سیاستمضامین

کیا ہمارے انصاف کے ترازو میں پاسنگ ہے؟

سید علی حیدر رضوی ۔ایم اے ( عثمانیہ)۔ایم اے ایم سی جے ( مانو)

فی زمانہ ہم ایک ایسی خود سر ‘ خود بین‘ مطلق العنان اور دستور ہند سے لا تعلق حکومت کے رحم وکرم اور صوابدید پر جی رہے ہیں جس کا تجربہ ہمیں سن 1947ء میں ملک کی آزادی کے بعد سے کبھی نہیں ہوا تھا۔ ہاں البتہ اس اثناء میں اندرا گاندھی کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ایک مختصر وقت کیلئے ایمرجنسی کے دور میں ہوا تھا۔ وہ دور بھی ہندوستانی عوام کیلئے بڑا سخت اور صبر آزما تھا۔جب بھی عوام کی تمام دستوری آزادیوں کو چھین لیا گیاتھا۔ دستور ہند کو معطل کر دیا گیا تھا۔ ظلم اور ستم کو روا کر دیا گیا تھا۔ من مانی ہی ملک کا قانون بن گیا تھا لیکن یہ دور ظلم وزیادتی معلنہ تھا۔ ایمرجنسی کا اعلان کر کے شروع کیا گیا تھا لیکن یہ دورِ ظلم وزیادتی جس کا آغاز 2014 ء سے ہوا ہے غیر معلنہ ہے۔ اندرا گاندھی نے الہٰ آباد ہائی کورٹ کے ایک صادر کردہ فیصلے کے بعد اپنے اقتدار کو بچانے کے مقصد سے شروع کیا تھا لیکن یہ بھول گئیں تھیں کہ اقتدار اس دنیا میں کبھی کسی کا قائم و دائم نہیں ہوتا۔ بقیا سب کو اپنا زوال دیکھنا لازمی ہے چنانچہ الیکشن کے بعد وہ اپنے عہدہ سے معزول ہو گئیں اور مرار جی دیسائی اسی کرسی پر پورے کرو فرسے براجمان ہو گئے یہ اور بات ہے کہ اندرا گاندھی عوام سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگ کر دوبارہ برسر اقتدار آگئیں لیکن جو دور ظلم وزیادتی 2014ء سے شروع ہوا ہے وہ ابھی تک جاری ہے اور کسی سیاہ لمبی رات کی طرح ختم ہونے کا نام ہی نہیںلے رہا ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں یقین ہے کہ اس سیا ہ لمبی رات کے سینہ کو چیر کر کسی دن صبح روشن یقینا نمودار ہوگی۔ اس لئے کہ ہر رات کے بعد سویرا ہوتا ہی ہے پھر ظلم و زیادتی کی عمر لمبی نہیں ہوتی۔ ظالموں کو اللہ مہلت نہیں دیتا۔ یہ قانون قدرت ہے۔
جیسا کہ بالائی سطور میں مذکور ہو چکا ہے کہ اب ہم ایک ایسی حکومت کے رحم وکرم پر جی رہی ہیں جس نے دستور ہند کو بالائے طاق رکھ کر اور سیکولرازم کو مسترد کر تے ہوئے ایسی مطلق العنان حکمرانی کر رہی ہے جو کسی کی سنتی ہی نہیں ہے صرف کہتی ہے کہ وہ بھی صرف آخر کی طرح لیکن جب تقدیر ‘ تدبیر کو الٹ دیتی ہے تو پھر گھگھیائے ہوئے معافیاں مانگتی ہے۔ یہ بات ہم کسانوں پر مسلط کر دہ زرعی قوانین کے وقت دیکھ چکے ہیں۔ کسانوںنے ان سیاہ قوانین کے خلاف مسلسل بلا تھکے ایک سال تک احتجاج کیا اور دھرنے پر بیٹھے رہے اور سات سو کسانوں نے اپنی قیمتی جانیں اپنی بات منوانے قربان کر دیں تب حکومت کے ہوش ٹھکانے لگے۔ یہ بھی نہ ہوتا اگر پانچ ریاستوں کے انتخابات سر پر نہ آجاتے اور حکومت کو اپنی پارٹی کی ہار کے بھیانک آثار نظر نہ آتے۔ تب مودی اچانک مودی جی ٹی وی چیانلوں پراچانک نمودار ہو کر کسانوں سے شرماتے لہجے میں معافی مانگی اور کسانوں کو ان قوانین کو واپس لینے کا تیقن دیا۔ سچ ہی کہا جاتا ہے کہ مجبوری سب کچھ کراتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ گھمنڈی سے گھمنڈی اور جابر سے جابر فرعون حکومتیں بھی جھکتی ہیں لیکن جھکانے والا چاہئے کیونکہ ’’ ہر فرعونے راموسیٰ‘‘ ۔
مودی حکومت سن 2014ء کی انتخابی مہم سے لیکر اب تک صرف کذب بیانی کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ و عدے تو بہت کئے لیکن ایک بھی وعدہ ایفا نہ ہوا۔ چنانچہ عوام آج بھی ’’ سب کا ساتھ ‘ سب کا وکاس‘‘ وعدے کے ایفا ہوناہونے کے منتظر ہیں۔ اگر ایسا ہو جاتا تو مسلمانوں ‘ عیسائیوں ‘ دلتوں‘ سیکھوں اور دیگر اقلیتوں کو انصاف مانگنے کی حاجت نہ ہوتی۔ سن 2014ء اور 2019ء کے دوران کی انتخابی مہموں اور دیگر عوامی جلسوں میں ابھی جو کہا گیا وہ کیا نہیں گیا۔ شاید سیاست میں ایک مثل بہت مشہور ہے کہ ’’ جو بولا وہ کیا نہیں کرتے‘ اور جو کیا نہیں کرتے وہ بولا نہیں کرتے۔
یوں تو بی جے پی اور اس کے قائدین نے اپنی انتخابی مہموں کے دوران عوام کو راغب کرنے بہت سے وعدے کئے ‘ تیقنات دئیے جس کی فہرست کو یہا ں گنا نا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ فہرست بہت طویل ہے اور یہ وقت کا زیاں ہے۔ قارئین کیلئے باعث اکتا ہٹ ہے۔ فضول بھی ہے کیونکہ جو سرے سے ہوا ہی نہیں اس کا ذکر بھی فضول ہے لیکن یہاں جملوں کو دہرانا ضروری اور اہم لگتا ہے کیونکہ ان جملوں نے رائے دہندوں کو خوش فہمی میں مبتلا کر دیا۔ ان پر گہرا اثر ڈالا اوران کی رائے کو محکم بنا دیا۔ ان کی سوچ کو بدل ڈالا۔ انہیں سحر زدہ کر دیا جس کے سحر سے وہ یابھی تک آزاد نہیں ہوپائے ہیں چنانچہ بیچارے ابھی تک اچھے دنوں کے آنے کے انتظار میں رات دن ایک کر رہے ہیں لیکن ابھی تک ان دنوں کے آنے کے چاپ تک انہیں سنائی نہیں دے رہی ہے ۔ اپنے جیبوں کے منہ کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ ان کی جیبوں میں پندرہ لاکھ روپئے آنے والے ہیں۔ بیروز گار کروڑوں نوکریاں ملنے کی امید میں گزشتہ آٹھ سال سے بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ وعدہ کیا گیا تھا کہ بی جے پی کے برسر اقتدار آنے پر رشوت خوری‘ بے ایمانی ‘ مہنگائی کو ختم کر دیا جائے گا۔ سب سے پر ا ثر اور اہم جملہ جو مودی نے کہا تھا وہ تھا نا کھائوں گا اور نہ کھانے دوں گا ۔ یہ جملہ بہت پر اثرثابت ہوا اور کارگر بھی رہا کیونکہ د ور حکمرانی میں رشوت ستانی عروج پر تھی۔ ایک کے بعد دیگر اسکینڈل عوام کے سامنے آرہے تھے جن میں ٹوجی اسکام بہت مشہور ہوا تھا اور کانگریس کے خرمن میں آگ لگادی تھی۔ ایسے میں مودی کا دل موہ لینے والا جملہ بڑا کارگر ثابت ہوا۔ عوام جو کانگریس کی بد عنوانیوں اور گھپلہ بازیوں سے متنفر ہو چکے تھے۔ ایک پاک و صاف حکومت کے قیام کا خواب سجا بیٹھے ۔ وہ عوام جو حسرت ویاس میں بیٹھے تھے۔ نیک توقعات وابستہ کر بیٹھے ۔ نتیجہ میں بی جے پی کو دھڑا دھڑ ووٹ ڈالکر جتادیا۔
سن 2014ء میں تو بی جے پی معمولی اکثریت سے جیت گئی لیکن ان جملہ بازیوں کا سحر اس قدر چھا یا ہوا تھا کہ ٹوٹا ہی نہیں حالانکہ 2014 ء تا 2019 ء کی معیاد میں کوئی خوشحالی نہیں آئی ۔ کوئی وعدہ پورا نہ ہوا لیکن اس کے باوجود سن 2019ء کے انتخابات میں بی جے پی نے مزید بڑی چھلانگ لگائی اور وہ دو تہائی سے زائد اکثریت سے جیت گئی۔ دوسرے ان ریاستوں میں بھی برسر اقتدار آگئی جہاں 1947 ء سے کانگریس کا راج رہا جیسے کرناٹک۔ اب کرناٹک مکمل طور پر ایک فرقہ پرست ہندو وادی ریاست میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس جیت نے بی جے پی کے حوصلوں کو فلک پر پہنچا دیا چنانچہ وہ اب مستقبل میں پچاس سال تک ہندوستان پر حکومت کرنے اور اسے ایک ہندو راشٹر اور اکھنڈ بھارت بنانے کے خواب بن رہی ہے۔ وشوا گرو بننے کی لمبی تان لگا رہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اگلے 30-40 سال ‘ بی جے پی کے ہیں کیونکہ اب کسی بھی اپوزیشن جماعت میں اتنا دم خم اور کس بل نہیں بچا ہے کہ وہ بی جے پی سے مقابلہ اور مسابقت کرسکے۔ تمام اپوزیشن جماعتیں منتشر اور بکھری ہوئی ہیں۔ ان میں آپسی اتحاد اور اتفاق کا فقدان ہے۔ وہ ملک میں جمہوریت قائم کرنے کے عنوان کو لے کر آپس ہی میں مسابقت اور معرکہ آرائی کر رہی ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کے پاس موقع ہے کہ وہ ہندوستان کو وشوا ء گرو بنا دے۔ گویا وہ یہ مان بیٹھی ہے کہ ساری دنیا کی قیادت جو فی الوقت امریکہ اور یوروپی ملکوں کے سپر پائورس کے پاس ہے چھین لے گی۔ خیر چھوڑئیے ان باتوں کو ڈینگیں مارنے والے تو اپنے اقتدار میں بدمست ہو کر ڈینگیں تو ماریں گے ہی۔ کمزور اپوزیشن کی وجہ سے انہیں مسلسل کامیابیاں جو مل رہی ہیں لہٰذا وہ جرأت رندانہ دکھائیں گے ہی۔
اب یہاں یہ نکتہ غور طلب رہ جاتا ہے کہ کیا اس متمدن دنیا میں جہاں عدالت ‘ مساوات ‘ آزادی خیال‘ مذہبی آزادی اور سیکولر ازم کے بر خلاف کوئی حکومت قائم کی جا سکتی ہے۔ بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ہندوستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی عدم رواداری اور زور زبردستی سے بی جے پی حکومت قائم بھی کرلے تو کیا دنیا اسکو قبول کرے گی۔ اقوام عالم کو ایسی حکومت گوارا ہے۔ آج کل تو ساری دنیا میں ایسی سرکاری نیم سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں قائم ہیں جو ساری دنیا میں تمام ملکوں میں انسانی حقوق کی حالت زار اور کیفیت پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ جہاں کہیں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے ان کی تنبیہ کرتی ہیں۔ انہیں تنقیدوں اور ملامتوں کا نشانہ بناتی ہیں۔ انہیں انتباہ دیتی ہیں کہ وہ حالات میں سدھار لائیں ورنہ ان کے خلاف انسانی حقوق کی عدم ادائیگی کی پاداش میں مناسب کارروائی کی جائے گی۔ ایسے ملکوں کے خلاف معاشی تحدیدات لگانا۔ سیاسی بائیکاٹ وغیرہ جیسے اقدام کئے جاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ان معاملات پر نظر رکھنے کیلئے اقوام متحدہ موجود ہے۔ یہ بات کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ کوئی ملک عدالت برپا کئے بغیر وشواء گرو بن سکتا ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اگر کسی قوم و ملک میں عدالت نہ ہو اور نا انصافی کا بول بالا ہو تو وہ حکومت قائم رہ سکتی ہے کیونکہ انصاف اور عدالت اچھی حکمرانی کی شناخت ہوتی ہے۔ ہر قوم ملک میں عدلتی نظام کے نفاذ کا تقاضہ کرتی ہے۔ اگر عدالت نہ ہو یا عدالت غلط فیصلے کرے ۔ مظلوم کے بجائے ظالم کا ساتھ دے تو پھر وہاں پر فساد یقینا پھیلے گا او ر مخالفت میں آوازیں اٹھیں گی کیونکہ جب عوام کا عدالت پر اعتبار اٹھ جاتا ہے۔پھر زندگی کے تمام شعبوں پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ زندگی دشوار ہو جاتی ہے ۔ امن وضبط ختم ہو جاتاہے۔
انصاف رسانی کا عمل پاک و صاف اور شفاف معدلت ہی انسانی معاشرے کو مطمئن رکھ سکتا ہے۔ تحفظ فراہم کر تا ہے۔ ہر انسان خود کو اور اپنے خاندان اور متعلقین کو مامون متصور کرتا ہے۔ جس جگہ انصاف نہ ہو وہ جگہ کسی صورت میں مامن نہیں سمجھی جا سکتی چنانچہ ہر متمدن معاشرہ میں عدالت قائم ہے کیونکہ جہاں قانون اور انصاف کی حکمرانی نہ ہوگی وہ جنگل کہلاتا ہیاس لئے جنگلوں میں کوئی قانون نہیں ہوتا ۔جنگل میں جس کی لاٹھی اسی کی بھینس ہوتا ہے۔ ایسے ماحول کے تعلق سے مثل مشہور ہے کہ ’’ جس کے چار بھیا ماریں دھول چھین لیں رویتا‘‘۔
ہندوستان گزشتہ آٹھ سال سے یہی ماحول میں ہوگیا ہے۔ بی جے پی حکومت میں گورکھشکوں ‘ بجرنگ دل‘ وشوا ہند و پریشد ‘ ہندو واہنی اور اسی قبیل کی دیگر تنظیموں کے ہاتھوں میں لاٹھی تھمادی گئی۔ انہیں کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ پولیس اور حفاظتی دستے ان کو تحفظ فراہم کرنے پر مامور ہیں عدالتیں انصاف کرنے میں خو د کو معذور پارہی ہیں کیونکہ ان پر بیجا دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ عدالت کی مورتی کی تو آنکھوں پر پٹی بندھی ہے اور ہاتھ میں جو ترازو ہے اس میں پاسنگ رکھ دیا گیا ہے۔یہ پاسنگ حکومت اور پولیس کی ملی بھگت سے رکھا گیا ہے۔ لہٰذا اس ترازو کا پلڑا ایک ہی طرف جھکتا ہے۔ ظالم کے حق میں جھک جاتا ہے اور مظلوم کے حق میں اوپر اٹھ جاتا ہے ۔ کیونکہ عدالت کے منصف وہی دیکھتے ہیں جو پولیس انہیں دکھاتی ہے چونکہ ان کی آنکھ پر پٹی جو بندھی ہوئی ہے ۔ اسی کا فائدہ اٹھا کر پولیس ایسے ثبوت عدالت میں پیش کرتی ہے جو ظالم کے حق میں برأت کا سبب بنیں اور مظلوم ومعصوم کے حق میں مستجب سزاء بنیں کیونکہ حکومت نے انہیں ہدایت دے دکھی ہے کہ اس کے مخالف عدالت سے بچ کرجانے نہ پائیں۔
بی جے پی حکومت میں ملزم آزاد گھوم رہے ہیں اور بے گناہ قید وبند کی صعوبتیں اٹھارہے ہیں۔اگرچیکہ حکومت اس الزام کو مسترد کر تی ہے اور یہ کہتی ہے کہ سب کا انصاف ہو رہا ہے کسی کے ساتھ کوئی زیادتی یا ظلم اور نا انصافی نہیں ہو رہی ہے۔ مگر ان حقائق سے کون انکار کر سکتا ہے کہ نپور شرما کے جرم کا پردہ فاش کیا تھا بلا کسی خطا کے جیل میں بند ہیں۔ اسی طرح تیستاستلو اد جنہوں نے گجرات فسادات کی متاثرہ خاتون ذکیہ جعفری کو انصاف دلانے کا بیڑہ اٹھا یا تھا اور اس ضمن میں پر خلوص کوشش کی تھی جیل میں ہیں اور مودی جی کو عدالت سے کلین چیٹ مل چکی ہے کیونکہ ان کے خلاف کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہوسکا ۔ نپور شرما کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے بعض نوجوان غصہ وغم پیدا ہوا۔ انتقامی جذبہ شدت اختیار کیا گیا چنانچہ دو نوجوانوں نے قانون کو اپنے ہاتھوں لیکر نا عاقبت اندا ز اقدام کیا اور ایک درزی کنھیا لال کو راجستھان کے اودے پور میں قتل کرڈالا کیونکہ اس نے نپور شرما کے گستاخانہ بیان کی حمایت کی تھی۔ آج وہ جیل میں ہیں۔ انہیں اندرون دو دن گرفتار کر لیا گیا۔ بر خلاف اس کے گائو رکھشکوں نے جن مسلم نوجوانوں یعنی اخلاق حافظ ‘ جنید اکبر خاں اور دیگر کو بڑی بیدردی سے قتل کرڈالا لیکن ان سب کے قاتل آزاد ہیں۔ ان کی ابھی تک گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔کنہیا درزی کے قاتل مسلمان نوجوانوں ریاض انصافی اور غوث کو تو فوری گرفتار کرلیا گیا ہے لیکن ان مسلمان نوجوانوں کو جنہیں گائو رکھشکوں نے ہلاک کر دیا انہیں کیوں نہیں گرفتار کیا گیا۔ آخر یہ امتیاز کیوں ؟ حالانکہ ان مسلم نوجوانوں یہ قتل جذبات میں آکر کیا ہے۔ یہاں میں مودی جی کو ان ہی کا ایک کہا ہوا جملہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہر ایکشن کا ایک ری ایکشن بھی ہوتا ہے۔اسی لئے کہ ہمارے انصاف کے ترازو میں پاسنگ ہے۔ جو ظالم کے حق میں جھک جاتا ہے اور مظلوم کے حق میں اوپر اٹھ جاتا ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w