طنز و مزاحمضامین

بے ایمانی ، کم بے ایمانی

حالیہ دنوں میںایک بڑی خبر بہار سے آئی کہ وہاں ایک پروفیسر نے اپنی 33 ماہ کی تنخواہ تقریباً 24لاکھ روپئے کالج کو لوٹا دی ، کیونکہ ایک بھی طالب علم ان کے لیکچر میں شریک نہیں ہوا تھا ...پروفیسر لالن کمار کا کہنا ہے ’’ میرے ضمیر نے مجھے تنخواہ لینے کی اجازت نہیں دی، اگر میں بناپڑھائے تنخواہ لیتا تو یہ میرے لیے علمی موت ہوتی۔‘‘...اگرفرائض کو انجام دیتے ہوئے ایسی بے مثال ایمانداری ہمارے سیاست دانوں میںاجاگر ہوجائے تو کچھ عجب نہیں کہ ہمارا ملک دوبارہ سونے کی چڑیا کہلائے ...یاد رہے کہ 15 اگست 1947 کو ہندوستانی روپے اور امریکی ڈالر کے درمیان شرح تبادلہ ایک کے برابر تھی...اور آج ہماری کرنسی گرتے گرتے ڈالر کے مقابلے 80روپئے ہوگئی ہے ... چمن بیگ سوال کرتے ہیں: کیا بے ایمان انگریز ہمارے ایماندارسیاست دانوں سے کم بے ایمان تھے...؟

حمید عادل

فلم ’’شعلے ‘‘کاگبر سنگھ تھا تو ایک ڈاکولیکن بڑا ایماندار اور انصاف پسند تھا…وہ اپنے تین ساتھیوں کے کام سے ناراض ہوکر انہیں موت کے گھاٹ اتارنے پر تل جاتاہے ،اس کے ہاتھ میں موجود ریوالورمیں چھ گولیاں ہوتی ہیں، اس کی غیر معمولی ایمانداری ہرگز یہ گوارا نہیں کرتی کہ آدمی تین ہوں اور گولی چھ، چنانچہ وہ تین گولیاں ہوا میں چلا کر ضائع کردیتا ہے، کیوں کہ گبر سنگھ ’’ چھ گولی، آدمی تین‘‘ کو ’’ بہت نا انصافی‘‘ تصور کرتا ہے …گبر سنگھ، تین گولیاں ہوا میں چلا کر ، پہلے ہی اس بات کا ثبوت فراہم کردیتا ہے کہ گولیاں بچانا، اس کا مقصد نہیں ہے …غور طلب ہے کہ گبر سنگھ بہت غصے میں تھا،چاہتا تو تینوں کو گولیاں سے چھلنی کرسکتا تھا، لیکن اس کی ایمانداری ایسی کہ وہ ایک گولی بھی زائد مار کر انہیں زائد اذیت سے دوچار کرنا نہیں چاہتا تھا… ایسی ایمانداری ایسی شفافیت تو آج ہمارےسیاسی اوراور قانونی نظام میں بھی نظر نہیں آتی…
دوستو!یہاںہمیں بچپن میں پڑھائی گئی ایماندار لکڑ ہارے کی کہانی یادآرہی ہے ،ملاحظہ فرمائیں:
ماضی کا لکڑہارا
ایک دفعہ ایک لکڑ ہارے کی کلہاڑی جنگل میں ایک دریا میں گر جاتی ہے ، بیچارہ اسے تلاش کرکے تھک جاتا ہے مگرکلہاڑی اسے مل ہی نہیں پاتی ۔آخر کار پریشان ہوکر ایک درخت کے سائے میں بیٹھ جاتا ہے کہ اچانک ایک جن وہاں نمودار ہوتاہے اور پریشانی کی وجہ پوچھتا ہے ۔لکڑہارا اپنی پریشانی بیان کرتاہے ، جن لکڑہارے کی ایمانداری کو جانچنے کے لیے اس کے روبرو چاندی کی کلہاڑی پیش کرکے پوچھتا ہے کیا یہ تمہاری کلہاڑی ہے ؟ لکڑہارا نفی میں جواب دیتا ہے …اس کے بعد جن سونے کی کلہاڑی پیش کرکے پوچھا ہے کیا یہ تمہاری کلہاڑی ہے ، لکڑہارا پھر نفی میں جواب دیتاہے …جن اب کی بار لکڑ ہارے کی اصلی کلہاڑی جو لوہے کی ہے پیش کرتاہے ، لکڑ ہارا اسے خوشی خوشی لے لیتاہے …لکڑ ہارے کی ایمانداری سے جن متاثر ہوکر سونے اور چاندی کی دونوں کلہاڑیاں انعام کے طور پر دے دیتا ہے اور لکڑ ہارا ایمانداری کا صلہ پاکر خوشی خوشی گھر کی راہ لیتا ہے ۔
آج کا لکڑ ہارا
ایک دن لکڑہارا اپنی شریک حیات کے ہمراہ جنگل کی راہ لیتا ہے ،لیکن بد قسمتی سے اس کی بیوی دریا میںگر جاتی ہے اور ڈوب جاتی ہے پھرلکڑ ہارا تھک ہار کے ایک درخت کے نیچے بیٹھ جاتا ہے اور وہی جن پھر اس کے سامنے حاضر ہوجاتا ہے اور لکڑ ہارا اس کو اپنی کہانی سناتا ہے ۔ جن اس کے سامنے ایک خوبصورت لڑکی حاضر کرتاہے اور پوچھتا ہے کہ کیا یہی تمہاری بیوی ہے ؟ لکڑ ہارا اس خوبصورت دوشیزہ کو دیکھ کر فوراً جواب دیتاہے : ہاں یہی میری بیوی ہے ۔جن کو لکڑ ہارے کی بے ایمانی پر بہت غصہ آتاہے ، وہ کہتا ہے کہ اس جھوٹ اور بے ایمانی کی سزا تم کو ضرور ملنی چاہیے ۔ لکڑ ہارا جن کو غصے میں دیکھ کر عرض کرتاہے : پہلے میری بات سنو،مانتا ہوں کہ میں نے بے ایمانی کی ہے اور جھوٹ بولا ہے، لیکن اس خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر میں ’’نہ‘‘ کہتا تو تم ایک اور لڑکی لے کر آتے ، میں پھر ’’نہ‘‘ کہتا تو تم میری اصل بیوی کو حاضر کرتے اور میں ’’ ہاں‘‘کا نعرہ مارتا اور تم میری غیر معمولی ایمانداری سے متاثر ہوکر تینوں کو یعنی میری بیوی اور دونوں لڑکیوں کو میرے حوالے کردیتے …مگر میں ایک غریب آدمی ہوں ، تم تو جانتے ہو،مودی جی کے دور میں مہنگائی نے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں ،میں بھلا تینوںکے اخراجات کیسے سنبھال پاتا، اس لیے میں نے پہلی بار ہی ’’ ہاں ‘‘ کہہ دیا …لکڑ ہارے کا جواب سن کر جن لاجوب ہوگیا اورتڑپ کر کہا :’’بھائی !’’ مودی ہیں تو ممکن ہے ‘‘!جاؤ اسی خوبصورت لڑکی کو لے جاؤ!‘‘
لکڑ ہارا، ایمانداری سے بے ایمانی کرکے برباد ہونے سے بچ گیا،جب کہ ایمانداری کا سبق سکھانے کے لیے کبھی کبھی بے ایمانی بھی کرنا پڑتا ہے …
ترکی کے مُلا نصیر الدین کے پڑوس میں ایک مال دار یہودی رہتا تھا، جو بڑا کنجوس تھا۔مُلا نصیر الدین نے کئی مرتبہ اسے سمجھایا کہ خدا نے تمہیں ڈھیر ساری دولت دی ہے، اسے مفلس اور غریب لوگوں پر خرچ کیا کرو، لیکن اس نے مُلا کی کوئی نصیحت نہ سنی۔ ایک روز آخر مُلا نصیر الدین نے اُسے سزا دینے کے لیے ایک ترکیب سوچی وہ صبح سویرے نماز پڑھ کر زور زور سے دُعا مانگنے لگے… یا اللہ اگرتونے مجھے ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی بھیج دی تو میں اُسے محتاجوں اور ضرورت مندوں پر صرف کردوں گا۔ لیکن اگر اس میں اسے ایک اشرفی بھی کم ہو گی تو ہر گز قبول نہ کروں گا۔ یہودی نے یہ دعا سنی تو سوچا ملُا بڑا ایمان دار بنتا ہے اس کی ایمان داری آزمانی چاہیے۔ یہ سوچ کر اس نے تھیلی میں 999 اشرفیاں بھریں اور عین اس وقت جب مُلا نصیر الدین دعا مانگ رہے تھے اشرفیوں کی تھیلی صحن میں پھینک دی۔ مُلا نصیر الدین نے لپک کر تھیلی اٹھا لی اور اس میں سے اشرفیاں نکال کر گننے لگے۔ کل999 اشرفیاں تھیں…مُلا نے خدا کا شکر ادا کیا اور کہنے لگا کہ : یا اللہ میں تیرا شکر گزار ہوں تونے میری دعا قبول فرمائی۔ ایک اشرفی کم ہے تو کوئی بات نہیں ،یہ اشرفی پھر کبھی دے دینا۔ یہودی نے جب مُلا نصیر الدین کے یہ الفاظ سنے تو سخت پریشان ہوا…وہ بڑبڑانے لگا:یہ مُلا تو بہت چالاک نکلا، اس نے دھوکے سے میری اشرفیاں ہتھیالیں۔ وہ بھاگا بھاگا مُلا کے پاس آیا اور کہنے لگا: تمہارے پاس جو اشرفیاں ہیں وہ میری ہیں،لاؤ میری اشرفیاں واپس کرو تم نے تو کہا تھا کہ ہزار میں سے ایک اشرفی بھی کم ہوئی تو واپس کر دوں گا، لیکن اب تم999اشرفیاں قبول کرنے پر تیار ہو، تم بہت بے ایمان شخص ہو…مُلا نصیر الدین نے غصے سے کہا :تم کون ہوتے ہو مجھ سے اشرفیاں مانگنے والے، یہ تو میرے خدا نے مجھے بھیجی ہیں، جاؤ اپنا کام کرو۔ یہودی سیدھا عدالت میں گیا اور مْلا کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔ قاضی صاحب نے یہودی کو حکم دیا کہ مُلا نصیر الدین کو بلا لاؤ، ہم ابھی فیصلہ دیں گے۔ یہودی نے مْلا نصیر الدین کے پاس آکر کہاچلو تمہیں قاضی صاحب بلاتے ہیں۔ مُلا نے جواب دیا:تم دیکھ رہے ہو میرا لباس پھٹا پرانا ہے، میں اس شرط پر جانے کے لیے تیار ہوں کہ تم مجھے اچھے اچھے کپڑے لا کر دو۔ یہودی نے یہ شرط منظور کر لی اور صاف ستھرے کپڑے لا کر ملا کو دے دیے۔ مُلا نصیر الدین بیش قیمت لباس پہن چکے تو کہنے لگے: میاں یہودی!کیا اتنا قیمتی لباس پہن کر پیدل ہی قاضی کی عدالت میں جاؤں؟ لوگ دیکھیں گے تو کیا کہیں گے؟ جاؤاپنا گھوڑا لے آؤ، اس پر سوار ہو کر جاؤں گا۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ یہودی نے اپنا گھوڑا بھی مُلا کے حوالے کر دیا اور مُلا صاحب نہایت شان و شوکت سے گھوڑے پر سوار ہوکر عدالت میں پہنچے۔ مقدمہ پیش ہواقاضی صاحب نے دونوں کو غور سے دیکھا۔ مُلا نصیر الدین کا قیمتی لباس اورسواری کا گھوڑا بھی انھوں نے دیکھا اور یہودی کا لباس بھی اور یہ بھی محسوس کیا کہ وہ پیدل آیا ہے۔ یہودی نے جب سارا قصہ سنایا تو قاضی صاحب نے مُلا نصیر الدین سے کہا: مُلا صاحب تم اس کے الزام کا کیا جواب دیتے ہو؟ مُلا نے جواب دیا: قاضی صاحب یہ یہودی میرا پڑوسی ہے اور بڑا جھوٹا شخص ہے۔ ابھی تو یہ کہتا ہے کہ میں نے اس کی 999 اشرفیاں ہتھیا لی ہیں اور کچھ دیر بعد کہے گا کہ یہ لباس جو میں پہنا ہوا ہوں، وہ بھی اسی کا ہے۔ یہ سنتے ہی یہودی چلا اٹھا: ہاں جناب یہ لباس بھی میرا ہی ہے، میں نے اسے پہننے کے لیے دیا تھا۔ مُلا نے کہا: سن لیا آپ نے،اب یہ کہے گا یہ گھوڑا بھی اسی کا ہے۔ یہودی غصے سے چیخ اٹھا ’’ہاں! حضور یہ گھوڑا بھی میرا ہی ہے،‘ مُلا نے مجھ سے سواری کے لیے مانگا تھا۔‘‘ قاضی نے جو یہ باتیں سنیں تو یہودی کو ڈانٹ پھٹکار کر نکال دیا اور مقدمہ خارج کر دیا۔ یہودی روتا پیٹتا مُلا نصیر الدین کے گھر پہنچا اور ان کی بڑی منت سماجت کی۔ مُلا نے اس شرط پر اس کی اشرفیاں، لباس اور گھوڑا واپس کیا کہ وہ آدھی اشرفیاں غریبوںمیں بانٹ دے گا اور آئندہ بھی نادار لوگوں کی مدد کرتا رہے گا…اس واقعے کو پڑھنے کے بعد رہ رہ کر ہمیں یہ سوال ستاتا ہے کہ کیا وہ یہودی واقعی ایماندار ہوگیا ہوگا؟ ذہن میں اس سوال کے کلبلانے کی ایک اہم وجہ بھی ہے… اگر اس کے باپ نے بھی سیٹھ گورکھ ناتھ کی طرح مرتے مرتے نصیحت کر دی ہو تووہ یہودی بھلا کہاں سدھرے گا؟ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سیٹھ گورکھ ناتھ کہاں سے آگیا؟…
سیٹھ گورکھ ناتھ کا جب مرنے کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹے کو بلا کر کہا: دیکھو بیٹا !میرے بعد یہ دکان تم ہی کو سنبھالنی ہے ،سومیری دو باتیں ہمیشہ یاد رکھنا ،ایک ایمانداری دوسری سمجھداری، ایمانداری یہ ہے کہ ہمیشہ دوسروں سے بھلائی کرتے رہنا کیوںکہ یہی ہماری دھرم شکشا ہے۔بیٹے نے کہا: ٹھیک ہے پتا شری …اور سمجھداری کیا ہے؟ سیٹھ گورکھ بولے: دیکھو بیٹا ! بھول کر بھی کسی سے بھلائی نہ کرنا کیوںکہ تم جس سے بھی بھلائی کرو گے وہی تمہیں نقصان پہنچائے گا…
اسی طرح پشتو زبان کی ایک کہاوت ہے ’’ بھلائی نہ کرو تو آپ کے ساتھ برائی نہیں ہوگی‘‘ مشکوک کہتے ہیں :’’آج مقابلہ ایمانداری اور بے ایمانی کا نہیں ہے ، مقابلہ بے ایمانی اور کم بے ایمانی کا چل رہا ہے ۔جو کم بے ایمان ہیں وہ اپنے ضمیر کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’فی زمانہ لوگ کھلے عام بے ایمانی کررہے ہیں ، ہم اُن جیسے بے ایمان تو نہیںہیں ، ارے اب ہم جیسے کم بے ایمان کہاں ملتے ہیں ؟‘‘
’’یار دنیا سے ایمانداری بالکل ختم ہو گئی ہے، میرا ملازم چھ قمیضیں چرا کر بھاگ گیا ہے۔‘‘ ایک شخص نے دوست سے اپنا درد بانٹا۔
’’کتنی مالیت کی تھیں وہ قمیضیں۔‘‘دوست نے پوچھا۔
’’پتا نہیں، میں نے خریدی نہیں تھیں۔ کل کوئی میرے دفتر میں بھول گیا تھا، میں انہیں گھر لے آیا‘‘
آج ایمانداری آٹے میں نمک کے برابر ہے، اورایمانداری کایہ نمک، امیروں کے مقابلے میں غریبوں کے خون میںبدرجہ اتم پایا جاتا ہے …آئے دن ایسے واقعات منظر پر آتے ہیں کہ کسی غریب نے راہ میں ملے لاکھوں روپئے،مالک کو لوٹا دیے …یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اس بات کا یقین کامل ہوتا ہے کہ ایمانداری کبھی رائیگاں نہیں جاتی…بوسٹن سے تعلق رکھنے والے گلین جیمز بے گھر تھے،سرراہ انہیں ایک بیاگ ملا ، جس میں نقد رقم اور ٹریولرز چیک ملا کر کل 42,000 امریکی ڈالر تھے۔ انہوں نے اس بیاگ کی اطلاع پولیس کو دی جس نے اس کے مالک کو ڈھونڈ نکالا۔غریب جیمزچاہتے تو 42000امریکی ڈالر سے اپنی زندگی سنوار سکتے تھے لیکن انہوں نے یہ رقم ایمانداری سے پولیس کے حوالے کردی اورپھر جوانہیں ملا وہ اس رقم سے کئی گنا زیادہ تھا۔ذرائع ابلاغ میں ان کی ایمانداری کی خبریں پڑھ کر ایک اجنبی شخص نے ان کے لیے ایک آن لائن فنڈ کا آغاز کیا، جس کے تحت ایک لاکھ دس ہزار ڈالر سے زائد رقم جمع ہو گئی… یعنی ایمانداری کا انہیں بے پناہ فائدہ حاصل ہوا،انہیں ملی عزت اور شہرت الگ ہے، اس کا تو کوئی مول ہی نہیں ہے …
حالیہ دنوں میںایک بڑی خبر بہار سے آئی کہ وہاں ایک پروفیسر نے اپنی 33 ماہ کی تنخواہ تقریباً 24لاکھ روپئے کالج کو لوٹا دی ، کیونکہ ایک بھی طالب علم ان کے لیکچر میں شریک نہیں ہوا تھا …پروفیسر لالن کمار کا کہنا ہے ’’ میرے ضمیر نے مجھے تنخواہ لینے کی اجازت نہیں دی، اگر میں بناپڑھائے تنخواہ لیتا تو یہ میرے لیے علمی موت ہوتی۔‘‘…اگرفرائض کو انجام دیتے ہوئے ایسی بے مثال ایمانداری ہمارے سیاست دانوں میںاجاگر ہوجائے تو کچھ عجب نہیں کہ ہمارا ملک دوبارہ سونے کی چڑیا کہلائے …یاد رہے کہ 15 اگست 1947 کو ہندوستانی روپے اور امریکی ڈالر کے درمیان شرح تبادلہ ایک کے برابر تھی…اور آج ہماری کرنسی گرتے گرتے ڈالر کے مقابلے 80روپئے ہوگئی ہے … چمن بیگ سوال کرتے ہیں: کیا بے ایمان انگریز ہمارے ایماندارسیاست دانوں سے کم بے ایمان تھے…؟
۰۰۰٭٭٭۰۰۰