بی آر ایس۔۔قومی سیاست کو نیا رنگ و آہنگ دے سکے گی؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
ہندوستان جیسے کثیر جماعتی سیاسی نظام میں ہر تھوڑے دن کے وقفے سے ملک کے سیاسی افق پر کسی نئی سیاسی پارٹی کا وجود میں آنا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ دستور کے معماروں نے ہمہ جماعتی پارٹی سسٹم کی وکالت اسی مقصد سے کی کہ رائے دہندوں کے سامنے مختلف سیاسی نظریات کی حامل جماعتیں ہوں اور وہ ان میں سے جسے مناسب سمجھیں اس کے حق میں اپنی رائے ووٹ کے ذریعہ دیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ملک میں کسی ایک پارٹی کی اجارہ داری نہیں رہتی۔ ہر پانچ سال میں رائے دہندوں کو یہ پورا اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی پسند کی پارٹی کے امیدواروں کو الیکشن کے موقع پر منتخب کریں۔ دستورِ ہند میں ہمہ جماعتی سیاسی نظام کو اہمیت دینے کے نتیجہ میں ملک میں بھانت بھانت کی سیاسی پارٹیاں ابھرتی رہیں۔ پورے ملک میں اپنا اثر و رسوخ رکھنے والی قومی پارٹیوں کے علاوہ ملک کی بیشتر ریاستوں میں علاقائی پار ٹیاں بھی بنتی رہیں۔ ملک کے بعض مخصوص علاقوں میں مقامی سیاسی پارٹیاں بھی عوام پر اپنی گرفت رکھنے میں کامیاب رہیں ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملک میں کئی سیاسی پارٹیوں کے سرگرم عمل رہنے سے ہندوستان کے سیاسی نظام میں بڑی حد تک پختگی محسوس کی گئی۔ عوام میں سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ سیاسی بیداری پیدا ہوئی۔ لیکن حالیہ عرصہ میں سیاسی پارٹیوں میں واضح نظریہ کے فقدان کی وجہ سے وہ عوامی تائید سے محروم ہوگئیں ۔ مثال کے طور پر انڈین نیشنل کانگریس ملک کی سب قدیم ترین سیاسی پارٹی ہے۔ جدوجہد ِ آزادی کے دوران سارے مجاہدین آزادی نے کانگریس کے جھنڈے تلے ہی تحریک آزادی کی مہم چلائی اور ہندوستان کو غلامی کے بندھن سے آزاد کرایا۔ ہندوستان کو آزادی دلانے کا سہرا بہرحال کانگریس کے سر جا تا ہے۔ ملک کی آزادی کے بعد بھی کانگریس نے ملک کی تعمیر نو میں غیرمعمولی کردار ادا کیا۔ ہندوستانی جمہوریت ہمہ جماعتی پارٹی سسٹم کی علمبردار ہونے کے باوجود ہندوستان کی آزادی کے کم وبیش پچاس سال تک یہ ملک واحد جماعتی غلبہ والا ملک کہلاتا رہا۔ کانگریس بِلا شرکت غیرے نصف صدی تک ملک پر راج کر تی رہی۔ یہ کوئی ڈکٹیٹر شپ نہیں تھی بلکہ کانگریس کو عوامی تائید و حمایت حاصل رہی، لیکن جب کانگریس نے اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کو توڑنا شروع کر دیا، جمہوری اقدار اور سیکولر نظریات جب صرف عوام کو دکھانے کے لیے رہ گئے تو پھر کانگریس زوال پذیر ہو تی چلی گئی اور آج کانگریس اپنی تاریخ کے ایک بہت ہی بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ ہندوستان کی 29 ریاستوںمیں کانگریس صرف 3ریاستوں میں حکومت کررہی ہے۔ ان میں راجستھان ایک بڑی ریاست ہے ، ہماچل پردیش میں ابھی اسے اقتدار ملا ہے اور ایک چھوٹی ریاست چھتیس گڑھ میں وہ بر سر اقتدار ہے۔ ملک کی بڑی ریاستیں اس کے قبضہ سے نکل گئی ہیں۔ ایک دور میں پورے شمالی ہندوستان میں کانگریس کا طوطی بولتا تھا۔ کانگریس کی طرح دیگر قومی پارٹیوں کا بھی حال کچھ بہتر نہیں ہے۔ خاص طور پر کمیونسٹ پارٹیاں سیاسی بے وزنی کے دور سے گزر رہی ہیں۔ مغربی بنگال میں 35 سال سے زیادہ عرصہ تک حکومت کرنے والی سی پی آئی ( ایم ) اب اپنی سیاسی بقا ءکے لیے پریشان ہے۔ قومی پارٹیوں کی شکست و ریخت کا راست فائدہ بی جے پی کو ہو رہا ہے۔ اس وقت زغفرانی پارٹی کا سکہ چل رہا ہے۔ حالیہ گجرات اسمبلی الیکشن میں زبردست کامیابی کے بعد بی جے پی کے حوصلے کافی بلند ہو گئے ہیں۔ وہ قومی سیاست میں نا قابل تسخیر سیاسی قوت بن کر ابھر رہی ہے۔
حالات کے اسی تناظر میں ملکی سیاست کو ایک نئی سمت دینے کے مقصد سے تلنگانہ اسٹیٹ کے چیف منسٹر کلوا کنٹلا چندر شیکھر راو¿ نے اپنی علاقائی پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو بھارت راشٹرا سمیتی کا نام دیتے ہوئے اسے قومی پارٹی بنانے کا اعلان کیا۔ گز شتہ دنوں دہلی میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ کے سی آر نے بی آر ایس کے مرکزی آفس کاافتتاح ملک کے قدآور سیاسی قائدین کی موجودگی میں کیا۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر اور بی آر ایس سربراہ کا ماننا ہے کہ ملک میں اس وقت ایک سیاسی خلا پایا جا تا ہے جسے ان کی قومی پارٹی پُر کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کو حق ہے کہ وہ ملک کے کسی بھی حصہ میں سیاسی سرگرمیاں انجام دے۔ کے سی آر ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں ۔ وہ حالات کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لے کر کوئی قدم اٹھاتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال تلنگانہ راشٹرا سمیتی قائم کرکے انہوں نے تلنگانہ ریاست حاصل کی۔ علیحدہ تلنگانہ کے لیے سابق میں کئی تحرکیں چلائی گئیں لیکن یہ خواب پورا نہ ہو سکا، لیکن کے سی آر کے عزم مصمم نے تلنگانہ ریاست کو ایک حقیقت بنادیا۔ کے سی آر نے علحدہ ریاست تلنگانہ کے قیام کے لیے جدوجہد کے واحد نکاتی ایجنڈا کے ساتھ اکیس سال پہلے ٹی آر ایس کو قائم کیا۔ 27 اپریل 2001کو ٹی آر ایس قائم ہوئی اور 2 جون 2014کو ریاست تلنگانہ وجود میں آ گئی ۔اتنے مختصر عرصہ میں شاید ہی کوئی اور ریاست کے علحدہ وجود کو تسلیم کیا گیا ہو۔ علحدہ تلنگانہ تحریک تو کئی دہوں سے چل رہی تھی لیکن اس میں کے سی آر نے جان ڈال دی، اس سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ تلنگانہ کے تمام طبقات نے اس تحریک میں حصہ لیا۔ علحدہ تلنگانہ کے قیام کے لیے مسلمانوں نے بھی غیر معمولی قربانیاں دیں۔ خاص طور پر جماعت اسلامی اور ایم پی جے کا رول نا قابل فراموش ہے۔ طلباءاور اساتذہ سے لے کر سرکاری ملازمین اور خانگی اداروں سے وابستہ ہر شخص اس تحریک کا حصہ رہا۔ علحدہ تلنگانہ تحریک ، تلنگانہ کے ساتھ روا رکھی گئی نا انصافیوں کے خلاف عوامی جدوجہد تھی۔ کے سی آر نے تحریک کے مختلف مرحلوں میں اس کی قیادت کرتے ہوئے اسے منزل تک پہنچایا۔ تلنگانہ عوام نے بھی ان کی جدوجہد کو یاد رکھتے ہوئے تلنگانہ اسمبلی کے پہلے الیکشن میں ان کی پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع دیا۔ دوسری مرتبہ بھی وہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کا میاب رہے۔ تلنگانہ کے قیام کے بعد سے کے سی آر ریاست کے چیف منسٹر ہیں۔ یہ خود ان کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ تاریخ میں بھی وہ "تلنگانہ سپوت "کی حیثیت سے اپنا ایک منفرد مقام رکھیں گے۔ تلنگانہ ریاست کے قیام کے بعد انہوں نے "سنہرا تلنگانہ "کے لیے کیا انقلابی اقدامات کیے، اس پر ہمیشہ سوالات اٹھتے رہے۔ ان کی پارٹی دعوی کرتی رہی کہ گز شتہ آٹھ سال کی مختصر مدت میں تلنگانہ ملک کی ایک مثالی ریاست بن گئی۔ اس نوزائیدہ ریاست نے مختلف شعبوں میں غیر معمولی ترقی کی۔ انفارمیشن ٹکنالوجی میں تلنگانہ ریاست دوسری ریاستوں کو پیچھے چھوڑ دی ہے۔ حیدرآباد کے تعلق سے کہا جا رہا تھا کہ تلنگانہ کے قیام کے بعد یہ شہر ویران ہوجائے گا۔ روزگار کے سارے ذرائع مفقود ہوجائیں گے۔ لیکن اس کے بالکل برعکس دیکھا جا رہا ہے۔ کئی ملٹی نیشنل کمپنیوںنے حیدرآباد کا رخ کیا اور اب یہ شہر آئی ٹی ہب بن چکا ہے۔ لیکن دیگر شعبوں میں جو توقعات کی جا رہی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ تعلیم کا شعبہ دن بہ دن انحطاط کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ صرف عثمانیہ یونیورسٹی کا حال دیکھ لیاجائے تو ساری ریاست میں کیاہو رہا ہے معلوم ہو جائے گا۔ یونیورسٹی میں برسوں سے تقررات نہیں ہوئے ہیں۔ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ایک بھی مستقل استادنہیں ہے۔ان سارے تلخ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کیسے تصور کیا جا ئے گا کہ تلنگانہ ریاست برق رفتاری سے ترقی کی منزلوں کو طے کرتی جا رہی ہے۔
ٹی آر ایس کو بی آر یس کا روپ دے کر کے سی آر قومی سیاست میں اپنا لوہا منوانا چاہتے ہیں تو ان کے لیے ہماری نیک خواہشات ہیں، لیکن کیا واقعی بی آر ایس ملکی سیاست میں اپنا رنگ جما سکے گی۔ بی جے پی جس انداز میں فرقہ وارانہ ایجنڈے کے ساتھ ملک کے عوام کو گمراہ کرکے اپنی سیاسی بساط بچھانے کی تیاری میں لگی ہوئی ہے ،ٹی آر ایس پارٹی ، جس کی کل تک شناخت محض ایک علاقائی پارٹی کی تھی ، وہ کس طرح ایک طاقتور قومی پارٹی کے عزائم کے سامنے ٹِک سکے گی۔ کے سی آر ، بی جے پی سے محاذ آرائی کرتے ہوئے تو نظر آرہے ہیں لیکن وہ کانگریس کو ساتھ لیے بغیر ملک سے فرقہ پرستی کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ان کی نظر میں بی جے پی اورکانگریس ایک ہیں تو پھر ان کی اس دھماکہ خیز انداز میں قومی سیاست میں آمد کس کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت ہو گی۔ یہ بات عام شہری بھی جانتا ہے کہ بی جے پی کا اپنا ووٹ بینک ہے۔ ملک میں کوئی بھی پارٹی الیکشن میں آئے بی جے پی کا ووٹر اپنی وفاداری تبدیل نہیں کرتا۔ گجرات کے نتائج نے یہ بات ثابت کر دی۔ گجرات کے عوام نے کئی مصیبتیں جھیلیں لیکن پھر بھی ان کاووٹ بی جے پی کی کشکول میں گیا۔ آثار و قرائن تو یہی بتاتے ہیں کہ جو بھی سکیولر پارٹی ، بی جے پی کو شکست دینے کا اعلان کر کے انتخابی میدان میں آئے گی وہ بالواسطہ بی جے پی کو فائدہ پہنچائے گی۔ گجرات میں عام آدمی پارٹی کے داخلہ نے کانگریس کو کہیں کا نہیں رکھا۔ سارے سیکولر ووٹ منتشر ہوگئے اور بی جے پی نے اپنی کا میابی کے سارے سابق ریکارڈ توڑ دیے۔ کے سی آر کی پارٹی بھی اگر بی جے پی کو بیساکھی فراہم کرنے کا کام کرے گی تو پھر ہندوستانی سیاست میں سدھار کے سارے امکانات ختم ہوجائیں گے۔ کے سی آر قومی سیاست میں سرگرم ہوں،لیکن زمینی حقائق پر بھی ان کی نظر ہو۔ بی آر ایس کے آفس کے افتتاح میں سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھیلیش یادو، جنتا دل ایس کے لیڈر کمارا سوامی کے بشمول اور بھی قائدین آئے۔ لیکن کیا یہ سب ایک مشترکہ منشور کے ساتھ الیکشن میں متحدہ حصہ لینے کے لیے تیار ہوں گے۔ اسی طرح بہار کے نتیش کمار اور تیجسوی یادو ، مخالف بی جے پی قائدین ہیں ۔ ایسے قائدین کے سی آر کے ساتھ انتخابی مفاہمت کریں گے۔ ہر سیکولر پارٹی اس زعم میں مبتلا ہو کہ دوسرے اس کی لیڈر شپ کو قبول کر یں تو یہ ممکن نہیں ہے کہ بی جے پی کو سیاسی بن باس میں بھیج سکیں۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر نے قومی پارٹی تو تشکیل دے دی ہے لیکن سیکولر پارٹیوں کے درمیان ہی مختلف مسائل پر اختلاف ہوجائے اور وہ انتشار کا ذریعہ بن جائے تو یہ بھی بی جے پی کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ بھارت راشٹرا سمیتی ( بی آر ایس ) کا بنیادی مقصد ملک سے فسطایت کو ختم کرنا ہو تو اس کے لیے چندر شیکھر راو¿ صاحب کو ایثار و قربانی سے کام لینا ہوگا۔ کانگریس کی غلطیوں کے باوجود اس کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ بی جے پی "کانگریس مکت "کا نعرہ دے کر عوام کو کانگریس سے بدظن کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے۔دوسری طرف ساورکر کی تصویر پارلیمنٹ میں لگانے کے بعد اب اسمبلیوں میں بھی لگائی جا رہی ہے۔ کرناٹک اسمبلی میں دو دن پہلے ساورکر کی فوٹو لگادی گئی۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی پوری تیاری کرلی گئی ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کو منظور کرلیا گیا۔ اس طرح اور بھی متنازعہ موضوعات آ تے رہیںگے۔ سیکولر پارٹیاں محض بی جے پی کو حکومت سے بید خل کرنے کے اعلان کے ساتھ قومی سیاست میں کود پڑیں گی اور اس کے لیے کوئی روڈ میاپ تیار نہیں کیا جاے گا تو سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور 2024کی مہابھارت بی جے پی جیت لے گی اور اس وقت بھارت راشٹرا سمیتی کے لیے دہلی میں کوئی کام نہ ہوگا۔ اس لیے بی آر ایس ، بی جے پی کے مذموم منصوبوں میں رنگ بھرنے کاکام نہ کرے۔٭٭