعفرانی حکومت کے خاتمہ میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
سوال دستور اور جمہوریت کا ہے‘ اگر حزب اختلاف میں تھوڑی بھی حمیت ہوتی اور دستورو جمہوریت کا پاس و لحاظ ہوتا تو حزب اختلاف کو متحد ہونے میں تاخیر نہ ہوتی۔ لیکن ان کے پاس دستور اور جمہوریت کو چھوڑ کر اپنے مفادات‘ انا ‘ علاقہ واریت اور وزارت عظمیٰ کی کرسی پر قبضہ کو فوقیت حاصل ہے۔ اس کے ساتھ حکومت مسلسل ہتھکنڈوں جیسے ای ڈی کی برہنہ تلوار کا خوف بھی ان کے متحد ہونے میں حائل دکھائی دیتا ہے۔ کیا حزب اختلاف اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ اس کو دستور ‘ جمہوریت اور اداروں کی بے اختیاری‘ سرحدوں سے لاپرواہی‘ معیشت کی بدحالی‘ بینکوں کی منظم لوٹ‘ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی‘ عوامی سرمایہ کی لوٹ اور ملک کو آمریت‘ فسطائیت کی آغوش میں جاتے ہوئے دیکھنا اور دوبارہ ایک دورِ غلامی میں جانا ۔ ان سب بربادیوں کے مقابلہ میں انہیں اپنے مفادات عزیز ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو حکومت کو اپنی ساری بدنظمی ‘بدانتظامی اور دستور و جمہوریت کی دھجیاں اڑانے اور قانون و عدلیہ کی مسلسل خلاف ورزیوں کے بعد بھی تیسری میعاد میں داخلہ میں کوئی دشواری حائل نہیں ہوگی۔ اس کی تمام تر ذمہ دار حزب اختلاف پر ہوگی جو نہ تو متحد ہوکر آمریت اور فسطائیت کا مقابلہ کرسکا اور نہ ان کی ناکام پالیسیوں اور EVM کے غلط استعمال سے روک سکی ۔ صرف EVM پر روک لگانے کے لئے سارا ملک متحد ہوجاتا تو زعفرانی حکومت کو تیسری میعاد میں داخلہ سے روکا جاسکتا ہے۔حزب اختلاف کا اتحاد ہی ملک کو آمریت سے بچاسکتا ہے۔
سارے عالم میں بڑی طاقتیں اپنی بالادستی اور مفادات کے حصول کے لئے کوئی ہارپ ہتھیار بنارہا ہے تو کوئی مائکرو لہروں کی ٹیکنالوجی کو فروغ دے رہا ہے تو کوئی ڈرون کی تیاری میں مصروف ہے تو کوئی مصنوعی ذہانت میں سبقت لے جارہا ہے لیکن ہمارے ملک میں زعفرانی بالادستی اور دستور کو تبدیل کرنے کیلئے اور عوام پر آر ایس ایس کے نظریات جبراً مسلط کرتے ہوئے ایک مذہب ایک قوم ایک زبان ایک لباس اور ایک انتخاب اور ایک ووٹ ایک فیملی ایک کھانا‘ ایک پینا‘ یکساں تعلیم‘ یکساں قوانین اور نہ جانے ڈکشنری میں جتنے ایک ہیں ان پر عمل کرتے ہوئے بھارت کو یکتائی کے ایک طاقت کے طور پر ترقی دینا چاہتے ہیں اور جب تمام امور یکتائی پر آجائیں گے تب زعفرانی ٹولہ ایک جماعت ایک حاکم ایک دھرم کے نظریہ کو اپناتے ہوئے مکمل فسطائیت کی آغوش میں چلا جائے گا۔جب تک عوام حرکت میں نہیں آتی اور حزب اختلاف میں بغیر کسی شرط کے متحد نہیں ہوتی اور EVM کے استعمال پر قانونی پابندی نہیں ہوتی ملک میں فسطائیت کے طوفان اور آمریت کے ہتھکنڈے اور ای ی ڈی کی تلوار حرکت میں رہے گی۔ دستور ‘ جمہوریت اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت نہ صرف دشوار بلکہ ناممکن ہے۔
8سالہ دور زعفرانی سے عوام نے سبق حاصل نہیں کیا۔ مسلسل دستور اور جمہوریت کو ایک منصوبہ بند طریقہ سے نقصان ہورہا ہے۔ لیکن نہ تو عوام حرکت میں ہے اور نہ حزب اختلاف کوکوئی احساس ۔ سب مل کر دستور اور جمہوریت کی پامالی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ سب خوفزدہ ہیں ‘ اب تو زعفرانی جماعت کے ایک قائد بہ بانگ دہل یہ اعلان کررہے ہیں کہ ملک کی عدالت عظمی بھی وزیراعظم سے خوفزدہ ہے ۔
سیاسی بصیرت اور ملکی حالات پر گہری نظر رکھنے والے اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ ملک کو فسطائیت اور آمریت کے دلوں سے صرف بہوجن سماج اور مسلمان ہی باہر نکال سکتے ہیں لیکن یہ کام صرف زبانی جمع بندی اور دل کو خوش کرنے والی تقریروں اور جزباتی نعروں سے نہیں ہوسکتا۔ اس کیلئے تحریک اور مضبوط اتحاد اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ملک کے تمام مظلومین یکجاہوجائیں کوئی آپ کی جانب نظر نہ کرسکے گا۔ ملک کی تمام بہوجن سماجی تنظیمیں اور مسلمانوں کی جماعتیں اس اتحاد کیلئے ایک آواز ہوجائیں اور اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ انتخابات کے قریب آپ سے جھوٹے وعدے کرکے آپ کو تسلی اور پرسہ دے کر آپ کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے آپ کے حقیقی دشمن میدانِ سیاست میں سرگرم ہوکر آپ کو مزید پانچ سالوں تک خاموش اور بے بس اور کمزور اور لاچار کرنے کیلئے آپ کو عہدوں کا لالچ دیا جائے گا اور آپ کو سرمایہ فراہم کیا جائے گا اور مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے بہوجن سماج اور مسلم سماج کو منتشر کیا جائے گا۔ سماج کے وہ افراد اور جماعتیں جو اس گھناؤنی سازش کا شکار ہوں گے اور اجتماعیت کو چھوڑ کر اپنے حقیر مفادات اور عہدوں کو فوقیت دیں گے تو یہی سماج کے حقیقی دشمن اور مظلومین کے خون کا سودا کرنے والے ہیں۔
حق کی جیت ہوگی ظالموں کا منہ کالا ہوگا اگر بہوجن سماج اور مسلم سماج ایک ہوجائے ۔ گھر گھر مہم چلائی جائے اور ہر گھر پر دستک دی جائے اور ہر محلہ میں گروپ میٹنگ کا انتظام کیا جائے صرف انتخابات کے قریب جھوٹے وعدے کرکے حرکت میں آنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
آزادی کے بعد سے برہمن سماج اپنی برتری اور بالادستی کیلئے مختلف حربے استعمال کرتا رہا اور وہ کامیاب بھی ہوگئے۔ بہوجن اور مسلم سماج کو عہدوں سے نوازا گیا۔ کیا ان عہدوں پر فائز رہ کر ان افراد نے بہوجن اور مسلم سماج کی فلاح و بہبودکیلئے کوئی کارنامہ انجام دیا ہے؟
ملک کے حالات تبدیل ہوگئے فسطائی طاقتیں عروج پر ہیں 75سالوں سے دو دشمنوں سے مقابلہ ہے ایک ظاہری دوسرا باطنی ان دونوں کی رسہ کشی نے ملک کو بدترین حالات سے دوچار کردیا اور فسطائی طاقتوں کو عروج حاصل ہوا اور باطنی طاقتیں اپنے کئے کی سزا پارہی ہیں اور دوبارہ افق سیاست میں ابھر کر مقام حاصل کرنے کے موقف میں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔
آپ کا دستور تبدیل ہونے کو ہے اور بابائے قوم بھی تبدیل ہوجائیں گے ‘ آپ کی پارلیمان کی عمارت کا نشان بھی تبدیل ہوگا‘ کرنسی پر بھی دوسرے بابا نمودار ہونے کے آثار نمایاں ہیں اور آخر کار آپ کو ایک دھرم کی طرف لایا جارہا ہے اور اس کیلئے آپ کو مجبور کیا جائے گا ‘ آخر بھارت کی عوام کس بات کا انتظار کررہی ہے یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔
بہوجن اور مسلم سماج تحفظ دستور کیلئے امید کی آخری صورت ہیں کیوں کہ دیگر سماج فسطائیت کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں یا زعفرانی یلغار سے مرعوب ہوکر لاچار و بے بس ہوگئے ہیں۔
حرکت میں آئیے ‘ حرکت میں برکت ہے‘ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کیجئے اور بہوجن سماج ‘ مسلم سماج جو بھارت کا مظلوم طبقہ ہے ان پر مظالم میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ یہی دو مظلوم طبقات ملک کے حالات کو بدل سکتے ہیں۔
بہوجن سماج حرکت میں ہے ‘ ان کی بے شمار تنظیمیں بھارت میں کام کررہی ہیں ‘ ان کے اپنے چینلس اور سوشیل میڈیا کے مراکز اور مختلف کتابیں اور پمفلٹ مختلف زبانوں بشمول اردو ‘ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے شب وروز مصروف ہیں۔ منظم کام ہورہا ہے جو قابل تقلید ہے ۔ لیکن ان تمام گروپس میں بھی اتحاد کا فقدان ہے ۔ یہ سب گروپس متد ہوجائیں۔
مسلم سماج منتشر ہے‘ مسلمان نہ ایک قومی سطح کا انگریزی اخبار شائع کرسکے اور نہ ان مظلوموں کا کوئی علاقائی ٹی وی چینل ہے اور نہ قومی۔ ہم صرف غیروں کے چینلس پر انٹرویو میں جاکر فخر محسوس کرتے ہیں۔ مسلمان لاکھوں روپیہ ہوٹل کے کاروبار میں لگاتے ہیں‘ کروڑوں کی کاریں خریدتے ہیں‘ ہزاروں افراد کی ضیافت کرتے ہیں اور اسراف ‘ جھوٹی شان میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں اور ایک ماہ میں کروڑوں کا حلیم کاکاروبار کرتے ہیں لیکن ملی مفاد اور اجتماعی کاموں کے فروغ میں کوئی دلچسپی نہیں۔
بہوجن سماج اور مسلم سماج ایک ہوجائے کیوں کہ ان دونوں ہی پر مظالم کے پہاڑ ٹوٹے ہیں اور دونوں بھی حقوق سے محروم ہیں اور ایک اقلیت‘ اکثریت کا ٹھونگ رچا کر اور بہوجن سماج کو مراعات سے نواز کر اپنا الو سیدھا کرکے ان کو اپنے قدموں سے دور کرنا نہیں چاہتے۔ آدی واسی ہندو نہیں اور بہوجن سماج بھی ہندو نہیں‘ سکھ اور لنگایت بھی ہندو نہیں‘ لمباڑہ طبقہ بھی مورتی پوجا نہیں کرتا‘ اب تو نیپال پر بھی امبیڈکر وادیوں کی حکومت ہے جو بدھ دھرم کے ماننے والے ہیں۔
بہوجن سماج اور مسلم سماج کے مشترکہ پروگرام ہوں ایک دوسرے کے سوشیل میڈیا چینلس پر باہمی امور ‘ شعور بیداری کی مہم چلائی جائے۔ عوام کو بتایا جائے کہ سماج کے طبقوں کے ساتھ حکمرانوں کا کیا رویہ ہے اور مستقبل میں حکمران جماعت ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرنے والی ہے ۔
سیاسی جماعتوں کو مسلم اور بہوجن سماج کی ضرورت ہے لیکن وہ اپنی بقاء اور برتری اور بالادستی کو قائم رکھنے کے لئے آپ سے صرف ووٹ حاصل کرتے ہیں اور پھر نظر انداز کردیتے ہیں۔ آپ کو جائز حقوق سے عمداب محروم رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو حقوق سے نوازا گیا تو یہ سیاسی طور پر مضبوط ہوکر برہمنوں کی صدیوں سے جاری بالادستی کا خاتمہ کردیں گے۔
آزاد ہند کے 75سالہ دور میں بہوجن سماج اور مسلم سماج مسلسل ظلم و زیادتی اور استحصال کا شکار رہا اور جس جانب ہانکا جاتا یا کوئی لالچ دیتا تو یہ مظلوم سماج اس جماعت کی مدح سرائی میں مصروف ہوکر اپنے جائز اور دستوری حقوق کے حصول کو بھول گئے۔ اور اس سماج کو ووٹ دے کر حق کیلئے ہاتھ پھیلانے کی ایک عادت سی ہوگئی ہے۔ اب اس روش کو ترک کرنا ہوگا۔ حقوق بھیک میں نہیں ملتے اس کیلئے ایک مضبوط سیاسی طاقت حاصل کرنا ہوگا ۔
بہوجن اور مسلم سماج بھارت میں اپنی آنے والی نسلوں کو ظلم و زیادتی‘ آمریت‘ فسطائیت‘ سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اور ملک کی ترقی اور خوشحالی کے خواہشمند ہیں تو آپ کو لالچ‘ عہدوں کو ٹھکراتے ہوئے تحفظ دستور اور جمہوریت اور ملک کی سلامتی کیلئے ایک مضبوط اتحاد کے طور پر آگے آکر آمریت اور فسطائیت کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
زعفرانی حکومت کی دوسری میعاد اب قریب الختم ہے ۔ اگر انہیں تیسری میعاد میں داخل ہونے کا موقع دیا گیا تو اس کے بعد عوام کو سانس لینا بھی دشوار ہوجائے گا کیوں کہ نفرت کی فضاء سارے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور کوئی آتش فرو عملہ اس آگ پر قابو نہ پاسکے گا۔
اگر ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری ہوتی ہے تو تمام پسماندہ طبقات ‘ قبائل اور تمام غیر ہندو اور مسلمانوں کو ملا کر یہ سماج 85فیصد ہوجاتا ہے۔